ہم اور ہماری عید

سارہ لیاقت  ہفتہ 12 اکتوبر 2013

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اﷲ کے نزدیک ذی الحج کے پہلے عشرے میں عبادت کرنا جس قدر محبوب اور عظیم المرتبت ہے اتنا دوسرے دنوں میں نہیں، ان دس دنوں میں سے ہر ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر اور ہر ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (سنن الترمذی: 758) جب کہ یہاں تو یہ حال ہے کہ ان بابرکت دنوں میں اﷲ کے حضور عبادت کرنے یا کچھ نیکیاں کرنے کے بجائے تاجر منافع خوری سے باز نہیں آتے، جرائم پیشہ لوگ اپنے مظالم سے باز نہیں آتے، حکمراں لوگوں کو جھوٹی تسلیاں دلانے اور کرپشن کی لوٹ مار سے باز نہیں آتے، ہم میں سے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے اور خود اپنا احتساب کرے کہ کوئی بھی مقدس دن یا مہینے ہوں خواہ رمضان، محرم یا ذی الحج، ہم لوگ برائیوں کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں اور خوف خدا نام کو بھی نہیں رہا۔ ہم یہ بھول ہی بیٹھے ہیں کہ سال کے بارہ مہینے کے کچھ دن ہی صرف اپنے لیے وقف کردیں۔ آخر کو ہم سب کو ایک دن اﷲتعالیٰ کے سامنے پیش ہو کر اپنے کیے ہوئے ہر عمل کا حساب دینا ہے۔ لیکن اس سے بڑی نادانی اور افسوس کی بات کیا ہوگی کہ ہمیں اپنے آج کی تو فکر ہے پر اپنا کل یاد نہیں۔

عید کا دن آنے کو ہے لیکن خوشی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ ہر طرف سوگواریت کا عالم ہے۔ کراچی لہولہان پڑا ہے، لاہور، پشاور ہر طرف دہشت گردی نے لوگوں کے گھر کے گھر برباد کردیے ہیں۔ لوگ عید کی خریداری کرنے کے بجائے اپنے پیاروں کے لیے کفن خرید رہے ہیں۔ بے گناہ لوگوں کو اس بے دردی سے مارا جارہا ہے کہ سن کر ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ انسانوں کے روپ میں کیسے درندے، بھیڑیے ہیں جو کہ انسانیت کا لبادہ اوڑھے اپنی حیوانیت کی بھینٹ ہزاروں کو چڑھا چکے ہیں، پھر بھی ان کی پیسے کی ہوس اور خون کی پیاس بجھتی نہیں ہے۔ ادھر کوئٹہ کے لوگ کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار پڑے ہیں، جن کے گھر زلزلے کی یوں نذر ہوگئے کہ اب ان کے پاس نہ تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے ہیں اور نہ سر چھپانے کے لیے جگہ، ان کی نگاہیں کسی مدد کی منتظر ہیں۔ غربت، مہنگائی نے لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل کردی ہے، ایسے میں کوئی عید کی خوشی منانا بھی چاہے تو خوشی اس کو کیسے راس آئے۔ حال یہ ہے کہ عید کی خوشی بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے۔

لیکن خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے حالات ان کی دسترس میں ہیں، جن کے دسترخوان اب بھی دنیا کی ہر نعمت سے لبریز ہوتے ہیں اور عید جن کے لیے قدرت کا انعام تو ہے لیکن ان کو اس کی قدر نہیں۔ ہمارے ہاں ایک عجیب فیشن بن گیا ہے کہ وہ طبقہ جو دنیا کی ہر آسائش سمیٹے ہوئے ہے، بسنت، ویلنٹائن ڈے، نیو ائیر نائٹ تو شوق سے مناتے ہیں لیکن اگر عید کی بات کریں تو میڈیا پہ بیٹھ کے اپنے یار دوستوں کی محفلوں میں یہی کہا جاتا ہے کہ ہم تو عید کا دن سو کے گزارتے ہیں، کوئی کہے گا کہ جی ہم تو بور ہوجاتے ہیں۔

حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جب مکے سے مدینے تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ مدینے کے لوگ دو مخصوص دنوں میں تفریح کرتے اور خوشیاں مناتے ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ ہمارے تہوار ہیں، ہم دور جاہلیت سے ان دو دنوں میں ایسے ہی خوشیاں مناتے رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، خدا عزوجل نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے زیادہ بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عیدالفطر دوسرا عیدالاضحی (سنن ابی دائود)۔

ہم اپنے دین سے اس قدر دور ہوتے جارہے ہیں کہ ہمیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی خوشیوں کی کوئی قدر ہے اور نہ ہی اس کے غضب سے ڈرتے ہیں۔

عیدالاضحی جو کہ نام ہی ہے قربانی کا، ایثار کا، آئیے اب کی بار کیوں نہ اس عید پہ جانور کی قربانی کے ساتھ ساتھ اگر ہم اپنے معاشرے کے اس محروم طبقے کے لوگوں کو بھی خوشیوں میں شریک کریں جن کے معاشی حالات انھیں کوئی خوشی، تہوار منانے کی اجازت نہیں دیتے تو حقیقی معنوں میں عید کی خوشی محسوس ہوگی، کیونکہ اصل خوشی دوسروں کو خوشی دینے سے ہی ملتی ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص یہ سوچ لے کہ اپنے ساتھ ایک مسلمان بھائی، بہن کو عید کی خوشی میں ضرور شامل کرنا ہے تو لاکھوں، کروڑوں گھروں میں خوشی کے دیپ جل سکتے ہیں۔ زندگی ان کے ساتھ بھی مسکرا سکتی ہے جن کو حالات کا آسیب ہمیشہ آزردہ کیے رکھتا ہے، اور سچی خوشیوں کے رنگ ہر چہرے سے چھلک سکتے ہیں۔

ان مبارک دنوں میں اﷲ تعالی سے دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ یا اﷲ پاکستان کے لوگوں پہ اپنا رحم کر، اپنا کرم کر، پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دے، پاکستان کو دشمنوں کی بری نظروں، سازشوں اور اپنوں کی ہوس سے بچا لے، اس ملک کو اور یہاں کے لوگوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا، یہ ملک جو رمضان کے مبارک اور نیک مہینے میں معرض وجود میں آیا تھا، اس کی اساس جس بنیاد پر رکھی گئی تھی، یہاں کے لوگوں کو اپنے دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرما، یہاں کوئی سندھی رہے نہ پنجابی، نہ بلوچی اور نہ ہی پٹھان بلکہ اس پرچم کے سایے تلے سب ایک ہوں، سب پاکستانی ہوں۔ جب ہمارا کلمہ بھی ایک ہے، خدا بھی ایک اور رسول بھی ایک پھر یہ تفریق کیوں؟ اے اﷲ تونے اس ملک کو دنیا جہاں کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے، وہ نعمتیں یہاں کے لوگوں کا مقدر بنادے، یہاں زندگی موت سے سستی نہ ہو، کوئی گھر رزق سے خالی نہ ہو، ہر گھرمیں خوشیاں ہوں، ہر گھر آباد رہے، اور حقیقی خوشیوں سے لبریز ہزاروں عیدیں یہاں کے لوگوں کا مقدر بنیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔