می ٹو کی تلوار، معصوم استاد شکار

مناظر علی  منگل 22 اکتوبر 2019
لاہور کے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے لیکچرار محمد افضل نے ہراسگی کےجھوٹے الزام پر خودکشی کی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور کے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے لیکچرار محمد افضل نے ہراسگی کےجھوٹے الزام پر خودکشی کی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بے شمار لڑکیوں کو معاشرے میں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور اس مشکل کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن ہے۔ مگر صنف نازک کی عزت اور ’’می ٹو‘‘ کی آڑ میں معصوم مردوں کی پگڑیاں اچھالنے والی خواتین کے بارے میں بھی کسی طور پر نرم گوشہ نہیں رکھا جاسکتا۔

مرد و خواتین دونوں ہی معاشرے کے افراد ہیں اور یہ اپنی اپنی حد میں رہ کر معاشرے کی بہتری کےلیے کردار ادا کرسکتے ہیں، مگر ان ہی افراد کے غیر ذمے دارانہ رویے بعض اوقات کسی کی جان بھی لے لیتے ہیں۔ جب ایک مرد معصوم ہونے کے باوجود کسی عورت کے ہاتھ میں لہراتی ’’می ٹو‘‘ کی تلوار کا شکار ہوتا ہے تو پھر سانحہ ایم اے او کالج ہوتا ہے۔ پھر قوم کو ’’خودکشی حرام ہے‘‘ کا سبق دینے والا بے چارہ استاد خود ہی اتنا پریشان ہوجاتا ہے کہ اسے دنیا میں کہیں سکون کی جگہ نہیں ملتی اور وہ خودکشی پر مجبور ہوجاتا ہے۔

لاہور کے محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج میں انگریزی کے لیکچرار محمد افضل کی اسٹوری سے کون واقف نہیں، اور اس کے دوست اور وہ طلبا جو استاد کا رتبہ سمجھتے ہیں، ان سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ افضل صاحب کتنے شفیق اور طلبا کو علمی میدان میں آگے بڑھنے کے گُر بتانے والے انسان تھے۔

اس اسٹوری کا آغاز تب ہوتا ہے جب ایک استاد اپنی کلاس کی کچھ لڑکیوں کو نمبر کم دیتا ہے۔ نمبر کم دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ میرٹ سے ہٹ کر نمبر کم دیتا ہے بلکہ جو طالبہ کا حق ہے، وہی اسے ملتا ہے۔ اور یہ اس لیے ضروری ہوتا ہے تاکہ ایک لڑکی یا لڑکے کو فیور دینے کے چکر میں دوسرے طلبا کا حق نہ مارا جائے اور تعلیمی اداروں میں یہی اصول ہے کہ نمبرز کے معاملے میں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ ایسے میں ظاہری سی بات ہے کہ کچھ طلبا وطالبات کے نمبر کم ہوں گے، تو کچھ کے زیادہ، اور کچھ اپنی محنت کے بل بوتے پر نمایاں پوزیشنز لیں گے۔ اس میں کسی استاد کو قصوروار ٹھہرانا سراسر زیادتی ہوگا۔

مختلف میڈیا رپورٹس اور ذرائع سے گفتگو کے بعد پتہ چلتا ہے کہ افضل صاحب کے معاملے میں بھی یہی ہوا کہ ایک لڑکی والد کا درجہ رکھنے والے استاد سے خود سبق پڑھنے کے بجائے انہیں ہی سبق سکھانے پر اتر آئی اور ان کے خلاف ایسا مکروہ الزام لے کر انتظامیہ کے پاس پہنچ گئی جسے سنتے ہی ہمارا معاشرہ بھی ایک دفعہ آگ بگولہ ہوجاتا ہے کہ ’’خدا کا غضب، ایک استاد نے اپنی ہی شاگرد کو ہراساں کرنا شروع کردیا ہے‘‘۔ حالانکہ بعض اوقات معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہے، جیسا کہ افضل صاحب کا معاملہ تھا۔

لڑکی کی درخواست میں صرف اتنی شکایت ہے کہ ’’جب وہ کلاس میں آتی ہے تو افضل صاحب انہیں گھورتے ہیں، ان کی تعریف کردیتے ہیں اور ان کا یہ عمل انہیں عدم تحفظ کا احساس دلاتا ہے‘‘۔ معاملے کی تحریری درخواست آنے پر کالج کی ایک کمیٹی نے انکوائری کی تو افضل صاحب کو زبانی طور پر بتادیا گیا کہ وہ بے قصور ہیں۔ مگر یہ لفظ سننے تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس بے گناہ استاد کو اپنے ہی گھر میں بدکردار سمجھنا شروع کردیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ زندگی کے مشکل و آسان دن ساتھ گزارنے کی قسمیں کھانے والی اہلیہ بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر میکے چلی گئیں۔ یہاں آپ پل بھر کےلیے ہی سوچیں اور تصور کریں کہ ایک جھوٹی درخواست کے بدلے میں جب کسی کا گھر ٹوٹ جائے، بیوی بچے چھوڑ جائیں تو انسان پر کیا گزرے گی؟

ذرائع بتاتے ہیں کہ افضل صاحب تین ماہ تک انتظامیہ سے اپنی بے گناہی کا تحریری ثبوت مانگتے رہے اور یہ پوچھتے رہے کہ اگر وہ بے گناہ ہیں تو پھر تحریری طور پر آگاہ کیوں نہیں کیا جارہا اور اگر وہ بے گناہ ہیں تو پھر اس کی عزت اچھالنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟

بتایا جاتا ہے کہ اپنی خودکشی سے ایک روز قبل افضل صاحب انکوائری کی سربراہ شعبہ فزکس کی پروفیسر عالیہ کو ایک بار پھر درخواست دیتے ہیں، مگر وہ پہلی دو سطریں پڑھ کر درخواست اپنی فائل میں رکھ کر گھر چلی جاتی ہیں۔ حالانکہ وہ ساری تحریر پڑھ لیتیں تو شاید وہ یہ اقدام نہ اٹھاتے۔ مگر ’’ہم‘‘ ہمیشہ سے ہی سست جو ٹھہرے۔ ہمیں کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی مرجائے یا جیتا رہے۔

مرنے والا تو مر گیا، اب آگے کیا کرناہے؟ کیا ’’می ٹو‘‘ کی تلوار اسی طرح معصوموں پر لٹکتی رہے گی؟ کیا اداروں کے سربراہ اسی طرح آئندہ بھی معصوموں کو بے گناہی کا سرٹیفکیٹ نہ دینے کی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں گے؟ کیا آئندہ بھی اسی طرح سست رفتار انکوائری کے بعد بے گناہی کی اطلاع زبانی دے کر متاثرین کو خودکشیوں پر مجبور کیا جاتا رہے گا؟ نہیں، بالکل بھی نہیں۔ اس سلسلے کو اسی واقعے پر بند ہونا چاہیے۔

سب سے پہلا کام تو یہ کریں کہ ایم اے او کالج کے پرنسپل فرحان عبادت اور انکوائری کمیٹی کی ہیڈ پروفیسر عالیہ سمیت دیگر ارکان کو ڈیوٹی سے ہٹاکر ان کے خلاف ایک غیر جانبدارانہ کمیٹی بناکر تحقیقات کی جائیں اور یہ طے کیا جائے کہ محمد افضل کی خودکشی کا ذمے دار کون کون ہے اور اسے تحریری طور پر یہ ثبوت کیوں نہیں دیا گیا کہ وہ بے گناہ ہے۔ نیز جھوٹا الزام لگانے والی لڑکی کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے صریحاً معاملے کو لٹکایا، مگر جن عہدوں پر دونوں افراد فائز ہیں، کیا وہاں کام کرتے ہوئے وہ اس معاملے کے ذمے دار نہیں؟ پرنسپل ادارے کا سربراہ ہوتا ہے اور انہیں کسی صورت کلین چٹ نہیں دی جاسکتی۔

جنسی ہراساں کرنے کے خلاف بنائے گئے قانون کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور اس کے غلط استعمال کو روکنے پر سر جوڑے جائیں۔ اگر ایک استاد اپنی طالبہ کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتا اور لڑکیوں کو اگر یہ اعتراض ہے کہ ان کے والد کی جگہ سمجھے جانے والے استاد ان کی طرف دیکھیں بھی نہ، تو ایسی لڑکیوں کو ’مخلوط تعلیم‘ سے دور رہنا چاہیے۔ ایسے ادارے موجود ہیں جہاں پڑھانے والی خواتین ہی ہیں۔ اگر وہاں بھی کسی کو اعتراض ہو تو پھر کسی مدرسے میں جاکر پڑھ لیں یا گھر بیٹھ کر ہانڈی روٹی کا کام کریں۔ کیا ضرورت ہے تعلیمی اداروں میں جاکر افضل صاحب جیسے شریف اساتذہ کو بدنام کرنے کی۔

حیرت ہوتی ہے کہ ’’اکیلی، آوارہ، آزاد‘‘۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘، ’’لو بیٹھ گئی صحیح سے‘‘، ’’میں آوارہ، میں بدچلن‘‘، ’’عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں‘‘ جیسے نعرے سڑکوں پر لگاتے ہوئے کچھ خواتین کو اپنی عزت کا خیال نہیں، مگر ایک استاد نے کلاس میں آتے ہوئے اگر دیکھ لیا تو وہ گھورنا لگ گیا اور مسئلہ عدم تحفظ کا کھڑا ہوگیا۔ بھئی استاد یہ تو دیکھے گا کہ کون سا بچہ کس وقت کلاس میں آرہا ہے؟ کون آرہا ہے، کون جارہا ہے۔ یا پھر اس کی آنکھیں ہی نکال دیں یا تعلیمی اداروں میں اندھوں کو بھرتی کرلیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں ’’بندر کے ہاتھ ماچس‘‘ والی بات ہے۔ کچھ بھی ہمارے ہاتھ آجائے ہم اس کا درست استعمال کرنے کے بجائے غلط استعمال کرتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ اس واقعے کے بعد بھی میں جنسی ہراساں ہونے والی خواتین کےلیے آواز بلند کرنے کا عزم رکھتا ہوں اور لکھتا رہوں گا، مگر ’’می ٹو‘‘ کو مردوں کے خلاف استعمال کرنے والے کسی طور پر رعایت کے مستحق نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔