بے وجہ بی جمالو

طارق محمود میاں  ہفتہ 12 اکتوبر 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

کوئی خود جاہل ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس وقت تک کچھ بھی نہیں جب تک وہ جہالت کو اپنی ذات تک محدود رکھتا ہے۔ لیکن اگر وہ اسے درجہ بہ درجہ آگے پھیلانے لگے تو پھر بہت خرابی ہوسکتی ہے۔ جاہل استاد سے خراب چیز دنیا میں بھلا اور کیا ہوگی۔ اور مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کا سب سے بڑا استاد یعنی میڈیا کچھ ایسا کام بھی کر رہا ہے۔ اس میں الیکٹرانک اور پرنٹ، دونوں قسم کے ذرائع شامل ہیں۔ خصوصاً اول الذکر نے تو ایسی ایسی پھلجھڑیاں چھوڑی ہیں کہ مزہ آگیا۔ اتفاقاً کوئی غلطی ہوجانا اور اس پر اصرار نہ کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ میں خود کوئی اچھا انشا پرداز نہیں ہوں ۔ واجبی سی اردو لکھتا ہوں اور بعض اوقات ایسی غلطی بھی کرجاتا ہوں کہ ’’ہات تیرے کی‘‘۔۔۔۔سر پکڑ کے بیٹھ جاتا ہوں لیکن دوہراتا نہیں ہوں۔ آج بھی سیکھنے اور سدھرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

پریشانی کی بات یہ ہے کہ میڈیا، ہمارا آج کا سب سے بڑا استاد، سیکھنے اور سدھرنے کی کوشش کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ وہ اپنی غلطیاں دہراتا ہے۔ اس کی تکرار سن سن کے ’’عوام‘‘ تو اب مونث ہی بن چکے ہیں۔ وہ چاہے تو انھیں مخنث بھی بنادے۔ ’’عوام کہتی ہے‘‘۔۔۔۔’’عوام چاہتی ہے‘‘۔ واہ واہ۔ سبحان اللہ۔ والد آتی ہے۔ والدہ جاتا ہے۔ دراصل صورت حال یہ ہے کہ چینل بہت ہیں، پروگرام بے شمار ہیں اور ٹیلنٹ بھی گلی گلی میں بکھرا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک دانہ اٹھاکے اسٹوڈیو میں لے آیا جاتا ہے۔ پھر ایزد شواہدی کے کالر اور کان میں بولنے اور سننے والے آلے لگا کے پروڈیوسر کہتا ہے۔۔۔۔ ’’دیکھو پپو! وہ کیمرہ ہے۔۔۔۔وہ تمہارے سامنے دو لڑاکے مرغے ہیں۔۔۔۔ایک مرغی ہے۔۔۔۔تم ہو۔۔۔۔اور یہ اردو کا پروگرام ہے‘‘۔۔۔۔اور پھر وہ اردو کے ساتھ وہ حشر کرتا ہے کہ 35 منٹ میں اس کا جلوس نکل ’’جاتی‘‘ ہے۔

یہ جو غلطیاں کرتے ہیں ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ آپ نے خود بھی سنی ہوں گی اور دیکھا ہوگا کہ اکثر اوقات لوگ ان کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ بعض غلطیاں تو اب اتنی شدت سے دہرائی جاتی ہیں کہ یہی یاد نہیں رہتا صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ مثلاً ’’باگ ڈور‘‘ کو بھاگ دوڑ کہنا۔۔۔۔ ’’فلاں شخص نے جب سے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہے‘‘۔ یا پھر استفادہ ’’حاصل‘‘ کرنا۔ استفادے کو ’’حاصل‘‘ کرنے کا کام کرتے تو میں نے ایسے ایسے جید علما اور زعما کو سنا ہے کہ میری سماعت یقین سے محروم ہوگئی  بلکہ اب تو ایسا اخبارات میں بھی چھپا ہوا دیکھنے کو مل جاتا ہے۔

یہ تمام ذکر زبان کی اغلاط کا تھا۔ یعنی ایسی غلطیاں جنھیں پڑھا اور بولا غلط جاتا ہے لیکن ان کا مطلب ٹھیک ہوتا ہے۔ غلطی کرنے والا ان الفاظ کو کچھ اور معنوں میں استعمال نہیں کرتا۔ لیکن ہمارے ہاں تو بڑے بڑے دلچسپ کمالات ہوتے رہتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی لفظ یا اصطلاح کے غلط معنی لیے گئے اور پھر چل سو چل خوب دل کھول کے بحث پر بحث کیے گئے۔ کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ لوگ ایسا کام جان بوجھ کے کرتے ہیں۔ گویا کوئی موضوع نہ سوجھا تو چلو یوں ہی سہی۔ بیکار مباش، پاجامہ ادھیڑتا ہے اور پھر سے سینا شروع کردیتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ کسی نے جمہوریت کے معیار کے بارے میں ایک بیان دیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔ یہ دیکھنے میں تو جمہوریت ہے لیکن جعلی ہے۔ یہ “SHAM DEMOCRACY” ہے۔ یار لوگوں نے اس میں “E” کا اضافہ کرکے اسے “SHAME” بنالیا اور ’’جعلی جمہوریت‘‘ کو ’’شرمناک جمہوریت‘‘ کہہ کے ایسی جوتا کاری شروع کردی گئی کہ کئی روز تک ٹی وی کی اسکرین اور اخبار کا صفحہ شعلے اگلتا رہا۔ بڑے بڑے لیڈر جمہوریت کی شرمناکی پر شرمناک خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ ایک اہم سیاسی جماعت کے سربراہ نے تو اس پر اسی عنوان سے ایک مضمون بھی لکھ مارا تھا۔ چلیے مان لیا کہ ’’جعلی‘‘اور ’’شرمناک‘‘ کے الفاظ ملتے جلتے جذبے کی شدت کو بیان کرتے ہیں لیکن قبلہ “SHAM” اور “SHAME” کے معنوں میں بہت فرق ہے۔ انھیں ایک سمجھ لینا تو جہالت ہے۔

اب ایک اصطلاح کا ذکر۔ میں اس کے بارے میں ایک بار پہلے بھی کسی کالم میں لکھ چکا ہوں۔ دوبارہ یوں یاد آیا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ اقوام متحدہ میں پھر سے اس کا حوالہ دیا گیا ہے اور پھر سے وہی غلطی دہرائی گئی ہے۔ یہ بھارت کو “MFN” اسٹیٹس دینے کی بات ہے۔ یہ ایک تجارتی اصطلاح ہے اور یہ “MOST FAVOURED NATION” کا مخفف ہے۔ جب ایک ملک دوسرے ملک کو “MFN STATUS” دے دیتا ہے تو پھر ان کے آپس کے کسٹم ڈیوٹی کے معاملات بین الاقوامی قوانین کے تحت رعایتی طور پر طے ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اس کیٹیگری میں ایک آدھ نہیں بلکہ تمام ملک شامل ہوسکتے ہیں۔

ہمارے ہاں غلطی یہ کی جاتی ہے کہ ’’موسٹ فیورڈ نیشن‘‘ کا ترجمہ ’’سب سے زیادہ پسندیدہ ملک‘‘ کرلیا جاتا ہے اور پھر سب بحث کرنے والے آپس میں لڑنا شروع کردیتے ہیں۔’’بھارت‘‘ کے ساتھ سب سے زیادہ پسندیدگی کی بات ہے ہی لڑنے مرنے والی بات۔ لیکن حضور والا! یہ لفظ “FAVOURED” ہے “FAVOURITE” نہیں۔ کسی کی FAVOUR کرنا اس کی ’’حمایت‘‘ کرنا ہوتا ہے۔ اس میں پسندیدگی کہاں سے آگئی۔ یوں اس اصطلاح کا درست ترجمہ ’’سب سے زیادہ حمایت یافتہ ملک‘‘ ہونا چاہیے۔ گویا پھر وہی جہالت والا معاملہ کہ ایک لفظ کے غلط معنی نکال کے لمبے لمبے بھاشن شروع کردیتے ہیں۔ ٹھیک ہے، بھارت کے ساتھ دل کھول کے دشمنی نبھائیں لیکن اپنا ترجمہ تو درست کرلیں۔

آخر میں قارئین کے لیے ایک اطلاع کہ بالآخر وہ پھنسنے سے بچ گئے۔ بدنام زمانہ ویلتھ ٹیکس کی محبت میں مبتلا وزیر خزانہ نے ’’ انکم سپورٹ لیوی‘‘ (ISL)کے نام سے ایک نیا ٹیکس لگادیا تھا۔ میں نے اس کے بارے میں لکھا تھا کہ اس حکومت کی عوام میں غیر مقبولیت  کے ذمے دار وزیر خزانہ ہوں گے اور وہ اس ٹیکس کے ذریعے ملک کے ہر گھر سے مسلم لیگ (ن) کو نکال باہر کریں گے۔ وزیر اعظم کو اور عوام کو مبارک ہو کہ سندھ ہائی کورٹ نے ایک حکم امتناع جاری کرکے ایف بی آر کو یہ ٹیکس وصول کرنے سے روک دیا ہے۔ اب قارئین ’’انکم سپورٹ لیوی‘‘ ادا کیے بغیر اپنی ٹیکس ریٹرن فائل کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔