سنار نہیں لوہار بنو

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 24 اکتوبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ایک 10 سال کا بچہ ہے، بھوک سے بے حال ہے ،کوڑے کے ڈھیر پر رزق تلاش کر رہا ہے جھوٹے چاول، ہڈیاں، سوکھی روٹی اپنی میلی کچیلی قمیص سے صاف کرکے کھا رہا ہے جو ٹکڑے ذرا صاف ہیں انھیں جھاڑ کر علیحدہ رکھ رہا ہے، شاید ضعیف ماں باپ کے لیے اٹھا کر رکھ رہا ہے۔

10سال کے میلے کچیلے بچے کو ہر شخص شک اور نفرت سے دیکھتا ہے کہیں یہ چور نہ ہو، کہیں یہ بچوں کو اٹھانے والا نہ ہو، دیکھنے والوں کے ذہنوں میں مختلف خدشات سر ابھارنے لگتے ہیں، بچہ اگرچہ میلا کچیلا ہے لیکن اس کے خد وخال خوبصورت ہیں، اتنے خوبصورت کہ دل بے اختیار اسے اٹھا کرگود میں بٹھانے کو چاہتا ہے لیکن اس کے گندے کپڑے میلا بدن انسان کی خواہش کے آگے آجاتا ہے، اس کا بدن میلا کیوں ہے، کیا وہ روز نہاتا نہیں، کیا وہ روز کپڑے نہیں بدلتا، کیا اسے گندہ رہنا اچھا لگتا ہے؟ لیکن نہانے کے لیے صابن کی ضرورت ہوتی ہے اور صابن اس کی قوت خرید سے باہر ہے۔ کیا یہ ظلم ہے اگر ظلم ہے تو اسے ختم ہونا چاہیے لیکن یہ ظلم تو نسل در نسل چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غریبوں کی تعداد 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ امیر صرف 2 فیصد ہیں۔ پھر یہ 90 فیصد غریب 2 فیصد امیروں سے اپنا حق کیوں نہیں لیتے؟ کیا دو فیصد کی طاقت 80 فیصد سے زیادہ ہے؟ نہیں ایسا نہیں 2 فیصد پر اگر 80 فیصد پھونک ماریں تو اڑ جائیں گے۔

پھر؟ ملک میں قانون ہے انصاف ہے عدالت ہے وکیل ہیں سارا انتظام ہے پھر غریبوں کو انصاف کیوں نہیں ملتا؟ اس سوال کا جواب صدیوں سے تلاش کیا جا رہا ہے لیکن نہیں ملتا۔ کیوں نہیں ملتا؟ کیا اس کا جواب نہیں ہے، جواب ہوگا ضرور اسے چھپا کر رکھا گیا ہوگا۔ جواب کے علاوہ قانون ہے جو ہر وقت الرٹ رہتا ہے ذرہ سی خلاف ورزی پر دھر لیتا ہے بھوکا بھوک سے بے حال ہوکر ایک روٹی چراتا ہے تو اسے پولیس فوری پکڑ لیتی ہے، قانون عدالت کے بکھیڑوں سے بچنے کے لیے اس روٹی چورکو جیل کے کسی کونے کھدرے میں پھینک دیتے ہیں۔

جہاں وہ جیل کا فرش صاف کرتا ہے نالیاں صاف کرتا ہے صبح اسے کانجی کا ایک ٹکڑا اور ایک کپ کالی چائے ملتی ہے، اس کانجی کے ایک ٹکڑے اور ایک کپ کالی چائے میں اتنی طاقت کہاں سے آتی ہے کہ قیدی بارہ گھنٹے سے زیادہ کام کرتا ہے؟ امیر لوگ مکھن کھاتے ہیں، انڈے کھاتے ہیں، سب سے پہلے سوپ پیتے ہیں۔ پھر شہد، دودھ کی باری آتی ہے، کہا جاتا ہے ۔ ہمارے ملک میں غیر ملکی  شہد بکتا ہے لیکن اس شہد کے ساتھ صرف غیر ملکی لگا دیا جاتا ہے ورنہ وہ صاف کیا ہوا گڑ کا شیرہ ہوتا ہے، ہمارا ملک اسلامی ہے اسے مملکت خداداد بھی کہا جاتا ہے خداداد یعنی خدا کا دیا ہوا۔ لیکن ہم نے اسے کیا بنا دیا ہے۔

ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں، ان کے درمیان نوکری کے حصول کے لیے بڑا مقابلہ ہوتا ہے ایک مزدورچار سو روپے روزانہ پر کام کرتا ہے تو دوسرا تین سو روزانہ پرکام کرنے کے لیے تیار کھڑا ملتا ہے۔ یہ ہم نے ایک مثال دی ہے ورنہ سرکار نے تو مزدور کی ماہانہ تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار روپے مقرر کی ہے۔ ساڑھے سترہ ہزار روپے کم نہیں ہوتے اگر مزدور سلیقے سے خرچ کرے تو خوشحال زندگی گزار سکتا ہے۔ انڈہ پراٹھا، دودھ، مرغ، شہد سب کھا سکتا ہے بس ذرا ’’سلیقے‘‘ کی ضرورت ہے۔

سلیقہ بڑے کام کی چیز ہے گھرکی عورت اگر سلیقہ مند ہو تو بچوں میں روٹی کے لیے لڑائی نہیں ہونے دے گی ایک روٹی کے برابر حصے کرکے سب بچوں میں تقسیم کرے گی۔ امیر زادیوں کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ انھیں صرف بیل بجنے پر ڈائننگ ٹیبل پر آکر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ڈائننگ ٹیبل خدا کی دی ہوئی ۔۔۔۔ذرا رکیے! یہ نعمتیں مرغی، انڈے، شہد، دودھ، ڈبل روٹی وغیرہ خدا کی دی ہوئی نعمتیں نہیں ہیں، غریبوں سے چھینی ہوئی نعمتیں ہیں۔ ان نعمتوں کے حقیقی مالک غریب ہیں جو دولت مندوں کے بنگلوں پرکک ہیں، بیرے ہیں، خانساماں ہیں، ویٹر ہیں، چوکیدار ہیں، مالی ہیں، ڈرائیور ہیں۔ خدا انسان کے پیدا ہونے سے پہلے اس کی قسمت لکھ دیتا ہے جو قسمت میں لکھ دیا لکھ دیا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ لیکن میرے بھائی! یہ جو دولت مند ہیں کیا اپنی تقدیر اپنی مرضی سے لکھتے ہیں؟ ان کی تقدیر میں دکھ کی، پریشانی کی، غربت کی پرچھائیاں تک نہیں ہوتیں۔ ایسا کیوں؟

22 کروڑ انسانو! پچھلے سال ڈیڑھ سال سے تم میڈیا میں اربوں کی کرپشن کی داستانیں سن رہے ہو، یہ کرپٹ لوگ کون مزدور ہیں، کسان ہیں، ہاری ہیں، کلرک ہیں، چھوٹے تاجر ہیں، استاد ہیں، وکیل ہیں، ڈاکٹر ہیں، ادیب ہیں، شاعر ہیں، فنکار ہیں، گلوکار ہیں، ان میں سے کوئی نہیں۔ تو پھر یہ کون ہیں؟ جو اربوں کھربوں کے مالک ہیں، ہر روز اربوں روپے ادھر ادھر کردیتے ہیں۔ ایک مزدور دن بھر محنت کرتا ہے اور اتنا معاوضہ بھی حاصل نہیں کرتا کہ اس کے بچوں کا پیٹ بھر سکے۔ ایک سرمایہ دار ایک فون پر پانچ منٹ بات کرتا ہے کروڑوں روپے بنا لیتا ہے۔

کہا جاتا ہے دنیا کی آبادی 7 ارب ہے سات ارب غریب پونے دو سو کے لگ بھگ ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ صرف بٹے ہوئے ہی نہیں ہیں مختلف حوالوں سے متحارب بھی ہیں جس کی وجہ سے ان کی طاقت بٹ گئی ہے۔ اشرافیہ جب چاہے ان میں لسانی، مذہبی، زبان اور قومیت پر فسادات کرا دیتی ہے، لیکن کبھی آپ نے سنا ہے کہ اشرافیہ کے درمیان فسادات ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں؟ اس کیوں کو ادیبوں، شاعروں کو اپنا موضوع بنانا چاہیے۔ لیکن یہ ہوگا کیسے؟ اشرافیہ نے ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کو بھی بانٹ رکھا ہے ہر گروہ دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہے۔ 7ارب انسان نہیں دراصل یہ سات ارب کھمبے ہیں جن میں 22 کروڑ کھمبے ہمارے ہیں۔

دنیا تو ویسے 4 ارب سال پرانی ہے لیکن انسان کی معلوم تاریخ صرف 12-10 ہزار پرانی ہے اس دس بارہ ہزار سالوں میں غریبوں کی تعداد بہت زیادہ رہی اور امیر ہمیشہ مٹھی بھر رہے۔ لیکن یہ کیسا ظلم کیسا انیائے ہے کہ بھاری میجوریٹی کبھی اقتدار میں نہیں آتی بلکہ ایک چھوٹی سی اقلیت ہمیشہ اقتدار میں رہی۔ آج کا دور جمہوریت کا دور ہے۔ جمہوریت اکثریت کی حکومت کو کہتے ہیں۔ گوروں نے بھاری اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے جو آسان نسخہ ایجاد کیا ہے اس کا نام انھوں نے جمہوریت رکھا ہے۔ پاکستان کی 22 کروڑ آبادی اور دنیا کی آبادی کو جمہوریت کی اسی سیاسی سولی پر چڑھا دیا گیا ہے۔ اس ہزاروں سال پرانے آزار سے نکلنا ہو تو سنار نہیں لوہار بننا پڑے گا۔ اس کے بغیر سب بے کار محض ہے وقت کا زیاں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔