میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال (آخری حصہ)

زاہدہ حنا  بدھ 23 اکتوبر 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

اوسلو اور ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کو کچھ اعزازات بہت دیر سے ملتے ہیں اور کچھ کو بہت جلدی مل جاتے ہیں اور کچھ کو اعزازات اس وقت عطا ہوتے ہیں جب خطرات بہت سے ہوتے ہیں۔

پڑوسی ملک ایریٹریا سے سرحدی تنازعات کے خاتمے کی امید اور ایتھوپیا میں خوشحالی کا امکان ملک کے بیشتر لوگوں کو خوش امیدی سے بھر دیتا ہے۔ ابی احمد کے وعدے اور اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ان کے بعض اقدامات ایتھوپین لوگوں کو بھلے لگ رہے ہیں جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ اصل فیصلہ 2020 کے انتخابات میں ہوگا جب ابی احمد کی کارکردگی کھل کر سامنے آئے گی۔

ابی احمد علی کو نوبیل امن انعام کا ملنا بیشتر افریقن لوگوں کے لیے خوشی کی بات ہے لیکن آج سے نہیں عرصہ دراز سے اس ملک میں نسلی اور مذہبی تنازعات چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ایریٹریا کا سفر کرنا تھا۔ ان کا طیارہ جب ایریٹریا اترا تو لوگوں کو یقین نہیں آیا۔

انھوں نے صدر سے ملاقات کی، یہ ایک ناممکن سی بات تھی اور جیساکہ نوبیل امن انعام کمیٹی نے کہا ہے کہ امن صرف ایک جانب سے قائم نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے یہاں محاورہ ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ ایریٹریا کے صدر نے کھلے ہاتھوں سے ابی احمد کا استقبال کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔ یہ بات دونوں ملکوں کے لوگوں کے لیے اسی طرح خوشی کی خبر تھی جیسے ہمارے یہاں پاکستان اور ہندوستان میں افراد اور خاندانوں کے لیے ایک دوسرے سے راہ و رسم کا کوئی موقعہ نکلے تو وہ لوگ نہالوں نہال ہوجاتے ہیں۔

ہم اگر ایتھوپیا کی تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو 1529 میں مسلمانوں نے اس ملک پر ایک بھرپور حملہ کیا جو فتح الحبش کے نام سے مشہور ہے لیکن کچھ ہی دنوں میں پرتگیزیوں کی مدد سے مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ اس وقت سے 1916 تک اندرون خانہ مسلم اور غیر مسلم کا تناؤ چلتا رہا، یہاں تک کہ منسلک ثانی بیٹا تخت نشین ہوا۔ اس نے اسلام قبول کرلیا اور ترکی کا حلیف بن گیا۔ یہ بات اس کے ساتھیوں کو پسند نہ آئی اس لیے اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔

1950 میں ہیل سلاسی تخت نشین ہوا۔ ہیل سلاسی نے اتنے دنوں حکومت کی کہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ حکمران شاید تا ابد تخت نشین رہے گا۔ اس صورتحال کے تناظر میں دیکھیے تو ابی احمد کا جمہوری طور پر منتخب ہوکر آنا اس لحاظ سے حیران کن بات ہے کہ وہ نیم مسلم اور نیم عیسائی ہے۔ بے شمار مسائل اور جدید تعلیم نے لوگوں کو اتنا باشعور کردیا ہے کہ وہ اب مذہب کی تفریق کو اہمیت نہیں دے رہے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے بے تاب ہیں۔

ابی احمد نے اپنے خطے میں دو اور گمبھیر مسائل جنوبی سوڈان میں امن قائم کرنے کی کوششیں کیں اور کینیا اور صومالیہ کے درمیان بعض بحری تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہ معاملات ہیں جنھوں نے شاہ ہیل سلاسی اور سابق ایتھوپین وزیر اعظم کی امن کوششوں کی یاد تازہ کردی۔ براعظم افریقا میں ان کوششوں نے پہلے بھی ایتھوپیا کو ایک امن دوست ملک کی حیثیت دلائی تھی اور اب ایک بار پھر اس کا وہ مقام بحال ہوگیا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب سے پہلے ایتھوپیا میں اختلاف کرنے کو جرم قرار دیا گیا تھا لیکن ابی احمد کے برسر اقتدار آتے ہی یہ صورتحال بدل گئی ہے اور ملک میں اختلاف کرنے کے لیے وسیع میدان کھل گیا ہے۔ ایک نہایت اہم بات یہ ہوئی ہے کہ وہ لوگ جو حزب اختلاف سے تعلق رکھتے تھے اور جانے مانے رہنما تھے انھیں بھی اہم عہدوں پر فائز کردیا گیا ہے۔

ان میں سے ایک کو فیڈرل سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کردیا گیا ہے۔ امن کی وزارت کی سربراہی ایک خاتون کر رہی ہیں اور کابینہ کی پچاس فیصد تعداد خواتین کو دی گئی ہیں۔ ایک ٹرتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن بنایا گیا اور اس میں بھی خواتین کو نمایندگی دی گئی۔

ایک شخص جس نے ابی احمد کا نام نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا تھا، اس کا کہنا ہے کہ میں نے اسے نامزد اس لیے کیا کہ 108 ملین لوگوں کو اقتصادی اور سیاسی تباہی سے وہ کھینچ کر لایا اور اس نے اپنے لوگوں اور دوسرے بہت سے افریقیوں کے دلوں میں امید کی کرن روشن کردی۔ اس نے امن، رواداری اور محبت کا جو پیغام لوگوں کو دیا، اسے ایتھوپیا کی سرحدوں سے پرے بھی محسوس کیا گیا۔

ہم سے ہزاروں میل دوری پر بیٹھا ہوا اور اپنے لوگوں کے دلوں میں امید کا چراغ جلاتا ہوا ابی احمد اس لیے اچھا لگ رہا ہے کہ وہ رواداری، امن اور محبت کی بات صرف کر نہیں رہا، کرکے دکھا بھی رہا ہے۔ لوگ اگر اس سے امید باندھ رہے ہیں تو انھیں وہ امیدیں پوری ہوتی ہوئی بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ مجھے فیض صاحب کی نظم ’’صبح آزادی‘‘ یاد آجاتی ہے جو انھوں نے حصول آزادی کے فوراً بعد لکھی تھی۔ یہ نظم ’’سویرا‘‘ میں چھپی اور اس جرم میں ’’سویرا‘‘ پر چھ مہینے اشاعت کی پابندی لگی تھی۔

یہ داغ داغ اُجالا‘ یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غم دل

جواں لہو کی پراسرار شاہراہوں سے

چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے

پکارتی رہیں بانہیں‘ بدن بلاتے رہے

بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن

بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن

سبک سبک تھی تمنا‘ دبی دبی تھی تھکن

سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت و نور

سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل و گام

بدل چکا ہے بہت اہلِ درد کا دستور

نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام

جگر کی آگ‘ نظر کی اُمنگ‘ دل کی جلن

کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں

کہاں سے آئی نگارِ صبا‘ کدھر کو گئی

ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں

ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی

نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

1947 میں لکھی جانے والی یہ نظم آج بھی سوال کرتی ہے ۔ نجات دیدہ و دل کی گھڑی کب آئے گی اور منزل کب ملے گی، کسی کو نہیں معلوم۔

ہم سے خوش نصیب تو ایتھوپیا کے افریقی ہیں جنھیں گرانی شب میں کمی ہوتی نظر آرہی ہے۔ اور ہم؟ چلیں چھوڑیے اس قصے کو، ہمارے نصیبوں میں تو خدا جانے کیا لکھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔