ہم زندہ ہیں یا مر چکے ہیں؟

شیریں حیدر  ہفتہ 12 اکتوبر 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

عید کی چھٹیاں شروع ہونے سے قبل… مصروفیات کا ایک کوہ گراں تھا کہ جسے عبور کرنا ٹھہرا۔ جمعے کو کام سے فارغ ہو کر گہری سانس لی، جی بھر کر سر کو کھجایا کہ جس کی کئی دن سے فرصت نہ ملی تھی… سر کھجاتے ہی دماغ نے کام کرنا شروع کر دیا جو کہ کئی دنوں سے بند تھا۔ یاد آیا کہ چار دن کے بعد عید ہے اور اپنا تو عید کا جوڑا بھی نہ بنا تھا، ارے بھئی خاتون خانہ… گھر کا اہم ترین فرد اور عید کی تیاری بھی نہ ہو!! خود ہی اپنے کان مروڑے اور ارادہ کیا کہ گھر واپس جاتے ہوئے جوڑا لینا ضروری ہے ورنہ عید کے دن بے عزتی کے غالب امکانات ہیں۔

پہلے تو ان دنوں بازار میں کوئی گاڑی کی پارکنگ کی جگہ ڈھونڈ کر دکھا دے…خدا خدا کر کے پانچویں چکر کے بعد پارکنگ ملی، کپڑوں کی ایک دکان میں داخل ہوتے ہی اندازہ ہوا کہ کس قدر محروم رہے اب تک… جانے کیا مفت میں بٹ رہا تھا کہ دکان ایک میلے کا منظر پیش کر رہی تھی، مگر دریافت کرنے پر اندازہ ہوا کہ اصل میں اسی روز سب کو ہماری طرح اپنی عید کی خریداری کی فرصت ملی تھی۔ جلدی جلدی اپنی نظر انتخاب کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک نا مکمل جوڑے کا انتخاب کیا… نا مکمل اس لیے کہ جو پسند آتا تھا اس کی میچنگ دستیاب نہ ہوتی، سو ارادہ یہی کیا کہ میچنگ کہیں اور سے تلاش کی جائے۔ بل بنوانے کے لیے قطار میں کھڑے ہوئی تو گھبراہٹ شروع ہو گئی، میں قطار میں کوئی سولہویں نمبر پر کھڑی تھی۔

چیونٹی کی رفتار سے قطار سرک رہی تھی، میں نے کاؤنٹر پر پڑا اخبار بڑھ کر اٹھا لیا… ملالہ کو امن کا نوبل انعام نہ مل سکا… ایک خبر پر نظر دوڑائی، اخبار الٹا تہہ کیا ہوا تھا، ’’اوہو!!‘‘ دل سے دکھی آواز نکلی، اچھا ہوتا جو اسے نوبل انعام مل جاتا۔ ہمارے لیے اس سے کیا اچھا ہوتا بھلا، خود سے میں نے سوال کیا، اچھا تو تب ہو گا جب وہ سیاست میں آ کر کسی اہم کرسی کی حقدار بن جائے گی! میں نے اس امید پر اسے نوبل انعام نہ ملنے کا دکھ زائل کیا۔

’’آپ کے خیال میں ملالہ کو نوبل انعام ملنا چاہیے تھا؟‘‘ میں نے اس خاتون سے سوال کیا جو تھوڑی دیر قبل ہی اپنے لیے سوٹ کے رنگ کے انتخاب میں مجھ سے مدد لے چکی تھی۔

’’اس سے کیا ہوتا؟‘‘ انھوں نے استہزاء سے ہنس کر کہا، ’’ہمارا کیا بدلنے والا تھا اس سے … ہماری بلا سے، ملے نہ ملے!‘‘ وہ اپنا بل بنوانے لگیں۔

’’چئیرمین جائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا انتخاب ابھی تک نہیں ہو سکا ہے…‘‘ ایک اور اہم خبر پڑھ کر میرے وجود میں بے چینی دوڑنے لگی۔ ایسا کیوں ہو اہے… نہ ہی آرمی چیف کے نام کا فیصلہ ہوا ہے!! کس سے پوچھوں، پہلے ہی ایک جاہل خاتون سے سوال پوچھ کر پچھتائی تھی، وہ تو پھر کہہ دیتیں کہ میری بلا سے… اکیلی سوچ سوچ کر پریشان ہونے لگی کہ اگر جلد ان دو عہدوں کے لیے ناموں کا اعلان نہ ہوا تو کیا ہو گا؟ حیرت انگیز طور پر مجھے اپنے سوال کا جواب خود سے مل گیا کہ کچھ نہیں ہو گا… کوئی فرق نہیں پڑے گا، نہ مجھے، نہ آپ کو نہ کسی اور کو۔ میں نے نظریں پھر اخبار پر جما دیں۔برطانیہ میں پاکستان کے نئے سفیر کا تقرر… چئیرمین نیب کے نام کا اعلان… انیس اکتوبر کو چاند گرہن ہو گا… سابق صدر کی ایک کیس سے بریت پر رہا ہوتے ہی دوسرے کیس میں دوبارہ گرفتاری… بجلی مزید مہنگی کرنے کا فیصلہ… اس خبر سے تھوڑا جھٹکا لگا۔

’’جی میڈم…‘‘ میں قطار میں دھکے کھاتے کھاتے پہلے نمبر پر پہنچ گئی تھی، میرا بل اس نے تیار کیا اور میرا سوٹ پیک کرنے لگا۔ میں نے اخبار کھولا کہ اسے سیدھا کر کے تہہ کروں اور رکھ دوں … ’’چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں ایک ہی روز ہونے والے دھماکوں کی خبر شہ سرخی کے طورپر نمایاں تھی، ’’آہ!‘‘ میں ششدر رہ گئی، ایسی بھی کیا مصروفیت کہ مجھے کل سے اتنی بڑی خبروں کا علم ہی نہ ہوا تھا، میں نے دکاندار سے اجازت لے کر اخبار اپنے پاس رکھ لیا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی اے سی آن کیا، دروازے کو لاک کیا اور اس خبر کی تفصیل پڑھنے لگی… دل چند لمحوں کے لیے دکھ سے بھر گیا، مگر صرف اتنے لمحوں کے لیے کہ جب تک مجھے یاد نہ آ گیا کہ گھر جا کر کئی کام نمٹانے ہیں۔ اخبار لپیٹ کر رکھا اور گاڑی چلا دی۔

چہ چہ… عید سے صرف چار دن پہلے اتنا نقصان، کتنے گھروں میں صف ماتم بچھی ہو گی، کتنے لوگوں کی عید کی خوشیاں دکھ کی چادر تلے چھپ گئی ہوں گی۔ تصور میں، میں ان معصوم چہروں کو دیکھنے لگی جو اس وقت غم سے چور ہوں گے… سگنل پر گاڑی رکی اور گداگروں کا ایک جم غفیر گاڑی کا گھیراؤ کر کے طواف کرنے لگا، ایسا ہر گاڑی کے ساتھ ہو رہا تھا… ’’جانے حکومت ان گداگروں کا کوئی علاج کیوں نہیں کرتی، میں نے شیشہ نیچے کرکے دو تین جوان لڑکیوں کو دس دس روپے دے کر حاتم طائی کی سخاوت کی تقلید کی۔ ’’باجی جی… عید نزدیک ہے، گھر میں آٹا بھی نہیں، دس روپے سے کیا بنے گا؟‘‘ ایک نے میری رقم اس امید پر میری طرف بڑھائی کہ میں اس پر کچھ mark upلگا کر اسے واپس کر دوں، میں نے بڑبڑا کر نوٹ اس کی طرف بڑھایا کہ لینا ہے تو لو، اس نے منہ بنا کر نوٹ پکڑ لیا۔ میں پھر سوچنے لگی۔

جوڑا، جوتے، تھوڑے بہت لوازمات ملا کر دس ہزار کے لگ بھگ تو میرا خرچہ ہو گیا تھا، قربانی کے جانور کا خرچہ ہے، عید پر دینا دلانا ہے… گاڑی میں جیسے ہوا میں چلارہی تھی کیونکہ ذہن خالی تھا، سوچ کیا رہی تھی اور کر کیا رہی تھی۔ گھر کے ایک ملازم کی تنخواہ اس مالیت سے کچھ کم ہی ہو گی جتنا خرچ ہم عید کے ایک دن کے لیے کر دیں گے… گاڑی ایک سگنل پر رکی، سامنے بینر نظر آیا، ’’آواران کے زلزلہ متاثرین کی دل کھول کر امداد کریں…‘‘ میں نے پرس کھولا، اندرونی جیب بھی کھولی جس میں رقم ہوتی ہے، مگر دل بند ہی رہا اور میں نے ’’پورے‘‘ سو روپے اس شخص کی طرف بڑھائے جو حلیے سے تو معقول ہی لگ رہا تھا مگر جانے کتنی خلوص نیت سے وہ زلزلہ متاثرین ہی کے لیے رقم اکھٹی کر رہا تھا یا … میں دماغ میں آنے والے اس خیال سے خود کو نہ بچا سکی۔

راستے میں ہی سے گوشت خریدتے ہوئے بھی مجھے خیال آیا کہ چار دن کے بعد عید ہے… کتنا ہی گوشت گھر میں آئے گا اور ضائع ہوتا رہے گا، کھانے والے افراد ہی کتنے ہیں، مگر پھر بھی گوشت خریدا کہ ہمارے دستر خوان بھلا کب سجتے ہیں گوشت کے بغیر، گوشت اور خون دیکھ کر چشم تصور میں گھنٹہ بھر پہلے دیکھے ہوئے دھماکوں اور دہشت گردی کے مناظر نظروں کے سامنے گھوم گئے… مگر سر کو جھٹک کر خود کو اس خیال کے آنے سے باز رکھا۔ یوں سوچتے رہو تو زندگی گزارنا ہی مشکل ہو جائے، ہر روز جانے کتنے ہی مرتے ہیں، لٹتے ہیں اور کٹتے ہیں۔

دوسروں کے مسائل نظر بھی آتے ہیں اور یاد بھی آتے ہیں مگر اپنے مسائل اتنے بڑے نظر آتے ہیں کہ اس کے سامنے دوسروں کے مسائل ہیچ نظر آتے ہیں خواہ وہ کسی کی موت ہی کیوں نہ ہو، ہمیں وہ اپنے سر درد کے مقابلے میں بھی معمولی نظر آتی ہے… وجہ کیا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب مر چکے ہیں، موت تو جسم کی موت ہوتی ہے جو کہ بر حق ہے مگر بے حسی بھی ایک ایسا مرض ہے جو کہ دماغ کی موت کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور، نیکی کا زبانی پرچار کرتے ہیں اور دوسروں سے اس کی توقع بھی کرتے ہیں مگر خود کو ہر ذمے داری سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ ذرا سوچیں … ایک غیر آرام دہ جوتا بھی پہنا ہو اور پاؤں تکلیف میں ہو تو وہ تکلیف کرب کے میک اپ کی طرح ہمارے چہرے پر لیپ ہو جاتی ہے، کیوں پھر ایک بھائی کی تکلیف ہمیں محسوس نہیں ہوتی، کس طرح ہم ایک جسم کی طرح ہیں کہ پورا وجود بھی ناسور بن جائے تو ہم مسکرا لیتے ہیں۔

ہمارے ہاں کی غربت، گداگری، سفید پوشوں کے مسائل اور مہنگائی کے ہاتھوں پستے ہوئے بے بس لوگ… ہمارے معاشرے کا وہ مکروہ چہرہ ہیں جو پوری آب و تاب سے ہر کسی کو دعوت نظارہ دیتا اور سوال کرتا ہے کہ کیا کوئی کسی دوسرے کی تکلیف کو فراموش کر کے خوش رہ سکتا ہے، مسکرا سکتا ہے، عید منا سکتا ہے؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔