این آئی ایچ اگلے ماہ اینٹی ریبیز اینٹی اسنیک ویکسین تجربے شروع کرے گا

طفیل احمد  منگل 22 اکتوبر 2019
آوارہ کتوں کی بھرمارسے عوام میں خوف، ہر سال ملک میں کتے کے کاٹنے کے 30 ہزار واقعات

آوارہ کتوں کی بھرمارسے عوام میں خوف، ہر سال ملک میں کتے کے کاٹنے کے 30 ہزار واقعات

کراچی:  سندھ کے تباہ حال عوام مسلسل کرب واضطراب میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کراچی سمیت صوبے سندھ کے عوام سگ گزیدگی (کتے کے کاٹے)، ڈنگی، ملیریا، چکن گونیا، کانگو، ایچ آئی وی، نگلیریا، ہیپاٹائٹس سمیت دیگر وائرس کی زد میں ہیں، حکومت سندھ کی صحت کے شعبے میں عدم دلچسپی اور محکمہ صحت اور پبلک ہیلتھ کا شعبہ عملاً غیر فعال ہونے اور صوبے میں صحت پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے عوام ان مہلک اورجان لیوا امراض کی زد میں آگئے ہیں جبکہ5 سال تک بچے پولیو وائرس کے رحم وکرم پر ہیں بچوں میں ٹائیفائیڈ سمیت دیگرمہلک بیماریاں بھی سر اٹھا رہی ہیں۔

سندھ میں آوارہ کتوں کی بھرمار اور اینٹی ریبیز ویکسین کی عدم دستیابی نے عوام کوخوف میں مبتلا کردیاہے۔ ایک این جی اوکے مطابق ہر سال ملک بھر میں کتے کے کاٹنے کے 30ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوتے ہیں صرف کراچی میں جناح اسپتال میں جنوری 2019سے تاحال (رواں سال)8800سگ گزیدگی کاشکار مریض(کتے کے کاٹنے ) رپورٹ ہوئے جبکہ ڈائریکٹر جنرل صحت سندھ کے مطابق اندرون سندھ جنوری2019 سے اگست 2019 کے درمیان بدین میں 5816، دادو میں 11330، حیدرآباد میں 1611، سجاول میں 2068، جام شورو میں 5369، ٹندوالہ یار میں 3539، ٹھٹھہ میں 2680، مٹیاری میں 2702، ٹندومحمد خان میں1697،کراچی کے اسپتالوں میں 5060، لاڑکانہ میں 6207، شکارپور میں 6683، قمبر میں 11935، کشمور میں 7686، خیرپور میں 8958، نوشہروفیروز میں10847، بے نظیرآباد میں4451، سکھر میں 2759، گھوٹکی میں 3936، میرپورخاص میں 4346 کتوں کے کاٹنے کے واقعات ہوئے۔ جناح اسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق کتے کے کاٹے کے ایک مریض پر علاج کی مد میں 15ہزار روپے خرچ آتا ہے۔

صوبہ سندھ میں آوارہ کتوں کی بھرمارکی وجہ سے عوام میں شدید خوف وہراس پھیلا ہوا ہے دوسری جانب پاکستان میں اینٹی ریبیزویکسین سمیت دیگرویکسین بھی ناپید ہیں تاہم قومی ادارہ برائے صحت( NiH)نومبرسے اینٹی ریبیز اینٹی اسنیک ویکسین تجربے شروع کریگا ،ملک بھر میں سگ گزیدگی کے مسلسل سے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظراینٹی ریبیزویکسین کی ڈیڑھ لاکھ خوراک کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق کتے کے کاٹنے سے ریبیز وائرس انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے جسیریبیزجیسی لاعلاج بیماری جنم لیتی ہے، دنیا بھر میں ریبیز لاعلاج مرض قرار دیا جارہا ہے اس وائرس سے متاثرہ افراد کوجھٹکے لگتے ہیں، ریبیز وائرس کتے کے منہ اور پنجوں میں ہوتا ہے جب اس کا وائرس انسان کے دماغ میں پہنچتا ہے تو متاثرہ مریض روشنی اور پانی سے بھی ڈرنے لگتا ہے جس کو ہائیڈروفوبیا بھی کہاجاتا ہے، ہائیڈروفوبیا سے مریض پانی اور روشنی سے ڈرتا اورجھٹکے کے دورے پڑنے لگتے ہیں ایسی صورت میں مریض اپنی جان سے چلاجاتا ہے، ریبیز ایک وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری ہے یہ بیماری کتے کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ کتے کے کاٹنے کے سبب ہونے والی بیماری نہ صرف انتہائی خطرناک ہوتی ہے بلکہ جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہے، اسے ریبیز یا باؤلاپن کہتے ہیں۔

یہ بیماری اعصاب پرخاص قسم کے جراثیم کے حملہ آور ہونے سے دیوانگی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ واحد بیماری ہے جس میں مبتلا 100 فیصد مریض مر جاتے ہیں۔ کتے کے کاٹنے کے فوری بعد زخم کو اچھی طرح صابن سے کئی منٹ تک دھونا چاہیے اگر کتے کے کاٹنے سے زخم گہرا ہوتو فوری اسپتال جاکر اے آر وی اور دیگر ویکسین لگواناچاہیے۔ دریں اثنا ریبیزوائرس کی وجہ سے عالمی سطح پرہر سال تقریباً 26000سے 55000 اموات ہوتی ہیں۔ 95 فیصد سے زائد اموات ایشیا اورافریقہ میں ہوتی ہیں۔ ریبیزوائرس150سے زائد ممالک میں موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔