مجھے ناشرین نے دھمکایا کہ ’کتابیں بیچنے سے تعلق رکھو، چھاپنے سے نہیں‘ سید فرید حسین

رضوان طاہر مبین  منگل 22 اکتوبر 2019
تیسری جماعت سے اردو بازار میں ہوں، مطالعے کی خواہش نے کتابوں سے دور نہ ہونے دیا

تیسری جماعت سے اردو بازار میں ہوں، مطالعے کی خواہش نے کتابوں سے دور نہ ہونے دیا

یہ 1970ء اور 1980ء کی دہائی کا شورش زدہ کراچی ہے۔۔۔ جب شرپسندوں نے فرقہ واریت کا زہر بھر دیا ہے، اور تفرقے بازی کا یہ ناگ اس نگر کو بری طرح ڈس رہا ہے۔۔۔ امن وامان کے واسطے یہاں کرفیو کا نفاذ ہوتا ہے۔۔۔ جس میں روزانہ کچھ دیر کو وقفہ بھی ہوتا ہے۔۔۔ اور گھر سے باہر نکلنے کی اس چُھوٹ میں شہری اپنی ضروریات زندگی کے سامان کے لیے دوڑے پڑتے ہیں۔۔۔

گلی محلے کی دکانوں میں ایک بھیڑ پڑی جاتی ہے۔۔۔ کہیں قطاریں ہوتی ہیں تو کہیں دھکم پیل کا عالَم ہوتا ہے، اشیائے خوردونوش کا کال پڑا جاتا ہے، لیکن اس کرفیو میں نرمی کے انتظار میں ایک شخص ایسی تمام فکروں سے ماورا بھی ہے، وہ تو اپنے ’بورے‘ تیار کر کے تاک میں ہوتا ہے۔۔۔ کہ کب کرفیو اُٹھے اور کب وہ یہ بار اٹھائے اپنے اہداف پورے کرنے کو نکل پڑے اور دوبارہ کرفیو لگنے سے پہلے پہلے اپنی کارروائی مکمل کر کے لوٹ آئے۔۔۔

یہ شخص نہ تو کھانے پینے کی چیزوں کے لیے دوڑتا ہے اور نہ ہی اپنے کسی مذموم مقصد کے لیے۔۔۔ اس کے بورے بھرے ہوئے ہیں، لیکن اس میں نہ تو شر پھیلانے کا سامان ہے اور نہ ہی بھوک مٹانے کے لوازم۔۔۔ اس میں تو کتابیں ہیں۔۔۔ جسے وہ طارق روڈ اور نرسری سے لے کر لالو کھیت اور ناظم آباد وغیرہ تک کی دکانوں اور ’آنہ لائبریوں‘ میں دینے جاتا ہے، تاکہ وہاں آنے والے قارئین خالی ہاتھ نہ جائیں۔۔۔ پھر 1992ء کے ’کراچی آپریشن‘ کے دوران بھی اس کی یہی مشق رہی۔۔۔ یہ ’فرید پبلشرز‘ کے روح و رواں سید فرید حسین ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ 1965ء میں کراچی میں آنکھ کھولی، سات بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ والدین کا تعلق شمالی ہندوستان کے علاقے ’بدایوں‘ سے ہے، ممتاز شاعر شکیل بدایونی والدہ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ پڑھنا لکھنا اور اچھی زبان وراثت میں ملی، والد عام بول چال کے الفاظ درست کراتے۔ چھے سال کی عمر میں والدہ سے قرآن پاک مکمل پڑھ لیا، والدہ حافظ نہ تھیںِ، لیکن باورچی خانے میں سے ہی سن کر غلطی بتا دیتی تھیں، کلام پاک کا اچھا تلفظ انہی کی دین ہے۔

فرید حسین اپنے والد سید تہذیب حسین کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وہ  یہاں سرکاری ملازم رہے، جاتے تو روزانہ تھے، لیکن کام ایسا کچھ خاص نہ کرتے تھے، دادا ’بدایوں‘ زمیں دار  تھے، وہ وہیں رہے، دو پھوپھیاں یہاں بیاہی گئی تھیں، اس لیے دادی پاکستان آگئی تھیں۔ والد ہندوستان گئے اور دادا بھی پاکستان آئے، لیکن فرید حسین کبھی نہ جا سکے۔

سال میں دو بار فصلوں کی کٹائی کے بعد دادا ہمیں یہاں پیسے بھیجتے، اس لیے کوئی معاشی تنگی نہ تھی۔ جب روپیا آتا تو ہم یہاں اپنا مکان بنا لیتے، وہاں سے روپیے کے تبادلہ یوں ہوتا کہ یہاں والوں نے وہاں والوں سے طے کر لیا کہ تم اُدھر دے دو بدلے میں ہم اِدھر تمہارے حساب میں دے دیں گے۔ پھر دادا نے پیسے بھیجنے بند کر دیے، کہا کہ تہذیب میاں (فرید حسین کے والد) بڑے خرچیلے ہوگئے ہیں، اب جب  میرے پوتے بڑے ہوں گے، تو میں خود پیسے دینے جاؤں گا، 1984ء میں دادا یہاں آنے والے تھے، لیکن جس دن انہیں یہاں آنا تھا ، اس سے ایک دن پہلے بیمار پڑے اور انتقال کر گئے، مجھے لگتا ہے کہ خاندان کے کسی فرد نے ہی ان کی جان لی، کیوں کہ وہ یہاں روپیا لانے والے تھے۔

سید فرید حسین ماضی کے در وا کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے 1952ء میں ہندوستان سے ہجرت کی اور جیکب آباد آئے، پھر سکھر میں خاندان کے کئی لوگوں کو بسایا اور سکھر کی پہلی آٹے کی چکی ’نیم کی چاڑی‘ میں قائم کی۔ پھر 1960ء کے زمانے میںکراچی اگٓئے، یہاں پاک کالونی کی طرف آصف کالونی کے نام سے ایک بستی بسائی، ناظم آباد میں بھی لوگوں کو گھر بنوا کر دیے۔

ذریعۂ معاش کے لیے بھینسوں کا باڑا قائم کیا، ان کی 60 بھیسنیں تھیں، جن کا دودھ بکتا کم اور بٹتا زیادہ تھا، پھر بھی بچ جاتا، تو ضایع کرنا پڑتا۔ ایک مرتبہ ہندوستان گئے، تو اِن کے پیچھے رکھوالے نے ہیرا پھیری کر کے سارا کاروبار تلپٹ کر دیا، لیکن والد شریف النفس آدمی تھے، کبھی کوئی جھگڑا نہیں کیا، انہوں نے یہاں 140 سے زائد شادیاں طے کرائیں، جو اب خوش وخرم زندگی گزار رہے ہیں، وہ اتنی بے لوث فکر کے مالک تھے کہ اس موقع پر اگر کوئی تحفہ بھی دیتا، تو وہ اسے بھی قبول نہ کرتے۔ انہوں نے ’نئی کراچی‘ میں ایک ’مارٹ‘ بھی کھولا، جہاں آٹا اور چینی وغیرہ بغیر راشن کارڈ کے بھی مل جاتی تھی، پھر کچھ عرصے بعد وہ بھی ختم ہو گیا۔

اپنی تعلیم کے حوالے سے فرید حسین بتاتے ہیں کہ مختلف سرکاری اسکولوں کے طالب علم رہے، جیکب لائن کے گورنمنٹ اسکول میں پڑھے، جہاں  ڈاکٹر پیرزادہ قاسم سمیت  بہت سے نام وَر لوگ زیر تعلیم رہے، یہاں بڑے بھائی کے ساتھ اداکار جاوید شیخ، بہروز سبز واری وغیرہ ہوتے تھے۔ والد ’جٹ لائن‘ کے ماحول سے مطمئن نہ ہوئے تو وہاں سے کوچ کیا۔

پھر پاپوش نگر اور فیڈرل بی ایریا وغیرہ میں بھی رہائش رہی۔ بُری صحبت سے بچانے کے لیے ہی والد نے انہیں تیسری کلاس سے ’اردو بازار‘ میں کام پر لگا دیا، یہ 1970ء کا عشرہ تھا، 125 روپے مہینا طے ہوا، اسکول کے بعد جب سب بچے کھیلنے کود میں لگے ہوئے ہوتے، تو وہ جٹ لائن سے پیدل دکان جا رہے ہوتے، یہ  بہت برا لگتا، لیکن کشش یہ تھی کہ دکان پر بہت ساری کتابیں پڑھنے کا موقع مل جاتا، گھر جاتے ہوئے بھی کتابیں لے جاتے، چوتھی، پانچویں جماعت تک عمروعیار اور امیر حمزہ وغیرہ پڑھ لیے۔ میٹرک کے بعد پھر شام میں ’ایس ایم کالج‘ میں داخلہ لیا، جو دکان والوں کو پسند نہیں آیا۔ انہوں نے والد سے کہہ دیا کہ انہیں اب شوق نہیں رہا۔

پھر والد اکاؤنٹس کے شعبے میں لے گئے، آٹھ ہزار تنخواہ تجویز ہوئی، لیکن وہ رات بھر سوچتے رہے کہ یہ بالکل اجنبی دنیا ہوگی، اور کتابیں کیسے پڑھوں گا، ایسے حالات بھی نہیں کہ کتابیں خرید سکوں۔ چناں چہ ملازمت پر جانے کے بہ جائے کتابوں کی فراہمی کا کام شروع کر دیا۔ کتب فروش پہلے ہی ان سے مانوس تھے، اس لیے خوب حوصلہ افزائی ہوئی، پھر دھیرے دھیرے انہیں دیگرشہروں سے کتابوں کی پوری ایجینسی ملنے لگی۔

1984ء میں انہوں نے کتابوں کی اشاعت بھی شروع کر دی، یعنی ’فرید پبلشرز‘  قائم ہو گیا۔ ہم نے پوچھا کہ پہلی کتاب کون سی چھاپی؟ تو فرید حسین نے بتایا کہ ابتداً ممتاز شاعر محسن بھوپالی کے مجموعے ’ماجرا‘ اور ’گرد مسافت‘ وغیرہ شایع کیں، پھر سلیم کوثر کا کلام چھاپا، محسن بھوپالی اور کراچی کے دیگر مصنفین کو  لاہور کے ناشرین نہیں چھاپتے تھے، ہم نے انہیں فروغ دیا۔ پھر عارف شفیق، خالد معین اور فاطمہ حسن وغیرہ کو بھی شایع کیا۔ جب میں نے کتابیں چھاپنا شروع کیں تو لاہور کے بہت سے ناشرین نے دھمکایا کہ تم صرف کتابیں بیچنے سے واسطہ رکھو، چھاپنے سے نہیں! کراچی کے بھی کچھ بڑے کاروباری اداروں نے مجھے روکنا چاہا، لیکن میں ڈٹا رہا۔‘

ہم نے فرید حسین سے اب تک شایع کی جانے والی کتابوں کا شمار پوچھا، تو وہ یہ کہہ کر ٹال گئے کہ کبھی اس طرح گن کر کام نہیں کیا۔ اُن  کے خیال میں ضیا دور کے بعد کتب بینی زوال پذیر ہوئی۔ انہوں نے بات ضیا دور سے جوڑی، تو ہم نے اس کے سیاسی اسباب کے خیال سے انہیں مزید ٹٹولا، لیکن وہ بولے کہ شاید ٹی وی کا چلن عام ہوا اور لائبریریاں ختم ہونے لگیں، عوامی کتب خانوں میں ایک کتاب کے 20،  20سیٹ جاتے تھے۔

وہ بہت آسانی سے کتاب کی قیمت وصول کرلیتے تھے، ہر علاقے میں ہماری گاڑی بھر کر جاتی تھی، آج ڈیفنس کلفٹن کا کتاب فروش بھی ایک دو نسخے ہی لیتا ہے۔ پہلے کتابوں کا ایک ایڈیشن ہی دو ہزار چَھپتا تھا اور اب فقط 500 یا 300 ہی چَھپ کر رہ جاتی ہے، جب کہ پہلے بری سے بری کتاب بھی ہزار تک بک ہی جاتی تھی۔ دوہزار نسخے تو صرف رضیہ بٹ کے کراچی کے لیے آتے تھے، کرفیو میں بھی ہم ایک کتاب کے ہزار، ہزار نسخے ختم کرلیتے تھے، اب500 نسخے بک جانا ہی بڑی بات ہوتی ہے، البتہ جو ناول ’ڈراماٹائز‘ ہو جائے، وہ بہت فروخت ہوتا ہے، عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے ناولوں کی بہت مانگ ہے۔

فرید حسین کا خیال ہے کہ ’انٹرنیٹ کا مواد غیر معتبر ہوتا ہے، مطبوعہ کتاب رہتی دنیا تک رہے گی‘ ہم نے کہا جب معتبر مصنفین انٹرنیٹ پر ہی لکھنا شروع کر دیں، تب تو وہ معتبر ہو جائے گا؟ وہ بولے کہ مطبوعہ کتاب کے بغیر کوئی منصف نہیں کہلا سکتا، گورے ہم سے 150 سال آگے ہیں، وہاں آج بھی کتابوں کے لاکھوں کے ایڈیشن چھپ رہے ہیں۔

ہم نے کہا جب ایک ضخیم کتاب کا نسخہ موبائل میں سما جائے، تو پھر تو موبائل میں پڑھنا ہی سہل ہوگا؟ وہ بولے کہ ’یہ ٹھیک ہے، لیکن موبائل کا زیادہ استعمال ہمارے جسم پر کس قدر مضر اثرات کا باعث ہے، اس کا ہمیں ابھی ٹھیک سے اندازہ نہیں ہے۔‘

عام ناشرین کی جانب سے مصنفین کے استحصال کی تائید کرتے ہوئے فرید حسین کہتے ہیں کہ کتاب چلنے والی ہو تو معاوضہ لکھاری کا حق بنتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ اگر کسی کی پہلی تصنیف ہو تو پہلے سے کتاب کے چلنے نہ چلنے کا تعین کیسے کریں گے؟ کہتے ہیں کہ مشاعروں یا رسائل وجرائد میں مقبولیت سے پتا چل جاتا ہے۔ مجھ سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس کے ساتھ غلط کیا۔ میں نے منظر بھوپالی کو  10فی صد رائلٹی دی، تو وہ حیران رہ گئے، بولے کہ پچھلے ناشر نے تو 25 کتابیں تک نہ دی تھیں۔ دیگر ناشرین اور خود میں فرق کے سوال پر وہ کہتے ہیں کہ جرأت مندی کا فرق ہے۔

کتابوں کی صنعت کے مسائل کا ذکر ہوا تو  فرید حسین بولے کہ معیشت کی زبوں حالی میں حکومت سے کیا شکایت کی جائے، یہاں ہر کتاب کے تین نسخے اکادمی ادبیات میں جمع کرانے کا قانون تو ہے، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ حکومت کسی کتاب کے ہزار پانچ سو نسخے ہی خرید لے۔ پہلے لندن اور کینیڈا وغیرہ سے لوگ آکر کتابیں بھر بھر کر لے جاتے تھے، لیکن اب کتابوں کی قیمت سے چار گنا زیادہ تو کرایہ لگ جاتا ہے، اس لیے بس ایک، ایک دو دو کتابیں ہی لے پاتے ہیں۔

مصطفیٰ کمال اور عشرت العباد کبھی ’کتب میلے‘ میں نہیں آئے!

سید فرید حسین بتاتے ہیں کہ ’ایک مرتبہ جناح کالج کے پرنسپل کو کہتے سنا کہ کہ کیا ظلم ہے، اتنی مہنگی، 150 روپے  کی کتاب۔ میں نے اجازت لے کر ان سے عرض کیا کہ جوتے کی دکان پر تو نو سو 99 کے پورے ہزار روپے دے کر نکل آتے ہیں، یہاں ہم آپ کو بغیر کہے رعایت بھی دیں گے، لیکن آپ اسے ظلم کہہ رہے ہیں۔‘ ہم نے کہا محض کتابوں پر رعایت دینے سے تو کتاب کو فروغ نہیں دیا جا سکتا، اصل کام تو پڑھنے کی عادت پروان چڑھانا ہے، جس کے لیے ناشرین کو اخبارات کے ساتھ مل کر ایسے پروگرام ترتیب دینا چاہئیں، جس سے مطبوعہ مواد پڑھنے کی طرف رغبت ہو؟‘

اس پر فرید حسین والدین کو قصور وار ٹھیراتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں گذشتہ 33 برس سے کراچی میں سالانہ کتب میلہ لگا رہا ہوں، یہ میرا جنون ہے، اس سے مجھے کوئی فائدہ نہیں۔ وہاں بڑے بڑے شعرا ادیبوں کے علاوہ شیوخ الجامعہ اور سیاسی لوگوں کو بھی اسی لیے مدعو کرتا ہوں کہ لوگ کسی نہ کسی نسبت سے وہاں کا رخ کریں اور جب آئیں گے تو پھر کتابیں بھی لیں گے۔ جون ایلیا دو بار ہمارے میلے میں آئے، قائم علی شاہ، رؤف صدیقی، راشد ربانی، وقار مہدی اور شہلا رضا وغیرہ بھی آتے رہے، سخت اختلاف کے باوجود جماعت اسلامی کے ڈاکٹر پرویز محمود کو بھی بلایا ہے۔

فرید حسین کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں کتب میلے میں نثار کھوڑو آئے، تو انہوں نے لاڑکانہ میں ’کتب میلہ‘ لگانے کی دعوت دی، کچھ عرصے بعد ان کی حکومت آگئی، اتفاق سے ہمارے میلے کی عمارت کی بالائی منزل پر ان کا راشن کی تقسیم کا پروگرام تھا، وہ مجھ سے بولے کہ ’’کیوں لگاتا ہے یہ۔۔۔؟‘‘ میں نے انہیں اُن کا یہاں آنا یاد دلایا تو پھر ان کے تیور ٹھیک ہوگئے۔

ہم نے گفتگو میں یوں ہی لقمہ دینے کو سابق گورنر سندھ عشرت العباد اور سابق ناظم شہر مصطفیٰ کمال کی آمد کا کہہ دیا، لیکن ہم یہ سن کر حیران رہ گئے کہ یہ دونوں اصحاب ایک مرتبہ بھی اُن کے ’کتب میلے‘ میں شریک نہ ہوئے۔۔۔! فرید حسین کہتے ہیں کہ عشرت العباد کو بلایا، لیکن انہیں شوق ہی نہ تھا۔

’کیا مصطفیٰ کمال ایک مرتبہ بھی نہ آئے؟‘ فرید حسین تو ان کی شہری حکومت میں کونسلر رہے، اس لیے ہم نے بار بار یہ سوال دُہرایا، لیکن فرید حسین کی تردید ہمیں حیران کیے گئی۔

دکان پر ٹھیرانے پر اشتیاق احمد خفا ہوگئے!

سید فرید حسین بتاتے ہیں کہ ’جب شیخ غلام علی اینڈ سنز نے اشتیاق احمد کے ناول چھاپنا شروع کیے، تو وہ ’کراچی بک ہاؤس‘ میں ملازم تھے، جس کے ذمے اس کی تقسیم آئی۔ کہتے ہیں کہ میں نے ناول پڑھے تو بہت متاثر ہوا، پھر ہر کتب فروش کو تاکیداً دی کہ یہ لے کر جاؤ اور بچوں کو ایک بارضرور دینا۔ یہ 1978ء 1979ء کی بات ہے، جس کے کچھ دن بعد اشتیاق احمد کراچی میں بے پناہ مقبول ہوئے۔‘

’’یعنی آپ کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں اشتیاق احمد کا فروغ آپ کی ذاتی کاوش کا نتیجہ ہے؟‘‘ ہم نے براہ راست ان کے دعوے کی تصدیق چاہی، تو بولے الحمدللہ، اس پر مجھے فخر ہے کہ ہمارے پاس سے 10، 10 ہزار نسخوں تک کی پیشگی بکنگ ہوتی تھی، ایک ہی دن میں ذخیرہ ختم ہو جاتا تھا۔ اشتیاق احمد کے کراچی آنے کا پروگرام ہوا۔ ہم کراچی میں ان کے تقسیم کار تھے، انہیں ہمارے پاس آنا تھا، ہم انتظار کرتے رہے، پتا چلا کہ ان کا کوئی قاری انہیں ’کینٹ اسٹیشن‘ سے ہی گاڑی میں اپنے ساتھ لے گیا، بعد میں ہمارے پاس پھر وہ اسی گاڑی میں آئے، ہم نے انہیں دکان پر بٹھایا۔ ہماری چھوٹی سی دکان میں اے سی نہیں تھا، سخت گرمی تھی، انہیں یہ امر ناگوار گزرا، پھر وہ ایسے ناراض ہوئے کہ اپنی کتب کی تقسیم ہم سے لے کر اخبار مارکیٹ میں کسی کو دے دی۔ اب اخبار فروش کتابوں کا معاملہ کیا جانیں، لہٰذا منفی اثر پڑا۔

ڈراموں میں اداکاری سے بلدیہ عظمیٰ کے چیئرمین تک

کتابوں کے درمیان ہوش سنبھالنے والے سید فرید حسین  ادبی تنظیم ’بزم فروغ ادب وفن‘ کے صوبائی جنرل سیکریٹری بھی ہیں، ان کی دکان پر مختلف شعرا اور ادیبوں کی بیٹھک رہتی تھی، جو کرفیو میں بھی جاری رہتی، وہ 1990ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، چار بیٹے اور ایک بیٹی کے والد ہیں، کرکٹ کے بہت شوقین رہے، عمران خان من پسند تھے، فوج  میں جانے کی خواہش بھی رہی، اچھی صورت اور متناسب قد کاٹھ کے سبب 1980ء کے دہائی کے اوائل میں ’پی ٹی وی‘ کے ڈراموں میں کچھ چھوٹے کردار بھی ادا کرنے کا موقع ملا۔ 2005ء کی شہری حکومت میں پہلی بار ’ایم کیو ایم‘ کی جانب سے کونسلر بنے، اِن دنوں بھی بلدیہ عظمیٰ میں ’ایم کیو ایم‘ کے منتخب یو سی چیئرمین ہیں، کہتے ہیں کہ اسی ذمہ داری کے سبب 2015ء سے اپنی دکان سے غافل ہوں، چند ماہ میں یہ ذمہ داری ختم ہوگی، تو پھر توجہ دوں گا۔  میں نے کتابوں کی اشاعت میں بہت روپیا صرف کیا، میرے بھائی بھی میرے ساتھ رہے، لیکن اس شعبے کی کم آمدن کے سبب چھوڑ گئے، ایک چھوٹا بھائی شان مختلف ٹی وی اشتہارات میں کام کرتے رہتے ہیں۔

’’میری 200 کتاب ’نائن زیرو‘ بھیج دیجیے گا!‘‘

سید فرید حسین نے بتایا کہ ایک مرتبہ رینجرز کے کوئی میجر میرا نام پوچھتے ہوئے دکان پر آئے اور کہا کہ وہ مجھ سے اپنی کتاب چھپوانا چاہتے ہیں، میں نے مسودہ دیکھا، یہ کمپیوٹر سیکھنے کے حوالے سے ایک کتاب تھی، انہوں نے اس کا حساب کتاب بتا دیا، کتاب چھپ گئی، جب لینے آئے تو اس کے 200 نسخے مجھے دے کر بولے کہ یہ ’نائن زیرو‘ پر دے دیجیے گا۔ میں حیران رہ گیا کہ انہیں میری ’ایم کیو ایم‘ سے قربت کی خبر کیسے ہوگئی، حالاں کہ تب تک میں نے ان کی کوئی کتاب بھی شایع نہیں کی تھی۔

کراچی کے سارے بڑے دماغ مار دیے گئے۔۔۔!

ہم نے عام ذرایع اِبلاغ میں پابند نام کی کتب کی دکان پر موجودگی اور اشاعت پر سوال کیا، تو بولے کہ پڑھنے پر کوئی قانون نہیں روکتا۔ میں نے کبھی غلط کام نہیں کیا، اس لیے کبھی نہیں ڈرا، کتاب تو علم ہے۔ 22 اگست 2016ء کو ایم کیو ایم کی بھوک ہڑتال میں جو کچھ ہوا، کیا صحیح  اور کیا غلط، یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ نئے لوگ آئیں، مغرب میں بھی لوگ 60 سال کی عمر کے بعد آرام کرتے ہیں۔ ہم نے فرید حسین کی ’ایم کیو ایم‘ سے تعلق کو کریدا، تو وہ بولے کہ میں کبھی کارکن نہیں رہا، ’ایم کیو  ایم‘ پنجاب کے رکن افتخار رندھاوا کی  کتاب ’ریاستی دہشت گردی‘  کی کراچی میں اشاعت سے اس قربت کا آغاز ہوا، پھر ’ایم کیو ایم‘ کے مشاعروں کے لیے میری مدد لی گئی، پرویز مشرف کے دور میں ’نائن زیرو‘ میں تین لائبریریاں بنوائیں، ہزاروں کتابیں میں نے اور دیگر ناشرین نے بھی دیں۔ آج ان کا کیا حال ہے؟

’’ہم نے پوچھا کہ اُن کتابوں کی ادائی بھی ہوئی یا۔۔۔؟‘‘

عام قارئین کی طرح ہمارے ذہن میں بھی فوراً یہی سوال آیا تھا۔ ہم نے کہا تاثر تو یہ ہے نا کہ کتابیں ’نائن زیرو‘ جا رہی ہیں تو اس کے پیسے ملے بھی ہوں گے یا نہیں؟ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فوراً ہوئی، کہتے ہیں کہ ’پی ٹی وی‘ کی ’خبر خواں‘ نسرین پرویز کی ایک کتاب ’سلمیٰ کامقدمہ‘ میں بے نظیر پر تنقید تھی، وہ بھی چھاپی۔ مشہور کتاب ’پارلیمنٹ سے بازار حُسن تک‘ تقسیم کی، جس میں الطاف حسین کے خلاف بھی لکھا گیا ہے، مجھے تو کسی نے کچھ نہیں کہا۔ کتاب میں اگر کچھ غلط ہے تو اس کا ذمہ دار لکھنے والا ہے۔ الطاف حسین کے لیکچر بھی چھاپے اور پھر ان پر ایک کتاب ’سفر زندگی‘ بھی شایع کی، اس کے 10 ایڈیشن چھپ چکے تھے، لیکن بے شمار غلطیاں تھیں، وہاں کسی نے ٹھیک نہ کرائیں۔ میں نے تصحیح کرا کے 10 ہزار چھاپی، جس کی ادائی ہوئی۔ ہم نے کہا کہ ’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی نے ڈر کے مارے غلطیاں ہی نہ بتائی ہوں۔۔۔!‘ فرید حسین کہتے ہیں کہ ’ایم کیو ایم‘ میں بھی لوگ تشدد میں ملوث ہوئے ہوں گے، لیکن کراچی کے سارے بڑے دماغ ’ایم کیو ایم‘ کی آڑ میں مار دیے گئے! میں اگر خود  نوشت لکھوں تو یہ بے شمار واقعات سے پُر ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔