لاہور عجائب گھر بمقابلہ کراچی عجائب گھر

مختار احمد  ہفتہ 26 اکتوبر 2019
لاہور میوزیم کی طرح کراچی میوزیم کی بھی مناسب دیکھ بھال اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

لاہور میوزیم کی طرح کراچی میوزیم کی بھی مناسب دیکھ بھال اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

تاریخ کی کتابوں میں اس بات کا ذکر نہیں کہ لوگوں نے کب، کیسے اور کیونکر اپنے ماضی کی یادوں کو محفوظ کرنا شروع کیا اور اس کے بعد دنیا میں عجائب گھروں کے بنائے جانے کا سلسلہ کب شروع ہوا۔ لیکن اس بارے میں یہ بات مستند ہے کہ جب دنیا وجود میں آئی تو دنیا میں بسنے والے مختلف مذاہب، رنگ و نسل کے لوگوں نے ابتدائی طور پر اپنے آباء و اجداد کی نشانیوں کے طور پر گھروں میں ہی ان کے زیر استعمال اشیا محفوظ کیں۔ پھر جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی یہ میوزیم کا درجہ اختیار کرتے رہے۔

اس وقت دنیا بھر میں 55 ہزار سے زائد عجائب گھر موجود ہیں۔ صرف امریکا میں عجائب گھروں کی تعداد 1500 سے زائد ہے، جن میں برٹش میوزیم، نیچرل ہسٹری میوزیم اور لندن کی سائنس میوزیم کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ اسی طرح فرانس میں 44، آسٹریلیا میں 25، ڈنمارک میں 22، یونان میں 19، فن لینڈ میں 15 میوزیم قائم ہیں۔ جہاں اس ملک کے ماضی کے علاوہ تہذیب و ثقافت اور ترقی کے حوالے سے اہم نوادرات موجود ہیں۔

جس طرح دنیا بھر میں عجائب گھروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اسی طرح پاکستان میں بھی نہ صرف قومی عجائب گھر، جس میں ملک کے چاروں صوبوں سے ملنے والے نوادرات بلکہ ہر مذہب، ہر دور کے مختلف نوادرات موجود ہیں۔ اس حوالے سے فوجی عجائب گھر، شاہی قلعہ عجائب گھر، موہن جو دڑو میوزیم، حیدرآباد بہاولپور میوزیم کے علاوہ حیواناتی عجائب گھر، ذرعی عجائب گھر، انڈسٹریل عجائب گھر بھی موجود ہیں۔ جہاں ہزاروں سال پہلے کی تہذیبوں سے ملنے والے آثار نمایاں ہیں۔ مگر ان عجائب گھروں میں کراچی کے میوزیم کو قدیم ہونے کے ساتھ اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس میں صرف کسی ایک صوبے کے نوادرات نہیں بلکہ ملک کے چاروں صوبوں کے نوادرات موجود ہیں۔

اس میوزیم کا آغاز برطانوی دور میں ایک انگریز کمشنر سر بارٹلے فریئر نے 1871 میں اس وقت کے مشہور زمانہ ٹاؤن ہال ’’فریئر ہال‘‘ کی اوپری منزل سے کیا۔ ابتدائی طور پر میوزیم اور جنرل لائبریری دونوں ہی فریئر ہال کی اوپری منزل پر قائم کیے گئے، جہاں شائقین کی ایک بڑی تعداد نہ صرف مطالعے کا شوق پورا کرتی بلکہ تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے لوگ ماضی میں استعمال ہونے والی نادر و نایاب اشیا کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔ اس میوزیم کو اس وقت وکٹوریہ میوزیم کا نام دیا گیا تھا۔

اس وقت جو لائبریری قائم کی گئی تھی وہ جنرل لائبریری کے نام سے مشہور تھی، پھر اچانک اس میوزیم کو آج کے سپریم کورٹ کراچی کے رجسٹری آفس منتقل کردیا گیا اور یہ کافی عرصے تک یہیں قائم رہی۔ لیکن جب یہاں مزید نوادرات رکھنے کی گنجائش ختم ہوگئی تو ایک وسیع و عریض میوزیم قائم کرنے کے بارے میں سوچا جانے لگا۔ برنس گارڈن جو کہ قدامت کے اعتبار سے کراچی کا پہلا باغ تھا، کو قومی ورثہ قرار دے دیا گیا اور باغ کے اندر قومی عجائب گھر قائم کرنے کی منظوری بھی دے دی گئی۔ جلد ہی ایک 5 منزلہ دیدہ زیب عمارت تعمیر ہوگئی۔ اس کے بعد وکٹوریہ میوزیم کے نوادرات، جو کہ مختلف وقتوں میں کبھی ڈی جے کالج اور کبھی سپریم کورٹ کے رجسٹری آفس اور دیگر عمارتوں میں رکھے گئے تھے، سے نوادرات کو اکھٹا کرکے نیشنل میوزیم کراچی کے اندر منتقل کردیا گیا۔ اس میوزیم کا افتتاح جنرل (ر) یحییٰ خان نے کیا تھاأ

ابتدائی طور پر یہاں 2 یا 3 گیلریاں شروع کی گئیں، جن میں قرآنک گیلری، گندھارا، موہن جو دڑو، زمانہ قبل از تاریخ، تحریک پاکستان سمیت مختلف گیلریاں موجود ہیں۔ جن میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا اور گیلریوں کی تعداد 12 کو پہنچ گئی۔ یہاں چاند کے پتھر کے علاوہ ڈیڑھ لا کھ سے زائد نادر و نایاب قیمتی نوادرات، جن کی مالیت انشورنس کمپنیاں ماضی میں 43 ارب روپے سے زائد بناچکی ہیں، موجود ہیں۔ قرآنک گیلری اور مخطوطات گیلری کو ان تمام گیلریوں میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے، کیونکہ یہاں قرآن کریم کے ہاتھوں سے لکھے گئے نسخوں سمیت عبرانی و دیگر زبانوں میں پہلی صدی سے لے کر پانچویں صدی تک کے قرآن مجید محفوظ ہیں۔ جبکہ مخطوطات گیلری میں مختلف عہد کے بادشاہوں، شہنشاہوں کے فرمان سے لے کر تحریک پاکستان کی جدوجہد کے حوالے سے لکھے جانے والے اہم خطوط بھی شامل ہیں۔

یہ عجائب گھر کبھی وفاق کے زیر اثر رہا تو کبھی سندھ نے اسے گود لے لیا، جس کے باعث وہ عجائب گھر جہاں زمانہ قبل از تاریخ گیلری میں 10 لاکھ سال پرانے انسانی زندگیوں کے آثار اور موہن جو دڑو، ہڑپہ، ہندو تہذیبوں کے آثار کا ایک خزینہ موجود ہے، مگر اس کی موثر انداز میں دیکھ بھال نہ ہونے، غیر پیشہ ورانہ عملے کی تعیناتی کے باعث نہ تو ان گیلریوں میں رکھے گئے سامان کو صحیح طور پر ڈسپلے کیا جاسکا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں محکمہ آثار قدیمہ یا محکمہ نوادرات نے عجائب گھر میں رکھے گئے نوادرات کی کبھی تشہیر کی ضرورت محسوس کی۔ جس کے باعث پورے سال میں معمولی ٹکٹ ہونے کے باوجود ڈیڑھ، دو سو سے زیادہ لوگوں نے ادھر کا رخ ہی نہیں کیا۔ غیرملکی سیاحوں کی آمد یہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو لوگ اس میوزیم کے قریب سے گزر رہے ہوتے ہیں انہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ یہ کوئی عجائب گھر ہے جہاں لاکھوں سال پرانے تاریخ کے خزانے موجود ہیں۔

گزشتہ دنوں میرا لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ لاہور میوزیم، جس کی دیکھ بھال صوبائی حکومت کی زیر نگرانی ہے، کی صاف ستھری پرانی عمارت کو دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ یہ عجائب گھر بھی قدامت کے اعتبار سے انتہائی قدیم ہے۔ لاہور عجائب گھر 66-1865 میں قائم ہوا، جو پہلے ٹولنٹن مارکیٹ کی بلڈنگ میں واقع تھا۔ 1894 میں عجائب گھر کو اس کی موجودہ بلڈنگ جو کہ مال روڈ پر واقع ہے، میں منتقل کیا گیا۔ اس عجا ئب گھر کو بنانے میں جن لوگوں نے کردار ادا کیا ان میں جون لوک وڈکپلنگ بھی شامل ہیں، جن کی فن کاریگری اور مہارت کو دیکھ کر کوئی بھی شخص داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

میوزیم کی اس عمارت کو سر گنگا رام نے ڈیزائن کیا تھا۔ یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہکار اور ملک کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے۔ عجائب گھر مغل اور برٹش دور کی پیٹنگز، سکوں، پاکستان کی دستکاری، بڑے بڑے بُدھا کے مجسمے اور پرانے زمانے کے برتن، ہتھیار اور کپڑوں سے سجایا گیا ہے۔ اس میں ایک فوٹو گیلری بھی شامل ہے، جو کہ اس قرینے سے سجائی گئی ہے کہ ماضی کی تہذیبوں کا مکمل مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

میوزیم کے اندر اگر قالین بافی کی مکمل صنعت کا احاطہ کیا گیا ہے تو بدھا کی مکمل لائف ہسٹری بیان کی گئی ہے۔ میوزیم میں کام کرنے والا بیشتر عملہ پیشہ ورانہ مہارت رکھتا ہے، جنہوں نے نہ صرف میوزیم کو سجا رکھا ہے بلکہ انہوں نے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں مکمل طور پر آگاہی فراہم کر رکھی ہے اور انہیں عجائب گھر کے دورے کی دعوت دی جاتی ہے۔ جس کے سبب اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات کا ایک جم غفیر نظر آتا ہے۔ میوزیم کا وزٹ کرنے والوں میں غیرملکی سیاحوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ اس میوزیم کو دیکھنے کےلیے بھی نہ صرف ٹکٹ فروخت کیے جاتے ہیں بلکہ سیاحوں کی آسانی کےلیے یہاں بک اسٹال اور سونیر شاپ بھی موجود ہے۔ جہاں سے میوزیم دیکھنے کےلیے آنے والا کوئی بھی شخص باآسانی سستے داموں تاریخی نوادرات کی نقل تصاویر، کلینڈر، کپ اور دیگر اشیا خرید سکتا ہے۔

سال گزشتہ جب یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد معلوم کرنے کےلیے ٹکٹوں کی گنتی کی گئی تو ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد نے میوزیم کا دورہ کیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی میوزیم جسے اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ اس کے پاس پورے پاکستان کے سب سے قیمتی نوادرات موجود ہیں، کے حوالے سے اس قسم کی منصوبہ بندی کی جائے کہ لاہور کے شہریوں کی طرح اہل کراچی بھی ناصرف تاریخ میں دلچسپی لیں بلکہ اپنا رشتہ گزرے ماضی کے ساتھ جوڑ سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔