پاکستان کی نمائندگی کرنے سے بڑا اعزاز کوئی نہیں ، جان شیر خان

نوید جان  منگل 22 اکتوبر 2019
جہانگیر خان کو پہلی مرتبہ ہرایا تو اپنی جیت کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا

جہانگیر خان کو پہلی مرتبہ ہرایا تو اپنی جیت کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا

کسی بھی شعبے میں صفر سے آغاز کر کے بلندیوں تک جاپہنچنے والوں کے لیے جب ’’سیلف میڈ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تو ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور چہرے پر تفاخر کی سرخی پھیل جاتی ہے۔

تاہم اس شخصیت نے فوراً ہی روک دینے کے انداز میں ہاتھ اٹھا کر واضح کیا، ’’میں سیلف میڈ نہیں، مجھ میں کوئی کمال نہیں، صرف اللہ تعالیٰ نے نظرکرم کی، ورنہ محنت تو ہزاروں لوگ کرتے ہیں، آپ مجھے ’’گاڈمیڈ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔‘‘ اس سے ان کی طبیعت کی درویشی کا پتہ بھی چلتا ہے۔ جان شیر خان سکواش کے میدان کے اس ’’شیر‘‘ کا نام ہے جن کے مدمقابل کو چاروں شانے چت ہونے میں تھوڑی ہی دیر لگتی اور یہ سلسلہ ایک دو نہیں سالہا سال تک جاری رہا۔ وہ مسلسل دس سال تک ورلڈ نمبرون رہے۔ چھ مرتبہ برٹش اوپن چیمپئن، آٹھ مرتبہ ورلڈ اوپن، ہانگ کانگ اوپن اور چھ مرتبہ پاکستان اوپن کے فاتح رہے، جبکہ یو ایس اوپن، کینیڈین اوپن سمیت بے شمار دوسرے مقابلوں میں بھی کامیابی حاصل کی۔

قدآور لیکن لدی شاخ کی طرح جھکے ہوئے اور خوش مزاج جان شیر خان 15جون 1969ء کو پشاور کے علاقے نوے کلی میں بہادر خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کی چھ بہنیں اور پانچ بھائی ہیں، ان سے چار بہنیں بڑی اوردو چھوٹی ہیں جبکہ بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ والد ایئرفورس میں ملازم تھے۔

ان کے بڑے بھائی محب اللہ خان (جوستر کی دہائی میں ورلڈ چیمپئن بھی رہے) کو سکواش سے بہت لگائو تھا، وہ کھیلنے کے لیے کورٹ جایاکرتے، جلد ہی نمایاں ہوگئے اور مختلف کلبز سے ان کو دعوتیں ملنے لگیں۔ بھائی اطلس خان بھی اس کھیل سے وابستہ رہے۔ ان دنوں کم سن جان شیر خان محلے میں بچوں کے ساتھ بنٹے اور ڈبیاں کھیلاکرتے۔ وہ شروع سے ہی بہت کم زور اور دبلے پتلے تھے جب کہ ایک حادثے میں ان کا ایک بازو بھی ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے والدین پریشان رہاکرتے۔ والدہ ان کو کہیں بھی بھیجنے سے پہلے ڈھیرساری دعائیں مانگتیں اور ان پر دم کرتیں۔

ابھی میٹرک میں تھے کہ بھائی کو دیکھ کر سر پر سکواش کھیلنے کی دھن سوار ہو گئی، جب بھائی سے اس خواہش کا اظہارکیا تو ان کی خوشی دیدنی تھی جس کے بعد ان کو ساتھ کورٹ لے جانے لگے، تاہم جب والدین کو پتہ چلا توگھر میں شور مچ گیا، والدہ نے کہا میرا بچہ تو بہت کم زور ہے اس کا ہاتھ بھی ایک دفعہ ٹوٹ چکا، وہ نہیں کھیل سکے گا جبکہ والد نے بھی دوٹوک الفاظ میں منع کر دیا۔ اس کے باوجود باز نہ آنے پر ایک آدھ مرتبہ پٹائی کا مزا بھی چکھا لیکن جان شیر خان کا یہ شوق جنون میں ڈھلتا رہا، بالآخر بڑے بھائی نے والدین کو قائل کر ہی لیا کہ وہ اسے سکواش سکھائیں گے اور کسی قسم کی چوٹ نہیں لگنے دیں گے۔ والدین شروع میں ان کے بارے میں متفکر تو تھے تاہم جلد ہی وہ ان پر فخر کرنے لگے۔ ان دنوں جان شیر خان نے میٹرک کا مرحلہ عبور کر لیا اور ان کی ساری توجہ سکواش پر مرکوزہونے لگی۔ ان کے بھائی محب اللہ نے ان کو وہ گُر سکھائے کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئی اور وہ اپنے اس شوق میں اس قدر مگن ہو گئے کہ تعلیم کا سلسلہ بھی ادھورا چھوڑ دیا، جس کا آج بھی انہیں افسوس ہے لیکن ان کا انداز گفتگو اور نشست و برخاست کسی طور بھی کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ سے کم نہیں۔

جان شیر خان اپنے بچپن اور لڑکپن کے بارے میں کہتے ہیں، ’’میری زندگی عام لوگوں سے بہت مختلف ہے، مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ بچپن اور لڑکپن کب آئے اور کب بیت گئے، میں بچپن میں شرارتی نہیں تھا۔‘‘ انہوں نے کھیلنا شروع کیا تو لوگوں کا خیال تھا کہ یہ لڑکا جلد ہی واپس بھاگ جائے گا کیوں کہ اس وقت سہولیات بالکل نہیں تھیں اور جون میں تپتے فرش پرکھیلنا کسی امتحان سے کم نہیں تھا، تاہم یہ مشکلات ان کا راستہ نہ روک سکیں اور وہ کامیابی کی سیڑھیوں پرچڑھتے گئے۔ وہ ابھی 13 سال کے ہی تھے کہ ایک ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے لندن چلے گئے، محض دو سال بعد یعنی پندرہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنے سر پر آسٹریلین جونیئر چیمپئن شپ کا تاج سجا لیا اور ستاروں پر کمند ڈالنے لگے۔ 1986ء میں ورلڈ جونیئر چیمپئن شپ کے فائنل میں روڈنی آئلزکو شکست دے کر سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ 1987ء میں سینئر ورلڈ چیمپئن شپ کا تاج بھی سر پر سجا لیا، سیمی فائنل میں جہانگیرخان کے ساتھ ٹاکرا ہوا جبکہ فائنل میں کرس ڈٹمار کے مقابلے میں اترے۔ انہیں بیک وقت ورلڈ جونیئر اور ورلڈ اوپن چیمپئن ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ اس کے بعد1996ء تک وہ آٹھ ورلڈ اوپن مقابلوں کے فاتح رہے۔ جلد ریٹائرمنٹ کا فیصلہ اس لیے کیا کہ دوسروںکو بھی موقع ملے۔ آج کل وہ پی اے ایف اکیڈمی میں بطور ایڈوائزر خدمات انجام دے رہے ہیں اور نئے ٹیلنٹ کو آگے لانے کے لیے اپنی توانائیاں بروئے کار لارہے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ بچپن میں کیا بننے کا ارادہ تھا توکندھے اچکاتے ہوئے بتایا، ’’سچ بات تو یہ ہے کہ دل و دماغ میں کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ کیا بننا ہے اورکدھر جانا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حالات ایسے سازگار بنا دیئے کہ رکاوٹیں خودبخود دور ہوتی گئیں۔‘‘ عمر کا وہ حصہ جس میں چال ڈھال میں رقص کی سی کیفیت ہوتی ہے، شاعری سے لگاؤ ہو جاتا ہے، راتوں کو نیند نہیں آتی، ان کی یہ تمام عشقیہ علامات سکواش تک محدود رہیں بلکہ وہ تو خود سکواش کو اپنی محبوبہ سمجھتے ہیںکیوں کہ اس کے لیے انہوں نے لڑکپن میں مشکل مراحل طے کیے۔ عشق کے سوال پر اثبات میں سر ہلایا اورکامیابی کے سوال پر بھی یہی طریقہ اختیار کیا، تاہم بات گھما پھرا کر پھر سکواش پر لے آئے اور بتایاکہ اس عشق میں تو اتنے معرکے سرکیے، ملک کے لیے اعزازات جیتے، اس لیے اسے کامیاب عشق قرار دیا جا سکتا ہے۔

جان شیر خان کو ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت بے شمار انعامات واعزازات سے نوازا گیا تاہم وہ جس بات کو اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتے ہیں وہ ہے ملک کی نمائندگی کرنا اور وطن کی نیک نامی کا سبب بننا۔ ان کے نزدیک زندگی کا ناقابل فراموش لمحہ وہ ہے جب ورلڈ چیمپئن بنے۔ ہاشم خان، جہانگیر خان، رحمت خان اور قمر زمان کا تعلق بھی انہی کے علاقے نوے کلی سے ہے، جس کے سبب اس علاقے کو عالمی سطح پر پہچان ملی۔ وہ اپنے زمانے کے ورلڈ نمبر ٹو، آسٹریلین کھلاڑی کرس ڈٹمارکو جان لڑانے والا سپرفٹ کھلاڑی قراردیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’وہ مجھے کافی ٹف ٹائم دیتا اور تھکا بھی دیتا لیکن اس کی بدقسمتی یہ تھی کہ میں بالآخر اس کی راہ میں حائل ہو جاتا اور ٹائٹل اڑا لے جاتا۔‘‘ اسی طرح جہانگیر خان کو بھی سپرفٹ اورہار نہ ماننے والے کھلاڑی سمجھتے ہوتے کہتے ہیں، ’’ان کے ساتھ کھیلتے ہوئے اور ان کوشکست دے کر بڑا مزا آیا، پہلی مرتبہ 1987ء میں پاکستان اوپن کے فائنل میں جہانگیر خان کو مات دے کریقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ میں نے اتنے بڑے کھلاڑی کو شکست دی، اس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔‘‘

وہ ایک کھلے ڈُلے انسان ہیں، جوکہنا چاہتے ہیں مصلحتوں کا شکار ہوئے بغیر کہہ دیتے ہیں۔ موسیقی کو ایک اچھی چیز قرار دیتے ہیں کیوں کہ اس سے انسان ریلیکس ہو جاتا ہے۔ جب پوچھا گیا کہ کون سی موسیقی، کلاسیکی یا پاپ، تو ان کا جواب تھا موڈ کے حساب سے البم کا انتخاب کرتا ہوں۔ پشتو موسیقی ان کو پسند ہے، خیال محمد اور ہدایت اللہ کی آواز سے بہت متاثر ہیں۔ ویسے تو ان کو ناپسند فلمیں بھی نہیں لیکن دیکھی بہت کم ہیں کیوں کہ ان کی زندگی انتہائی مصروف ہے، فلم دیکھنے اور سمجھنے کے لیے گھنٹوں کا وقت درکارہوتا ہے۔ حسن کوعطیہ خداوندی اور اپنی کم زوری کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک عشق ایک مقدس جذبہ ہے، جو اس سے عاری ہو وہ ادھورا انسان ہے۔ سیاست کو عوام کی خدمت کا ایک اہم ذریعہ قراردیتے ہیں مگر ہمارے ملک میں موجودہ سیاست سے مطمئن نہیں۔ اس حوالے سے کہتے ہیں، ’’سوچ رکھا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئوں گا مگر یہاں جو حالات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ہمت ہی نہیں پڑی۔‘‘

وجیہہ شخصیت کی بناہم نے پوچھاکہ شادی کی آفر توکئی لڑکیوں کی جانب سے آئی ہوگی تو گویا ہوئے، ’’میں نے دو شادیاںکی ہیں، آپ دونوں کو لومیرج کہہ سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اس تاثرکو غلط قرار دیا کہ شادی سے سپورٹس مین کی کارکردگی پرکوئی منفی اثر پڑتا ہے بلکہ ان کے نزدیک اس سے کارکردگی مزید نکھرتی ہے۔ وہ اپنی کامیابیوں کا سبب اپنی بیگمات کو ہی قرار دیتے ہیں، جنہوں نے ان کو بہت سپورٹ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو پانچ بچوں سے نوازا ہے جن میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں، بچوں کے نام سدرہ شیر خان، ایاز شیر خان، ثناء شیر خان ، رابعہ شیر خان اور علی شیر خان ہیں۔ جان شیرخان کے مطابق علی شیر خان بہت اچھا جا رہا ہے، انہیں امید اور دلی خواہش بھی ہے کہ وہ بھی ایک دن اپنے والدکی طرح ملک کا نام روشن کریں۔ گھر میں بچوں کے ساتھ خوش گوار اور دوستانہ ماحول قائم کر رکھا ہے۔ ان کے مطابق والدین کو بچوں کے ساتھ دوستوں کی طرح رہنا چاہیے۔

جان شیر خان کو ویسے تو سیاہ رنگ پسند ہے تاہم انسانوں میں گندمی رنگت ان کو اچھی لگتی ہے۔ کھانے میں سبزیاں اور سلاد بہت پسند ہے۔ ابرآلود موسم اور منظر دل کو بھاتا ہے، پرانے گانے شوق سے سنتے ہیں، شعر و شاعری کے بھی دلدادہ ہیں مگر شعر یاد نہیں رکھ پاتے۔ دنیا بھر کی سیر کر چکے ہیں، اپنے ملک کے علاوہ لندن ان کا پسندیدہ شہر ہے، وہاں کے موسم کو بے مثال قرار دیتے ہیں۔ خود شاپنگ نہیں کرتے، یہ کام ان کی بیگمات کے ذمے ہے جبکہ دنیا بھر سے ان کے چاہنے والے تحائف بھی بھجواتے رہتے ہیں۔وہ ایک پرامن اور قانون پسند شہری ہیں، اخبارات کے اول اور آخر صفحات پرسرسری سی نگاہ ڈالتے ہیں جب کہ سپورٹس کے صفحے کو تفصیلاً پڑھتے ہیں۔کسی بھی غلطی پر چڑتے ہیں تاہم اگر کوئی غلط کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرے توآپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ کوئی خواہش جو دل میں ہو؟ اس سوال کے جواب میں بتایا کہ ایک یہ دنیا ہے اور دوسری مرنے کے بعد کی، میری خواہش ہے کہ اللہ مجھے اُس دنیا میں بھی اسی طرح سرخرو کرے۔ ملکی حالات کی بہتری کے لیے پرامید ہیں۔ کہتے ہیں، نوجوان صرف محنت کو شعار بنائیں اور صلہ اللہ پر چھوڑ دیں جو کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔n

’’صرف تین گھنٹے کی پریکٹس سے کوئی لڑکا آگے نہیں جاسکتا‘‘
پرجوش اور پرلطف گفتگو کرنے والے جان شیر خان سکواش کے مستقبل کے بارے میں سوال پر یک دم افسردہ ہوگئے اورکہا کہ ہمارے پاس بڑے بڑے نام ہیں لیکن ان کو ایسے نظرانداز کیا جا رہا ہے جیسے ملک کے لیے بڑے اعزازات جیت کر انہوں نے کوئی غلط کام کیا ہو۔ کہتے ہیں، ’’کھیل سے متعلق ہونے والی میٹنگز تک میں نہیں بلایا جاتا حالاں کہ میں خود اور یہ تمام کھلاڑی اپنا فن آنے والی نسلوں کومنتقل کرنا چاہتے ہیں، باہر کے ممالک ہمیں کوچنگ کے لیے پیش کشں کرتے ہیں، ہفتوں کے لاکھوں ڈالرز دیئے جاتے ہیں جبکہ اپنے ملک میں کوئی پوچھتا تک نہیں۔ ہم نے اپنے طور پر بچوں کی تربیت کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں شیرعلی خان اورکئی دوسرے کھلاڑی نمایاں جا رہے ہیں، امید ہے کہ وہ بھی ملک کا نام روشن کریں گے ۔‘‘

ان کے بقول آج کل کے کھلاڑیوں کو سہولیات دستیاب ہیں، ٹیلنٹ بھی بے پناہ ہے لیکن لڑکے محنت سے کنی کتراتے ہوئے صرف تین یا چارگھنٹے پریکٹس پر اکتفاکرتے ہیں، اگرایک لڑکا رات تین بجے تک موبائل سے کھیلتا رہتا ہو، اس کے بعد وہ سوئے گا تو اٹھے گاکس وقت؟ اور پھر ہرکھلاڑی جہانگیر خان اور جان شیر خان بھی بننا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سکواش میںآگے نہ بڑھ سکے جب کہ آئندہ دس سال میں ہم کوئی ایسا کھلاڑی نہیں دیکھ رہے جو انٹرنیشنل لیول پر نام کما سکے۔ اس کے برعکس ہم روزانہ نو دس گھنٹے پریکٹس، جاگنگ اور ورزش کیاکرتے، اپنی خوراک کا خاص خیال رکھتے، اپنے سینئرزکا احترام کرتے، ان سے کسی نہ کسی طریقے سے سیکھنے کا بہانہ ڈھونڈتے۔

جان شیر خان کے مطابق پاکستان سکواش فیڈریشن اس وقت کھلاڑیوں کو بہترسہولیات فراہم کر رہی ہے، ملک میں پی اے ایف، پاکستان سکواش فیڈریشن نے بہت سے سکواش کورٹس بنارکھے ہیں، لیکن اس کے باوجود حوصلہ افزاء نتائج سامنے نہیں آ رہے۔ بتاتے ہیں، ’’ہمارے زمانے میں صرف تین کورٹس ہوا کرتے تھے جس میں دو فرش اور ایک لکڑی کا بنا ہواتھا، ہم فرش پر کھیلتے جوکافی مشکل تھا، لیکن آج بہت سی سہولیات کے باوجودکوئی نام سامنے نہیں آرہا بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہمارے کھلاڑیوں کی رینکنگ 70کے ہندسے کے بعد شروع ہوتی ہے جو بڑی پریشان کن صورت حال ہے۔ ایک زمانہ تھا جب سینئرزکے ٹورنامنٹس میں ہم زیادہ تر اپنے جونیئر کھلاڑیوں کو بھجواتے اور وہ جیت کر لوٹتے، خصوصاً انڈیا ہم اکثر اپنے جونیئرز ہی کو بھیجتے لیکن آج انڈیا کی رینکنگ بھی ہم سے بہترہے۔‘‘

کیریئر پر ایک نظر
جان شیر خان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی سکواش پر پاکستان کی تقریباً پچاس سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ 1986 میں پہلی مرتبہ ورلڈ جونئیر سکواش چیمپیئن شپ جیتنے کااعزاز حاصل کیا۔ 1987 میں پہلی مرتبہ ورلڈ اوپن سکواش ٹورنامنٹ اور 1992میں پہلی مرتبہ برٹش اوپن جیتنے میں کامیابی حاصل کی۔ جان شیر خان 99پروفیشنل ٹائٹلزجیتنے کا منفرد اعزاز رکھتے ہیں۔ وہ2010 سے2011 تک سکواش کے نیشنل کوچ کے فرائض انجام دے چکے ہیں، 2010تا 2012 اورپھر 2015 تا 2018تک سکواش فیڈریشن میں صدر پاکستان کے مشیرکے طورپرخدمات انجام دیں۔ چھ فٹ ایک انچ قد کے حامل اس عظیم کھلاڑی کو 1988میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، 1993میں ستارہ امتیاز اور 1997میں ہلال امتیازسے نوازاگیا۔

ورلڈ اوپن:جان شیرخان نے ورلڈ اوپن سکواش چیمپئین شپ کے فائنل میں پہلی مرتبہ 1987میں کرس ڈٹمارکو شکست سے دو چار کیا، اسی طرح 1989، 1990اور 1992 میں بھی کرس ڈٹمار ہی جان شیر خان کا نشانہ بنے۔ 1993میں اپنے ہم وطن عظیم کھلاڑی جہانگیر خان کو فائنل میں ہرایا، 1994میں پیٹرمارشل کوشکست سے دوچارکرکے ٹائٹل اپنے نام کیا، 1995 میں ڈل ہیرس جان شیر خان کا شکار بنے، اسی طرح 1996میں روڈنی آئلزکو شکست دے کر ورلڈ اوپن ٹائٹل کاآخری مرتبہ دفاع کیا۔

برٹش اوپن: 1992میں کرس رابرٹسن، 1993 میں کرس ڈٹمار،1994 میں بریٹ مارٹن، 1995میں پیٹرمارشل،1996 میں روڈنی آئلز اور آخری مرتبہ 1997 میں پیٹرنکول کو شکست دے کراپنے ٹائٹل کادفاع کیا۔

ورلڈ سپرسیریز: 1993 میں کرس ڈٹمار، 1994 میں پیٹرمارشل،1997 میںبریٹ مارٹن اور1998 میں سمن پارکے کو شکست دی۔

ہانگ کانگ اوپن:1987،1988 اور1989 میں لگاتار کرس ڈٹمارکو فائنل میں شکست دے کرٹائٹل اپنے نام کیا۔ 1990 میں کرس رابرٹسن،1991 میں ٹرسٹان نان کرو، 1994میں پیٹرنکولس،1995 میں بریٹ مارٹن اور1997 میں جانتھن پاورکو شکست سے

دوچارکرکے کامیابی سمیٹی۔
پاکستان اوپن: 1987 ، 1990 اور 1992میں جہانگیرخان،1994 میں پیٹرمارشل، 1995میں روڈنی آئلز اور1997 میں انتھونی ہل کو شکست دے کرکامیابی سمیٹی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔