مولانا فضل الرحمن کا دھرنا

علی احمد ڈھلوں  منگل 22 اکتوبر 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

1987کے ورلڈ کپ میں پاکستان فیورٹ تھا،  سیمی فائنل تک بھی رسائی حاصل کرچکاتھا، فیورٹ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے گزشتہ سال بھارت کو بھارت میں اور انگلینڈ کو انگلینڈ میں ہرایا تھا اور اس کے کھلاڑی بھرپور فارم میں تھے۔لیکن سیمی فائنل میں سب کچھ اُلٹ ہو گیا جب آسٹریلیا نے پاکستان کو غیر متوقع طور پر ہرا دیا۔اُس دن سب کچھ عمران خان کی اُمیدوں کے برعکس جا رہا تھا، وکٹ کیپر زخمی ہوکر ٹیم سے باہر ہوچکا تھا، ایک موقعے پر جاوید میاں داد اور عمران خان نے ذمے دارانہ بلے بازی کرتے ہوئے بالترتیب 70 اور 58رنز بنائے۔

عمران خان کو امپائر ڈکی برڈ نے آؤٹ قرار دیا جس پر عمران خان نے اپنے انداز میں احتجاج کیا۔ ان کے خیال میں وہ آؤٹ نہیں تھے۔بعد میں ڈکی برڈ نے بھی اعتراف کیا کہ ان کا وہ فیصلہ درست نہیں تھا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ اس ایک غلط فیصلے نے ورلڈ کپ کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔بہرحال یہ وہ تمام عوامل تھے جو پاکستان کی شکست کا باعث بنے۔ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں شائقین  حیرت کا مجسمہ بنے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔عمران خان چونکہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے تھے اس لیے وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے جو بعد ازاں صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کے کہنے پر واپس آئے اور 1992کا ورلڈ کپ جتوایا۔

آج پھر عمران خان کے لیے ویسے ہی حالات بنے ہوئے ہیں، عوام کی اکثریت نالاں نظر آرہی ہے، بھارت آنکھیں دکھا رہا ہے، کشمیر کے عوام حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں اور آج کل مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے کا اعلان کرکے ملکی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ حکومت بظاہر اس دھرنے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے نہ چاہتے ہوئے بھی مولانا سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے۔

وزیراعظم کا خیال ہے کہ مولانا کا دھرنا سات دن بھی جاری نہیں رہ سکے گا۔ ادھر مولانا فضل الرحمن بھی حکومت کی اعصاب شکنی کے بھرپور دعوے اور ’’حکمت عملی‘‘ بناتے نظر آرہے ہیں۔لیکن سمجھ سے باہر ہے کہ بمشکل ایک صوبے کی جماعت ملک بھر میں آزادی مارچ کا اعلان کرچکی ہے اور وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے، حالانکہ یہ مطالبہ بادی النظر میں ذاتی تسکین سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے کیوں کہ اس مطالبے کے پیچھے کوئی Solid Reasonنظر نہیں آرہی۔

گزرے جمعہ کو سیفما کے سیکریٹری جنرل اور معروف صحافی امتیاز عالم نے مولانا فضل الرحمن کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام کیا، جہاں دیگر صحافی بھی مدعو تھے۔ جو مولانا سے پوچھنا چاہتے تھے کہ اُن کے دھرنے کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ کیوں دھرنا دینا چاہتے ہیں؟ ملاقات میں انھوں نے جو چونکا دینے والی بات کی وہ یہ تھی کہ ملک سے دہشت گردی کسی اور نے نہیں بلکہ ہم نے ختم کی۔

ان سے پوچھا گیاکہ وہ ایک صوبائی جماعت ہیں، تو وہ کیوں حالات خراب کرنے کا باعث بن رہے ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ جے یو آئی قومی سطح کی جماعت ہے اور پورے ملک سے اپنے اُمیدواروں کو میدان میں لاتی ہے (حالانکہ ساڑھے تین سو اراکین سے زائد کی قومی اسمبلی میں جے یو آئی کے پی کے سے محض 5، 6نشستیں لیتی ہے، اور اس کے ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ملک بھر کی محض 2سے 3فیصد ووٹ رکھنے والی جماعت رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق 1988 کے الیکشن میںانھیں 2.3فیصد ووٹ ملے، 1993 میں بے نظیر بھٹو کے دور میں انھیں 2.2فیصد ووٹ، 2008 میں محض 2.3فیصد اور 2013 کے الیکشن میں بھی اتنے فیصد ہی ووٹ نصیب ہوئے۔

خیرملاقات میں دوستوں نے مولانا سے بہت سے سوالات بھی کیے۔ ایک دوست نے پوچھا کہ اپنا مکمل منصوبہ بتائیں، مطالبات کی فہرست فراہم کریں کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ اس پر مولانا صاحب فرمانے لگے کہ ہم دھرنا دینے کے بعد اپنے مطالبات اور لائحہ عمل بتائیں گے۔ پھر ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ پرائم منسٹر سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دیگر ’’پوشیدہ مطالبات‘‘ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ مطالبات کس کے سامنے رکھیں گے؟ اس کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ دوستوں کی جانب سے تین چار سوال کیے تو جواب سمجھ میں نہیں آئے۔ مثلاً پوچھا گیا کہ عمران خان کو ہٹانے کا سیاسی مطالبہ الگ رکھیں لیکن اس کے علاوہ اگرمذاکرات کرنے ہوں تو وہ کون سی باتیں ہوںگی۔

جواب ندارد۔ بہرکیف ملاقات کا لب لباب امتیاز عالم خان صاحب نے اپنے کالم میں لکھ ہی دیا ہے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ مولانا بغیر کسی واضح ایجنڈے کے ’’آزادی مارچ‘‘ کرنا چاہ رہے ہیں اور حکو مت کے لیے مزید مسائل بڑھانا چاہ رہے ہیں۔ حکومت جو پہلے ہی بہت سے محاذوں پر لڑ رہی ہے۔اُسے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کیا جائے۔ اُسے معیشت اتنی خراب ملی تھی کہ حالات قابو میں آنا مشکل ہو رہے تھے۔اسی اثنا ء میں آئی ایم ایف کو بلایا گیا اور یہ تانگہ ان کے حوالے کر دیا گیا۔ اپنی سواریاں بھی وہ خود لے کر آ گئے اور لوگوں کو چابک مار کر گھوڑے کو کم ازکم دلکی چال تک لانے کی کوشش جاری ہے۔

بڑے کڑوے فیصلے کرنا پڑے اور مزید کرنے پڑیں گے مگر کم از کم عمران خان یہ تو کہہ سکیں گے کہ ہم نے دیوالیہ ہونے سے بچا لیا اور زیادہ تر فیصلے آئی ایم ایف والوں نے کیے جو ہمیں مجبوراََ ماننے پڑے کہ حالات ہی ایسے تھے پھر گرے اور بلیک لسٹ کا مسئلہ بھی دباؤ کے تحت حل کیا جا رہا ہے چوروں کو پکڑکر اور منی لانڈرنگ کے بڑے بڑے کیس کھول کر دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ چوروں اور لٹیروں کے لیے کوئی این آر او نہیں ہے۔

اس پر بھی بہت سیاسی دباؤ ہے۔تیسرا پہاڑ مہنگائی کا ،اوپر سے ڈنگی، کچرا کنڈیاں اور سب سے بڑا سوال پنجاب میں کیا ہو رہا ہے اور کیسے؟الغرض 2018میں جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو ایک ادارہ بھی منافع بخش صورتحال پر نہیں تھا، ایک پراجیکٹ بھی ایسا نہیں تھا جو پرافٹ میں تھا۔ یعنی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کو ایسے قرضوں میں پھنسایا گیا، اور ایسے پراجیکٹس شروع کیے گئے جس سے پاکستان مسائل کی دلدل میں پھنستا چلا جائے۔

الغرض ہر ادارہ حکومت کے لیے سر درد بنا ہوا تھا، مولانا فضل الرحمن دھرنا دینے کیوں جا رہے ہیں؟ حکومت بے بس نظر آرہی ہے۔آج جب ہر چینل کے پرائم ٹائم پر دھرنا ڈسکس ہو رہا ہے اور اسے ہائپ مل رہی ہے تو یقینا جولوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں وہ سب کچھ بھانپ بھی رہے ہیں۔ن لیگ اور پی پی پی نے مولانا کو آگے رکھنے کی جو حکمت عملی اپنائی ہے، اس کا نتیجہ بھی سامنے آہی جائے گا۔

مختصر یہ کہ پورے ملک سے لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک شہر میں لانا اور پھر وہاں بیٹھ جانا ایک مہنگا اورمحنت طلب کام ہے۔ مولانا کے دھرنے کا مقصد حکمرانوں سے استعفیٰ لینا بتایا جاتا ہے۔ اگرچہ عدم تشدد کا پیغام بھی دیا جا رہا ہے لیکن کیا اتنی بڑی تعداد میں مختلف شہروں سے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے بعد انھیں منظم رکھنے اور تشدد پر مائل نہ ہونے کی گارنٹی ممکن ہے؟اگر مولانا صاحب کے دھرنے کو اس پیمانے پر پرکھا جائے تو اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن نظر نہیں آتے۔ لیکن اس دوران ملک و ملت کا جو نقصان ہوگا کیا ہم سب اس حوالے سے بے خبرہیں؟ اگر نہیں تو خدارا دنیا کے سامنے ہمیں ایک بار پھر شرمندہ ہونے سے بچایا جائے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔