اسلاموفوبیا کے فتنے کا توڑ اور عمران خان

شکیل فاروقی  منگل 22 اکتوبر 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس سے تاریخ ساز خطاب کو اگرچہ بہت دن گزر چکے ہیں لیکن اس کی بازگشت بھی تک سنائی نہیں دے رہی ہے۔ اس اجلاس سے ان کے علاوہ دیگر مسلم ممالک سربراہوں نے بھی خطاب کیا مگر دین اسلام کو بد نام کرنے کے لیے اسلاموفوبیا کی آڑ لے کر 9/11 کے واقعے کے بعد سے مسلسل جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ممالک کے خلاف ببانگ دہل صدائے حق بلند کرنے کی جرأت کا مظاہرہ صرف وزیر اعظم عمران خان نے ہی کرکے دکھایا۔ انھوں نے اپنے اس عمل سے نہ صرف یہ ثابت کردیا کہ وہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک پاکستان کے مخلص رہنما ہیں بلکہ پوری مسلم امہ کی ہمدردانہ نمایندگی کا جذبہ رکھنے والے مثالی لیڈر بھی ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے فقید المثال خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے واشگاف الفاظ میں اقوام عالم پر واضح کردیا کہ ’’میرا ایمان لاالہ الا اللہ، محمد الرسول اللہ‘‘ ہے۔ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی باور کرا دیا کہ کوئی بھی مسلمان گستاخی رسولؐ اور توہین رسالت کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرسکتا۔ انھوں نے اس معاملے میں کسی بھی قسم کے معذرت خواہانہ رویے سے قطعاً گریزکیا اور نہایت دبنگ لب و لہجہ اختیارکیا۔ انھوں نے ہر لفظ محض زبان سے نہیں بلکہ صمیم قلب سے ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بات کو پوری توجہ اور سنجیدگی سے سنا گیا۔

عمران خان نے عالمی قائدین کو مخاطب کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ نبیؐ آخر الزماں کی عظمت کو سمجھنا نہایت اہم ہے کیونکہ آپؐ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ جب ان کی توہین ہوتی ہے یا ان کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے تو ہمارے دل مجروح ہوتے ہیں۔ ہم انسانوں کو معلوم ہے کہ دل کا درد جسمانی تکلیف کے مقابلے میں بہت زیادہ شدید ہوتا ہے۔

ان کے یہ الفاظ انمول موتیوں سے کم نہیں۔ یہ الفاظ عظمت رسولؐ اور حب نبیؐ کے بہترین ترجمان ہیں اور ان سے شان رسالت کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ عمران خان نے لگے ہاتھوں اس گمراہ کن تاثرکی بھی نفی کردی کہ دنیا میں ’’انتہا پسند اسلام‘‘ نام کے کسی اور اسلام (Radical Islam) کا بھی کوئی وجود ہے۔ انھوں نے واضح کردیا کہ اسلام صرف اور صرف ایک ہی ہے جس کا دہشت گردی سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ یا تعلق نہیں ہے۔ ریڈیکل اسلام کی اصطلاح دراصل اسلام کو بدنام کرنے کی گھناؤنی اور مذموم سازش کا ایک جزو ہے جسے خودکش حملوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ عمران خان نے اس ضمن میں دوسری عالمگیر جنگ کے دوران جاپان کی جانب سے حملہ آور خودکش بمبارکا حوالہ بھی پیش کیا۔ جو جنگی جہاز لے کر سمندری جہازوں کی چمینوں میں گھس جاتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ تب تو کسی نے مذہب کو بدنام نہیں کیا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ کسی مذہب کی توہین کا اسلام یا مسلم معاشروں میں تصور تک نہیں کیا جاسکتا چہ جائیکہ اس کی توہین کی جائے۔ انھوں نے اس حوالے سے ایک واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے یاد دلایا کہ جب وہ پہلی مرتبہ انگلینڈ گئے اور انھیں 1979 کی Python’s Life of Brain نامی ایک کامیڈی فلم کے بارے میں سننے کو ملا، ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی حرکت کا کسی مسلم معاشرے میں تصور بھی عبث ہے۔ انھوں نے بالکل بجا کہا کہ انسانی جذبات کا معاملہ بڑی حساس نوعیت کا ہوتا ہے جو انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے۔ عمران خان نے خبردار کیا کہ آزادی اظہار کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو منہ میں آئے بک دیا جائے اور شتر بے مہار کی طرح جو جی میں آیا وہ کردیا جائے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں۔‘‘

اسلام نہ صرف دین فطرت ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات بھی ہے جو نہ صرف انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیتا ہے بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی صلہ رحمی سکھاتا ہے۔

اسلاموفوبیا کا ہوا کھڑا کرکے اقوام عالم کو اسلام کے خلاف بہکانے، ورغلانے اور بھڑکانے والے دشمنان اسلام کس درجے کے جھوٹے، عیار و مکار، دھوکا باز اور ڈرامے ساز ہیں۔ ان ننگ انسانیت کو اسلام کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت فسانے تراشتے ہوئے ذرا بھی شرم نہیں آتی اور یہ احساس بھی چھو کر نہیں گزرتا کہ جب ایک نہ ایک دن سارے جھوٹ کا پول کھلے گا تو اسلام کے خلاف ان کی دروغ گوئی اور جھوٹی الزام تراشی Back Fire کرے گی۔

وزیر اعظم عمران خان نے یہ بات کھل کر کہی کہ 9/11 کے واقعے کے بعد مسلم رہنما یہ باور کرانے میں ناکام ہوگئے کہ اسلام تو کجا دنیا کا کوئی بھی مذہب شدت پسندی کا پرچار نہیں کرتا۔

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

عمران خان کا کہنا تھا کہ اسلام کو بدنام کرنے کے جھوٹے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے بجائے مسلم لیڈروں نے دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے مغرب کی نقالی شروع کردی اور اتباع کے طور پر مغربی لباس زیب تن کرنا شروع کردیا اور اپنی زبان کو ترک کرکے انگریزی زبان بولنا شروع کردی۔ اس نمائشی روش کو روشن خیال اعتدال پسندی کا نام دیا گیا۔ عمران خان نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ اسلام کو شدت پسندی کے ہم رکاب قرار دینا سراسر زیادتی اور بے انصافی ہے۔

آج سے بیس سال قبل جب ستمبر کے ستم گر مہینے کے دوران نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں واقع ٹوئن ٹاورز کا واقعہ پیش آیا تو مسلم قائدین نے ’’گربہ کشتن روز اول‘‘ کی حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کرلی جس کے باعث مغربی ممالک کو اسلام کو بدنام کرنے کا موقع اور حوصلہ مل گیا۔

اس کے بعد کا عشرہ ان ممالک کا بحرانوں سے نمٹنے کی جدوجہدکی نذر ہوگیا۔ انڈونیشیا، سعودی عرب اور پاکستان پر مشتمل مسلم ممالک اندرونی دہشت گردی کا شکار ہوگئے جب کہ افغانستان اور عراق بیرونی جارحیت کی بھینٹ چڑھ کر تباہ و برباد ہوگئے۔ ان عوامل کی وجہ سے اسلاموفوبیا کی بڑھتی ہوئی یلغار کے آگے عالم اسلام کے حوصلے پست ہوگئے۔ افسوس کہ اس وقت مسلم دنیا کو عمران خان جیسا نڈر اور بلند حوصلہ ذی شعور کرشماتی قائد میسر نہیں آیا جو اغیار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا، اس کے جھوٹے اور زہر آلود پروپیگنڈے کا بروقت توڑ کرتا اور یہ فتنہ پروان نہ چڑھتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔