کشمیرجاگ اُٹھا ہے

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 23 اکتوبر 2019
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

(ایک غیر مسلم کے قلم سے)

ہندوستان (ہندوتوا کی علمبردار بھارتی قیادت چونکہ اپنے ملک میں ہندؤں کے علاوہ کسی اور کو زندہ رہنے کاحق دینے کے لیے تیّا ر نہیں ہے اس لیے اسے بھارت یا انڈیا کہنے کے بجائے ہندوستان ہی کہنا چاہیے) کی حکومت اور فوج مظلوم کشمیر ی مسلمانوں پرظلم اور بربریت کے جو پہاڑ توڑ رہی ہے اُس کے خلاف اُس ملک کے اندر سے بھی کچھ آوازیں اُٹھ رہی ہیں اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے ۔

ویسے یہ بڑے دکھ کی بات ہے اور یہ پہلی بار ہو ا ہے کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے مظلوموں کوانصاف دینے کے لیے اپنے دروازے بند کر لیے ہیں اور حکومت کو اڑھائی مہینے سے لگایا ہو ا کرفیو (جس میں بچوں کے دودھ ، دوائیوں ، سبزیوں اور کریانے تک کی دکانیں بند ہیں اور معصوم بچے ،بوڑھے اور بیمار اپنے گھروں میں محصور ہیں اور موت کی آغوش میں جارہے ہیں) تک ہٹانے کی واضح ہدایت نہیں کی۔ اس ماحول میں انسانوںاور ان کے حقوق کے لیے دردِ دل رکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ارون دھتی رائے کا وجود بہت بڑی غنیمت ہے۔

کیرالہ کی رہنے والی اٹھاون سالہ ارون دھتی (جنکا والد بنگالی ہندو اور والدہ کرسچیئن تھی ) رائٹر ہیں، ناول نگار ہیں ،فلم اور ٹی وی سے بھی وابستہ رہی ہیں ۔ وہ ایک جدید سوچ رکھنے والی لبرل خاتون ہیں مگر مظلوم انسانوں کے لیے دل میں حقیقی درد اور تڑپ رکھتی ہیں ۔ اِس کے برعکس ہمارے ہاں کام کرنے والی NGOs یا انسانی حقوق کے نام پر مشعلیں جلانے والوں میں ایسےgenuine  لوگ بہت کم ہیں۔ ہماری اکثر NGOs کی سرگرمیاںڈالروں کی ترسیل سے جُڑی ہوتی ہیں۔ ان کے کتبوں کے سائز اور نعروں کی گونج سے انھیں ملنے والے تازہ ترین چیک کی رقم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ارون دھتی رائے کئی بار مقبوضہ کشمیر اور سری نگر گئی ہیں اور بارہا مظلوم کشمیری مسلمانو ں کے حق میں لکھ چکی ہیں جسکی وجہ سے ھندوتوا کی علمبردار مودی حکومت اُن پر غداری کے الزام بھی لگاتی رہی ہے اور مقدمات بھی درج کرتی رہی ہے۔ ہندوستان میں ان کی زندگی عذاب بنادی گئی اور وہاں اُنکا زندہ رہنا ممکن نہ رہا تو انھیں ملک چھوڑنا پڑا۔

کچھ عرصہ پہلے ارون دھتی نے خود مقبوضہ کشمیر جا کر حالات کا جائزہ لیا اور اصل حقائق تحریر کر دیے ۔ آج میں پاکستانی قارئین کے ساتھ ہندوستان کی اس روشن ضمیر دانشور اور قلمکار کے مشاہدات شیئر کر رہا ہوں تاکہ وہ ایک غیر مسلم کے قلم سے لکھے گئے اصل حالات کو جان سکیں اور یہ نہ سمجھیں کہ جوکچھ پاکستانی میڈیا میں دکھایا جاتا ہے وہ صرف مبالغے پر مبنی پر اپیگنڈہ ہے۔ان کی تحریروں کا شفقت تنویر مرزا صاحب نے ترجمہ کیا ہے، شازیہ اسلام نے ایڈٖٹ کیا ہے اور وین گارڈ بکس نے چھاپا ہے ۔

ارون دھتی لکھتی ہیں ’’جون ختم ہونے کے بعد کوئی ساٹھ دنوں تک کشمیر کے لوگ آزاد تھے۔ آزاد،صحیح معنو ں میں آزاد۔فوجی لحاظ سے دنیا کے انتہائی مسلح خطے میں انھوں نے اپنی زندگی لگ بھگ پانچ لاکھ مسلح سپاہیوں اور توپوں کے سائے میں گزاری مگر اب انھوں نے اس دہشت زدہ فضا کا دامن چاک کر دیا تھا۔

حکومتِ ہندوستان نے اٹھارہ برس یہاں فوجی قابضین کی طر ح حکومت کی ہے مگر اب اُسے اُس بدترین خواب کا سامنا ہے، جو سچ بن کر سامنے آگیا ہے۔ اس نے اعلان کیا تھا کہ ہم نے عسکریت پسندوں کی تحریک کو کچل دیا ہے لیکن اب اسے ایک بہت بڑی غیر متشددانہ عوامی تحریک کا سامنا ہے جسکو کئی برسوں کے ظلم و ستم نے جنم دیا ہے۔

ہندوستان کی حکومت نے، جو بظاہر مسائل میں گھر ی ہوئی ہے، کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کی لیے ہر حیلہ آزمایا ہے۔ دباؤ ، فریب ، نمایندگی،غلط نمایندگی، بے وقاری، دھمکیاں،خرید و فروخت یعنی کوئی بھی طریقہ نہیں چھوڑا۔ اس نے روپیہ (بہت زیادہ)، تشدد (وہ بھی بہت زیادہ)، غلط پروپیگنڈا، بدخبری، تشدد، خریدے ہوئے مخبروں اور دلالوں کے بڑے بڑے نیٹ ورکس ،قید وبند، غنڈہ ٹیکس اور انتخابی دھاندلیوں کے ذریعے لوگوں کی رائے کو دبانے کا چارہ کیا، جسے جمہوری لوگ ’’لوگوں کی مرضی یارائے ‘‘کہتے ہیں۔

مگر اب ہندوستان اپنے گھمنڈ اور اپنی ہی پبلسٹی کے فریب میں آگیا ہے اور اس نے یہ غلطی کرلی کہ غلبے کامطلب فتح سمجھ لیا اور یہ کہ بندوق نے جو صورت پیدا کی ہے، اُسے وہ معمول کی صورتِ حال سمجھنے لگے اوریہ بھی سمجھا گیاکہ لوگوں پر ٹھونسی گئی خاموشی دراصل ان کی رضامندی ہے۔

پھر بد قسمتی سے ایک اور احمقانہ واقعہ بھی ہوگیا ۔کشمیر میں کوئی سوایکڑ پر پھیلے جنگل کی اراضی امرناتھ شرائین بورڈ کو منتقل کردی گئی(امرناتھ دراصل ہمالیہ کے پہاڑوں کے بیچ ہندوؤں کی ایک مقدّس غار ہے جہاں وہ سال میں ایک مرتبہ جاتے ہیں۔امرناتھ بورڈ اس سالانہ مذہبی تقریب کا اہتمام کرتا ہے)اور یہ خبر جلتی پر تیل ڈالنے والی بات بن گئی۔

1989ء تک صورت یہ تھی کہ کوئی بیس ہزار کے قریب افراد دو ہفتوں میں یاترا پوری کیا کرتے تھے۔ 1990ء میں بہ یک وقت وادی میں اسلامی عسکریت پسندوں نے اور بھارت کے میدانوں میں زہریلی ہندو تو ا نے زور پکڑ نا شروع کیا تو امرناتھ کے یاتریوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ 2008ء تک کوئی پانچ لاکھ یاتری گروہوں کی شکل میں امرناتھ گئے اوران میں سے اکثر کے اخراجات ہندوستان کے بڑے بڑے تجارتی اداروں نے برداشت کیے۔وادی ٔ کشمیر میں بہت سارے لوگوں نے محسوس کیا کہ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی ہندوبنیاد پرستی نے دراصل کشمیر پر ایک جارحانہ سیاسی یلغار کر دی ہے اور پھر صحیح یا غلط، زمین کی الاٹمنٹ کو بھی اسی رنگ میں دیکھا گیا۔

اس سے یہ شک پختہ ہونے لگا کہ جس طرح اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں بستیاں بنائی ہیں،اسی طرح کشمیر میں ایسی کارروائی کے ذریعے آبادی کا تناسب تبدیل کرنا مقصود ہے۔ مسلسل کئی دن کے احتجاج کے باعث پوری وادی سراپا شورش بن گئی ۔چند گھنٹوں کے اندر اندر یہ احتجاج شہروں میں منتقل ہوگیا۔

نوجوان پتھر لے کر سڑکوں،گلیوں میں نکل آئے اور مسلح پولیس پر سنگ باری کی گئی جس کے جواب میں پولیس نے پر ان پر گولیاں چلائیں اور پچاس سے زیادہ لڑکے ہلاک ہوگئے۔لوگوں اور حکومت دونوں کو نویّ کی دہائی کے شروع کی شورش یا د آگئی۔ یہ احتجاج کئی ہفتے جاری رہا۔ ہڑتال کے ساتھ ساتھ پولیس کی فائرنگ بھی جاری رہی جب کہ ہندوستان میں ہندوتواکی پروپیگنڈا مشین نے کشمیریوں پر ہر قسم کے فرقہ وارانہ الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ دوسری طرف اُسی عرصے میں لاکھوں یاتریوںنے امرناتھ یا ترا بخیر و خوبی مکمل کر لی اور اُن سے زیادتی تو دُور کی بات،مقامی لوگوں نے کمال مہمان نوازی دکھائی جس سے خود یاتری بھی متاثر ہوئے۔

یہ توّقع کر نا کہ معاملہ یہاں پر ہی ختم ہو جائے گا، بالکل بے معنی بات ہے۔لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ کشمیرمیں روزمرہ کے معمولی معاملات مثلاً پانی کی کمی،بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر احتجاج کی تان بھی نعرئہ آزادی پر ٹوٹتی ہے۔ یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ جب ہندوستان کی حکومت نے پورازور لگا کر کشمیر کو خاموش کرانے کی کوشش کی تو جواب میں کشمیر سے کانوں کے پردے پھاڑ دینے والا شور بلند ہوا۔لاکھوں غیر مسلّح افراد گھروں سے نکل آئے اور اپنے شہروں،گلیوں،محلوں کو دوبارہ اپنی تحویل میںلینے کے لیے نعرے لگانے لگے ۔اُن کی ایک بڑی تعداد احتجاج کرنے کے لیے باہر نکل آئی اور ایسے جوش وخروش اور حوصلے کا اظہار کیا کہ سیکیورٹی فورسز بھی ششدر رہ گئیں۔

کشمیریوں کی نئی پود فوجی کیمپوں کے گراؤنڈوں میں، چیک پوسٹوں اور مورچوں میں جوان ہوئی ہے۔اس نسل نے تشدد گاہوںسے اُٹھتی ہوئی چیخیں سنی ہیں اور اسے یہ شعور حاصل ہوا ہے کہ اجتماعی احتجاج میں کس قدر طاقت ہوتی ہے! سب سے بڑھ کر یہ احساس کہ سر اُٹھا کر اور سینہ تان کر اپنی بات خود کرنے میں کس قدر تمکنت ہے۔

ان کے لیے یہ ساری صورتحال ایک مافوق الفطرت قسم کے انسان کی سی ہے ۔ اب یہ نسل پورے زور و شور سے نکلی ہے اور اسے موت کا خوف بھی نہیں روک سکتا اور جب مو ت کا خوف ختم ہو جاتا ہے تو پھر اُسکے سامنے دُنیا کی دوسری بڑی فوج کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ یہ پود کیسی خطرناک ہے؟ خود ہندوستانیوں سے زیادہ اس صورتحال سے کون واقف ہو سکتا ہے کہ انھوں نے بھی آزادی اسی طریقے سے حاصل کی تھی!

کشمیر میں کیاصورتِ حال ہے۔ حالات کس رُخ جارہے ہیں، اس کے لیے اب اِس قسم کے دلائل نہیں دیے جارہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کی آئی ایس آئی کا کیا دھرا ہے اور یہ کہ عسکریت پسندلوگوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ پچھلی صدی کی تیسری دہائی سے کشمیریوں کی نمایندگی کے کئی دعوے دار ہیں۔ کیا وہ شیخ عبداللہ تھا؟ مسلم کانفرنس تھی؟ آج کون ہے ؟ مرکزی سیاسی جماعتیں ؟ حریّت؟ عسکریت پسند؟ اِ س وقت لوگ خود انچارج ہیں۔ ماضی میں بڑے بڑے جلوس نکلتے رہے ہیں مگر حالیہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کیسے تسلسل اور وسعت کے ساتھ جلوس نکلتے ہیں۔

کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور پیپلزکانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک نام کی پارٹیا ں ہیں ،جنھیں ہندوستان کی حکومت نواز رہی ہے ۔ ہندوستانی میڈیا نے بھی اُنکی پذیرائی کی، انھیں انتخابات میں بھی ووٹ ملتے ہیں۔ ان کے نمایندے بڑی فرمانبرداری سے نئی دہلی کے ٹی وی اسٹوڈیوز میں آکر اظہارِ خیال کرتے ہیں مگر اُن میں سے کسی میں اتنی جرأ ت نہیں کہ کشمیر میں آکر سرِ عام بات کرسکے۔

مسلح عسکریت پسندوں نے ظلم اور جبر کے بدترین سالوں میں آزادی کی مشعل کو اُٹھائے رکھا اور اس راہ پر وہی اور صرف وہی نظر آتے تھے۔اب وہ صورتِ حال سے مطمئن ہیں کیوںکہ اب کشمیری عوام نے محاذ خود سنبھال لیاہے ،وہ تبدلی لانے کے لیے جدوّجہد کررہے ہیں۔ اب عسکریت پسند بھی آرام سے پس منظر میں رہنا مناسب سمجھتے ہیں ۔

لاکھوں لوگ کئی کئی دن اُن مقامات پر ہجوم کرتے ہیں جہاں ان کی خوفناک یادیں وابستہ ہیں وہ بنکر توڑ کر، خاردار تاریں توڑکر، سپاہیوں کی بندوقوں ،مشین گنوں کے سامنے کمال جرأت سے کھڑے ہوکر وہ کچھ کہتے ہیں جو صرف چند ہندوستانی سننے کی تاب رکھتے ہیں۔’’ہم کیا چاہتے ہیں آزادی۔۔۔‘‘(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔