ایک کشمیری قیدی کی سرگزشت

سید عاصم محمود  جمعرات 24 اکتوبر 2019
کمیل بھی لاکھوں دیگر کشمیریوں کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کے قیدی بن گئے

کمیل بھی لاکھوں دیگر کشمیریوں کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کے قیدی بن گئے

چوبیس سالہ کمیل سعید بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی درس گاہ ‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم کی دولت پا رہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے صدر مقام‘ سری نگر سے تعلق ہے۔ جولائی 2019ء کے آخری ہفتے جامعہ میں زیر تعلیم بیرون شہر سے آئے طلبہ کو چھٹیاں دے دی گئیں تاکہ وہ اپنے پیاروں کے ساتھ عید منا سکیں۔ کمیل نے بھی بڑی بے تابی سے سری نگر کا رخ کیا۔ وہ تقریباً ایک سال بعد گھر جا رہے تھے۔اب بڑے ذوق وشوق سے منصوبے بنانے لگے کہ بھائیوں اور کزنز کے ساتھ پہاڑوں کی سیر کروں گا۔ جھیل ڈل میں مچھلیاں پکڑوں گا۔ آنے والے پُر لطف لمحات کا سوچ کر کمیل کی خوشیاں دوبالا ہو گئیں۔کمیل 1 اگست کو سری نگر پہنچے۔ صرف دو دن بعد بھارتی حکومت نے وادی کشمیر میں کرفیو لگا کر اسے دنیا کے سب سے بڑے قید خانے میں تبدیل کر دیا۔

کمیل بھی لاکھوں دیگر کشمیریوں کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کے قیدی بن گئے۔ بھارتی حکومت نے کیمونکیشن کا سارا نظام جام کر کے اہل کشمیر کو دنیا ہی نہیں ایک دوسرے سے بھی کاٹ کر رکھ دیا۔اب تک وہ ہزارہا کشمیریوں کو احتجاج کا ’’جرم‘‘ انجام دینے پر گرفتار کر چکی۔ بھارتی فوج اپنے عقوبت خانوں میں گرفتار اہل کشمیر پہ خوفناک تشدد کر رہی ہے تاکہ انھیں تحریک آزادی سے دور کیا جا سکے۔دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں کا بدترین تشدد کشمیریوں کو خوفزدہ کر کے انھیں اپنے خول میں سمیٹ دے گا یا پھر وہ دلیری سے ظالم وجابر بھارتی حکومت کا مقابلہ کریں گے۔کسی حکومت کی جانب سے اپنے لاکھوں شہریوں پر ایسے خوفناک ریاستی ظلم و جبر کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

وطن پہنچ کر بہرحال کمیل سعید کی ساری خوشیاں خاک میں مل گئیں۔انھوں نے پھر اپنی چھٹیاں کیسے دل گرفتہ انداز میں گزاریں‘ اس کا احوال اپنی آپ بیتی میں بیان کیا۔ قارئین کے لیے کمیل کی دلگداز کہانی کے حصے پیش ہیں۔ کشمیری نوجوان نے بڑی دلیری اور جرأت سے اپنے جذبات عیاں کیے ہیں۔

ہفتہ،3 اگست

آج میں گاڑی میں پٹرول ڈلوانے پمپ گیا۔ وہاں پہنچا تو ہکا بکا رہ گیا۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی طویل قطار لگی تھی۔ میں نے پہلے کشمیر میں اتنی بھیڑ نہیں دیکھی۔ لوگ ڈبوں میں پٹرول بھروا رہے تھے۔ ایک آدمی سے پوچھا کہ آخر کیا ماجرا ہے؟ لوگ پٹرول کیوں جمع کر رہے ہیں؟

وہ بولا ’’ارے بھائی‘ پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہونے والی ہے‘‘۔

قریب کھڑے ایک بوڑھے نے کہا ’’نہیں نہیں، یہ دفعہ 370کا معاملہ ہے۔ سالے بھارتی اسے ختم کرنے لگے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو وادی دوسرا شام بن جائے گی۔‘‘

اب لوگوں کی باتوں سے مجھے معلومات ملنے لگیں۔ حکومت نے وادی میں مزید فوجی بجھوا دیئے ہیں جہاں پہلے ہی کثیر تعداد میں بھارتی فوج تعینات تھی۔ ہندو یاتریوں کو کشمیر سے نکل جانے کا حکم مل چکا۔ بنگال‘ اتر پردیش اور پنجاب سے آئے مزدوروں کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ وادی سے چلے جائیں۔ان احکامات نے وادی میں خوف و بے یقینی کی لہر دوڑا دی ۔ ہم کشمیری بھارتی حکمرانوں کی چال بازیوں سے خوب واقف ہیں۔ ہمیں احساس ہو گیا کہ نئی دہلی میں حکومت کی ہنڈیا میں ہمارے لیے کوئی نیا زہر یلا بھوجن تیار ہو رہا ہے۔ مگر اہل کشمیر اس کی اصلیت سے آگاہ نہیں تھے۔

پیٹرول پمپ سے واپس آتے ہوئے بھی مجھے شہریوں میں گھبراہٹ اور بے چینی کے اثرات دکھائی دیئے۔ اے ٹی ایم کے باہر لوگوں کی طویل قطاریں لگی تھیں۔ جنرل اسٹوروں پر ہجوم جمع تھا۔ لوگ بڑی مقدار میں روزمرہ اشیا خرید رہے تھے تاکہ انہیں ذخیرہ کیا جا سکے۔ کئی بدحواس لوگ مجھے یوں ادھر ادھر جاتے دکھائی دیئے جیسے کوئی پاگل کتا ان کے پیچھے ہو۔گھر پہنچا تو میرا سرچکرا رہا تھا۔ میں آرام کرنے بستر پر لیٹ گیا۔ میرے ذہن میں یہ خدشات چکر کھانے لگے کہ بھارتی حکمران کشمیری مسلمانوں کی نسلی صفائی کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ شام کی خبروں میں جمو ں و کشمیر کے گورنر کا بیان نشر ہوا کہ ریاست محفوظ و مامون ہے اور یہ کہ دفعہ حکومت 370ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔مودی حکومت نے پچھلے سال ریاستی حکومت ختم کر کے گورنر راج لگا دیاتھا۔ اب گورنر کے بیان نے وادی میں بے یقینی کی کیفیت مزید بڑھا دی۔ ہم کشمیری سوچنے لگے کہ اگر حکومت دفعہ 370ختم نہیں کر رہی تو کیا وہ ہم پر بم گرانا چاہتی ہے؟

اتوار‘ 5اگست

رات گیارہ بجے مجھے چینائے میں مقیم اپنے ایک کزن سے موبائل پر یہ پیغام ملا ’’کیا یہ صحیح ہے کہ کل سے وادی میں انٹرنیٹ اور فون سروس بند ہو جائے گی؟‘‘ میںنے جواب دیا’’بھائی‘ یہاں کسی کو کچھ نہیں معلوم ۔ ہم سب اندھیرے میں بیٹھے ہیں۔‘‘ اس نے بتایا ’’جموں و کشمیر پولیس سے اسلحہ لے لیا گیا ہے۔ اب صرف بھارت کی سنٹرل ریزرو پولیس فورس ہتھیار رکھتی ہے۔‘‘

کزن کی باتوں نے مجھے پریشان کر دیا۔ پھر خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات رحیم و کرم ہے‘ وہ اپنے بندوں کی حفاظت کرے گا۔ میں یہ سوچ کر لیٹ گیا کہ جو ہوا‘ دیکھا جائے گا۔ اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔

پیر‘ 6اگست

اگلی صبح میں بیدار ہوا‘ تو خود کو ایک نئی اور مختلف دنیا میں پایا۔ سورج بہت نکل چکا تھا ورنہ پہلے سڑک پر ٹریفک کے شور سے میری آنکھ صبح سویرے کھل جاتی تھی۔ سکول جاتے بچوں کی نٹ کھٹ آوازیں بھی مجھے جگا دیتی تھیں۔ لیکن اس صبح ماحول پہ پُراسرار سی خاموشی طاری تھی۔ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے موبائل پر نگاہ ڈالی‘ ’’نو نیٹ ورک‘‘ کے الفاظ میرا منہ چڑا رہے تھے۔

گویا بھارتی حکومت نے پچھلے دو برس میں ’’118 ویں‘‘ بار انٹرنیٹ بند کردیا تھا۔ میں بے تابی سے اٹھا، کھڑکی سے پردہ سرکایا اور باہر جھانکا۔ سڑک بالکل خالی تھی۔ دور دور تک کسی آدم زاد کا بھی نشان نہیں تھا، وہ بھائیں بھائیں کررہی تھی۔ دکانیں بھی بند تھیں۔

میں نے سہم کر کمرے میں رکھا ٹی وی کھولا، اس کی نشریات بھی بند پائیں۔ اب مرا دل ہولنے لگا۔ ضرور وادی پر کوئی آفت ٹوٹ پڑی تھی۔ میں کمرے سے نکل کر امی ابا کے پاس پہنچا۔وہ ابھی ابھی جاگے تھے۔ انہیں بھی حالات کی کچھ خبر نہ تھی۔ اتنے میں پڑوس سے چچا آگئے۔ ان کے پاس پرانا ٹرانسٹر ریڈیو تھا۔ اس سے پتا چلا کہ بھارتی پارلیمنٹ دفعہ 370 ختم کرنے والی ہے اور یہ کہ وادی میں نہایت سخت کرفیو لگ گیا ہے۔ یہ تمام جان کر ہم سب دم بخود ہوگئے، ہمیں لگا جیسے ہمارے ہاتھ پاؤں میں جان ہی نہیں رہی۔

بدھ، 7 اگست

آج شام کو ایک مقامی چینل کی نشریات آنے لگیں۔ ٹی وی پر بھارتی سیاست داں دعویٰ کرنے لگے کہ دفعہ 370 کے خاتمے سے جموں و کشمیر میں ترقی و خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا۔ مگر کسی کشمیری نے ان فراڈیوں کی باتوں پر اعتبار نہیں کیا۔وادی کو خوف و دہشت کی فضا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کئی کشمیری کہنے لگے کہ انتہا پسند ہندو غنڈے اب کشمیر آکر ان کا قتل عام کریں گے۔ وہ 2002ء میں نریندر مودی کی زیر قیادت گجرات میں یہ قدم اٹھا چکے تھے۔ اب تو مودی وزیراعظم تھا، انتہا پسند ہندو غنڈے ہمیں مسل کر رکھ دیتے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہ تھا۔ مودی نے مسولینی بن کر بھارت کو فاشسٹ مملکت بنا ڈالا۔

بھارتی حکمرانوں نے سبھی کشمیریوں کو گھروں میں قید کردیا۔ وہ صرف صبح یا شام و ہی روزمرہ اشیا مثلاً دودھ، سبزی وغیرہ خرید سکتے تھے۔ پھر سب گھروں میں قید ہوجاتے اور پیچ و تاب کھاتے رہتے۔ بچوں کی پڑھائی متاثر ہوئی۔ عید کی تیاریاں کرنا بھی محال ہوگیا۔

پیر، 12 اگست

آج عید ہے مگر کشمیر آگ میں جل رہا ہے۔ صبح سویرے ہی نوجوانوں اور سکیورٹی فورسز میں پتھر بازی کا مقابلہ ہونے لگا۔ سکیورٹی والوں نے آنسو گیس کے کئی شیل پھینکے۔ دھوئیں نے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سارا دن ہیلی کاپٹر اور ڈرون فضا میں اڑتے رہے۔ لگتا تھا کہ ہم میدان جنگ میں رہ رہے ہیں۔ بہت کم لوگ قربانی کرسکے۔ پابندیوں نے عید کی ساری خوشیاں خاک میں ملا دیں۔ یا اللہ! تیرے بے بس بندے کس سے مدد مانگیں؟

منگل، 13 اگست

میرے والد کا کہنا ہے کہ مودی ملکی معیشت ٹھیک نہیں کرسکا اور وہ زوال پذیر تھی۔ مودی نے دفعہ 370 ختم کردی تاکہ بھارتی قوم کی توجہ معاشی پریشانیوں سے ہٹ کر اس جانب مبذول ہوجائے۔

سہ پہر کو مسجد میں دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ایک دوست نے کہا ’’حکومت اب دن بھر ہماری بجلی بھی بند رکھے گی۔ بجلی اب تک صرف اسی لیے آرہی تھی کہ ہم عید مناسکیں۔ بھارتی حکمران ظالم بن چکے۔ اب ہمیں بندوق اٹھا کر ان کے ظلم کا مقابلہ کرنا ہے۔ میں تم سب نوجوانوں کو بندوق چلانا سکھاؤں گا۔ اب گھر میں بزدلوں کی طرح بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

جمعرات، 15 اگست

آج بھارت کا یوم آزادی ہے… مگر بھارتی حکمرانوں نے ہم لاکھوں کشمیریوں کو قیدی بنا رکھا ہے۔ آج ہمارے گھروں کے باہر کہیں زیادہ سپاہی اور فوجی تعینات ہیں۔ دوپہر کو پتا چلا کہ لینڈ لائن فون کھول دیئے گئے ہیں مگر شام تک ہمارے علاقے میں کسی گھر میں لینڈ لائن فون کام نہیں کررہا تھا۔ پوری وادی کشمیر میں انٹرنیٹ بند تھا۔ سبھی سمارٹ فون بیکار ہوگئے تھے۔ کسی کشمیری کو علم نہ تھا کہ دیگر علاقوں میں آباد اس کے پیارے اور دوست احباب کس حال میں ہیں۔ بھارتی حکمرانوں نے ظلم و جبر کی انتہا کردی۔دفعہ 370 ختم ہوئے دس دن بیت چکے۔ ہم سب سخت ذہنی عذاب میں مبتلا ہیں۔ بڑے بوڑھوں کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کریں۔ بہت سے نوجوان سمجھتے ہیں کہ جہاد کا وقت آپہنچا۔ میرا دوست فیاض اکثر جنگی ترانے پڑھتا ہے۔ مگر طویل قید نے ہمارے اعصاب پر نہایت برے اثرات ڈالے ہیں۔ علاقے کے کئی لوگوں کو نروس بریک ڈاؤن ہوچکا۔

اتوار، 18 اگست

ہمارے محلے میں چاچا بشیر رہتے ہیں۔ پچھلی رات سکیورٹی فورسز ان کے اٹھارہ سالہ بیٹے کو پکڑ کر لے گئی۔ اس پر الزام تھا کہ وہ ایک احتجاجی جلسے میں شریک تھا۔ پولیس افسر نے چاچا کو بتایا ’’اب کم از کم ایک سال تک بیٹے کو بھول جاؤ۔‘‘چاچا اور چاچی کی آہ و زاری سے ہمارے دل دہل گئے مگر ظالموں کے پتھر دلوں پر کچھ اثر نہ ہوا۔

آج پتا چلا کہ قریبی محلے میں ایک بوڑھا اللہ کو پیارا ہوگیا۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے پھینکے تھے۔ گولوں کا دھواں اس کے کمرے میں بھرگیا۔ اسی نے ضعیف آدمی کی جان لے لی۔

شام کو جب حکومت نے کرفیو ہٹایا تو ہمارے علاقے کے مرد عورتیں اور بچے… سب لوگ سڑکوں پر نکل کر بھارتی حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ ہم کشمیری کبھی وادی میں آر ایس ایس کا گھناؤنا منصوبہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

جمعہ، 23 اگست

دہلی میں میری جامعہ کھل چکی مگر میں ابھی مادر علمی نہیں جاسکتا۔ کشمیر میں سب کچھ ختم ہوچکا۔ بس سلگتی راکھ رہ گئی ہے جس سے ہماری امنگوں اور آہوں کا دھواں اٹھ رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔