بکرا دودھ دیتا ہے

سید بابر علی  اتوار 13 اکتوبر 2013
جانوروں کے نام’’بلیک کوبرا‘‘،’’شاہ رخ‘‘،’’باڈی گارڈ‘‘،’’مُنابھائی‘‘،’’گَبّر‘‘،’’بلیک بیری‘‘، ٹریکنگ نمبر لگے بیل، کراچی کی مویشی منڈی  میں چند گھنٹے۔ فوٹو: فائل

جانوروں کے نام’’بلیک کوبرا‘‘،’’شاہ رخ‘‘،’’باڈی گارڈ‘‘،’’مُنابھائی‘‘،’’گَبّر‘‘،’’بلیک بیری‘‘، ٹریکنگ نمبر لگے بیل، کراچی کی مویشی منڈی میں چند گھنٹے۔ فوٹو: فائل

ذی الحج کا مہینہ آتے ہی ملک بھر کے شہروں، قصبوں میں مویشی منڈیاں لگنا شروع ہوجاتی ہیں اور ان میں ایک منڈی سپر ہائی وے کراچی میں بھی لگتی ہیں، جہاں پورے ملک سے جانور لائے جاتے ہیں۔

ہر سال کی طرح امسال بھی مویشی منڈی میں فروخت کے لیے ملک بھر کے بہترین مویشی لائے گئے ہیں جب کہ اس سال جانوروں کی تشہیر کے لیے نہ صرف دیو ہیکل سائن بورڈ استعمال کیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب متعدد بیوپاری فیس بک اور ٹوئٹر جیسی سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر بھی اپنے ناز و اندام سے پلے بڑھے جانوروں کی خصوصیات بیان کرنے میں قلابے ملا رہے ہیں۔ سپر ہائی وے پر لگنے والی منڈی میں تا دم تحریر تقریبا ًایک لاکھ سے زاید گائے اور بیل، 35 ہزار سے زاید بکرے اور تقریباً 600اونٹ فروخت کے لیے لائے جاچکے ہیں۔

منڈی میں لائے جانے والے زیادہ تر مویشیوں کا تعلق ساہیوال، چولستان، تھر، سبی اور رحیم یار خان سے ہے۔ کمرشیل ازم کی اس دوڑ نے قربانی جیسی مذہبی رسم کو بھی دکھاوے سے مشروط کردیا ہے اور اس بار نہ صرف فلموں کے نام و کرداروں اور موبائل فون کے ناموں پر مشتمل بکرے، گائے اور بیل دستیاب ہیں تو دوسری طرف آسٹریلیا سے درآمد کیے گئے ’’ٹریکنگ نمبر‘‘ سے مزین خصوصی بیل بھی فروخت کے لیے دست یاب ہیں مارکیٹ میں اپنی نوعیت کے واحد بیل فروخت کرنے والے ادارے کے مینیجر محمد اختر کا کہنا ہے کہ خصوصی طور پر درآمد کیے گئے ان بیلوں کے کانوں پر لگے ’’ٹریکنگ نمبر‘‘ سے خریدار کمپنی کی ویب سائٹ پر یہ نمبر درج کر کے اپنے مطلوبہ بیل کا قد، وزن، عمر، ماضی میں ہونے والی بیماری اور دیگر تفصیلات جان سکتا ہے۔

ٹریکنگ نمبر والے آسٹریلین بیلوں کا وزن 20سے 22من اور قیمت 6سے آٹھ لاکھ روپے ہیں۔ محمد اختر کا کہنا ہے کہ ان آسٹریلوی بیلوں کی خوراک ’’پام کھلی‘‘،’’کرنل کھلی‘‘،’’چوکر‘‘،’’چھوہارے‘‘ اور ’’کھجور‘‘ سے بنے شیرے پر مشتمل ہے اور ہم ان کا وزن بڑھانے کے لیے کسی قسم دوائی نہیں دیتے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے لگے بندھے گاہک ہیں جو ہر سال ہم سے ہی قربانی کے لیے جانور خریدتے ہیں اور ہم اپنے خریداروں کو فروخت سے لے کر چاند رات تک ’’منی بیک‘‘ گارنٹی دیتے ہیں، اگر ہمارے فروخت کیے گئے مویشی میں کوئی بیماری یا نقص نکل آئے تو وہ چاند رات تک آکر ہم سے اپنے پیسے واپس لے جا سکتا ہے اور اس سال فروخت کے لیے لائے گئے تین سو میں سے نصف مویشی بک چکے ہیں۔

منڈی میں رحیم یار خان کے میلہ مویشیاں میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے بیل ’’ٹائیگر‘‘ کو بھی فروخت کے لیے لایا گیا ہے۔ اس بیل کے مالک فاروق احمد کا کہنا ہے کہ روزانہ آٹھ کلو ’’دودھ‘‘، آدھا کلو دیسی گھی کھانے والے ’’ٹائیگر‘‘ کا وزن تقریباً35من اور قیمت 25لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔

مویشی منڈی میں اس بار بھارتی فلموں کے مشہور کردار ’’چل بل پانڈے‘‘،’’سنگھم‘‘،’’باڈی گارڈ ‘‘ بھی فرو خت کے کے لیے لائے گئے تھے جن میں سے زیادہ تر بک چکے ہیں۔ بیس من وزنی ان بیلوں کو روزانہ دس کلو دودھ اور تین پائو خالص مکھن کھلایا جاتا ہے۔ منڈی میں کوڈو نسل کی سب سے چھوٹی بچھیا بھی لائی گئی ہے۔ اس بچھیا کے مالک سید محمد عدیل کا دعویٰ ہے کہ پوری مارکیٹ میں اس نسل کی اتنی چھوٹی بچھیا موجود نہیں ہے۔ دو سے ڈھائی من وزن کی حال اس بچھیا کی قیمت تین لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔

بکرا منڈی میں منفرد ناموں والے بکروں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جن کی پرورش ان کے مالکان نے بہت ناز و نعم سے کی ہے۔ اس حوالے سے ’’بلیک کوبرا‘‘ نامی بکرے کے مالک دوست محمد کا کہنا ہے کہ 60کلو وزنی اس بکرے کی خوراک ایک کلو دودھ اور آدھا کلو مکھن پر مشتمل ہے۔ اس بکرے کی قیمت ایک لاکھ بیس ہزار روپے طلب کی جارہی ہے، جب کہ اسی فارم کے ’’کمانڈو‘‘ کی قیمت ایک لاکھ اور ’’کبوتر ‘‘ کی قیمت ایک لاکھ رکھی گئی ہے۔ اسی مارکیٹ میں ’’راجا پاکستانی‘‘،’’انمول‘‘،’’بلیک بیری‘‘، ’’پرنس‘‘، ’’منا بھائی‘‘ اور ’’ پپو‘‘،’’راجو‘‘ اور ’’گبر‘‘ بھی کھونٹے سے بندھے نظر آئے۔ خالص مکھن اور دودھ سے ناشتہ کرنے والے ان بکروں کی قیمتیں میں لاکھ روپے سے زاید تھی۔ بکرا منڈی میں اپنی نوعیت کا بکری نما بکرا ’’شاہ رخ ‘‘ بھی بچوں بڑوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ’’شاہ رخ ‘‘ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ بکری کی طرح دودھ بھی دیتا ہے اس بکرے کے مالک کا کہنا ہے کہ ’’شاہ رخ‘‘ کی قیمت ایک لاکھ روپے طلب کی جارہی ہے، جو اس کی انفرادی خصوصیت کی وجہ سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔

اس سال قربانی کے لیے لائے گئے اونٹوں کی فروخت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے، لیکن بیوپاریوں کو آخری دنوں میں فروخت میں اضافے کی امید ہے۔ مارکیٹ میں فروخت کے لیے لائے گئے اونٹوں کا تعلق تھر، بدین اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہے۔ تھر کے علاقے اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے اونٹوں کے ایک بیوپاری محمد حنیف کا کہنا ہے کہ اس سال میں بیس اونٹ لایا تھا، جن میں سے اب تک صرف ایک ہی بکا ہے۔

عیدالضحیٰ کے موقع پر جہاں ہر علاقے میں مویشیوں کی سجاوٹ کے لیے مختلف نوعیت کا ساز و سامان فروخت کے لیے پتھارے لگ جاتے ہیں تو دوسری جانب قربانی کے لیے لائے گئے اونٹوں کے جسم پر خوب صورت نقش و نگار بنانے والے کاری گروں کی آمدن میں بھی کافی اضافی ہوجاتا ہے ۔

اس حوالے سے سہراب گوٹھ پر عارضی طور پر قائم اونٹوں کی منڈی میں ایک اونٹ کے جسم پر محض قینچی سے خوب صورت نقش اجاگر کرنے والے فن کار محمد صدیق کا کہنا ہے کہ یہ فن سیکھنے میں آٹھ سے دس سال کا عرصہ لگتا ہے اور اس کام میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ایک اونٹ پر نقش و نگار بنانے میں 4/5گھنٹے لگتے ہیں، عام دنوں میں ہم مہینے میں دس سے گیارہ اونٹ تیار کرتے ہیں۔ بدین سے تعلق رکھنے والے محمد صدیق کا کہنا ہے کہ بدین میں ہم اس کام کی مزدوری700سے ایک ہزار روپے لیتے ہیں لیکن عیدالضحیٰ کے موقع پر ہمارا معاوضہ چار سے پانچ ہزار فی اونٹ ہوجاتا ہے۔ مزدوری میں اس واضح فرق کے بارے میں محمد صدیق نے مسکراتے ہوئے اپنے خالص سندھی لہجے میں کہا،’’کمائے کراچی،کھائے کراچی۔‘‘

امسال منڈی میں انتظامیہ کی جانب سے بھی خریداروں کی سہولت کے لیے کافی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس بارے میں مویشی منڈی کے ایڈمنسٹریٹر شہاب علی کا 700ایکڑ رقبے پر محیط عارضی طور پر قائم ہونے والی اس منڈی میں جانوروں کو اتارنے، چڑھانے کے لیے پہلی بار فری ریمپ بنائے گئے ہیں اس سے قبل اس کام کے لیے بھی شہریوں سے رقم طلب کی جاتی تھی۔ انہوں نے بتایاکہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی سہولت کے لیے پہلی بار ہم نے جدید سہولیات سے آراستہ ’’ میڈیا سیل‘‘ قائم کیا ہے۔ اس سے قبل ٹینٹ کے اندر میڈیا سیل بنایا جاتا تھا۔ میڈ یا میں قائم کنٹرول روم میں سی پی ایل سی نے اپنا آپریٹنگ سسٹم بھی یہاں لگایا ہے اور کسی بھی مشکوک گاری کی نقل و حمل دیکھ کر آپریٹر فوراً اس گاڑی کا ڈیٹا نکال کر قانون نافذ فراہم کرنے والے اداروں کو فراہم کردیتا ہے جب کہ کلوز سرکٹ ٹی وی کیمروں کی مدد سے منڈی کے تمام داخلی اور خارجی راستوں اور پارکنگ ایریا کی نگرانی بھی میڈیا سیل ہی میں کی جاتی ہے۔

شہاب علی کا کہنا ہے کہ منڈی میں جانوروں کے پینے کے لیے دن میں دوبار صاف پانی فراہم کیا جارہا ہے، جب کہ عطائی ڈاکٹروں سے بچنے کے لیے اس بار صرف حکومت سندھ کے ویٹرنری ڈاکٹر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور اب تک جانوروں میں ’’کھر کی بیماری‘‘ اور ’’کانگو وائرس‘‘ کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خریداروں اور بیوپاریوں کے لیے بھی مستند ڈاکٹروں پر مشتمل کیمپ بنائے گئے ہیں جہاں معمولی امراض کے لیے ادویات مفت فراہم کی جا رہی ہے۔

مویشی منڈی میں سیکیوریٹی کے حوالے سے شہاب علی کا کہنا ہے کہ خریداروں کی سہولت کے لیے منڈی میں ہی اے ٹی ایم کی سہولت کے ساتھ دو بینکوں کی عارضی برانچیں قائم کی گئیں ہیں جو چوبیس گھنٹے اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں، جب کہ 300سے400کے قریب نجی گارڈز اور پولیس اہل کاروں کی بڑی تعداد بھی لوگوں کی حفاظت پر مامور ہے۔ شہاب علی کا کہنا ہے کہ مویشی منڈی میں پہلی بار خواتین کے لیے واش روم کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ شہری کسی بھی قسم کی شکایت کی صورت میں مرکزی شکایت ڈیسک سے رابطہ کریں، جب کہ خریداروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مویشی منڈی کے اطراف پولیس اور ٹریفک پولیس کی بڑی تعداد تعینات کی گئی ہے اور اس سلسلے میں شہری انتظامیہ، کمشنر کراچی اور گورنر سندھ کی جانب سے بھی بھرپور تعاون کیا جارہا ہے۔

شہاب علی نے بتایا کہ مویشی منڈی میں بیوپاریوں کی سہولت کے لیے شکایتی مراکز، ہیلپ ڈیسک اور کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے فائر بریگیڈ اور ایمبولینس سروس کو بھی اسٹینڈ بائی رکھا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ منڈی میں قائم کی جانے والی دکانوں میں فروخت کی جانے والی اشیاء کی قیمتوں کو چیک کرنے کے لیے قائم ’’پرائس کنٹرول کمیٹی‘‘ کو بھی فعال کردیا گیا ہے۔

مویشی منڈی انتظامیہ نے منافع خوری کے خلاف مہم کا آغاز کردیا!

کراچی: سہراب گوٹھ پر قائم مویشی منڈی کی انتظامیہ نے منڈی میں منافع خوری کے خلاف مہم کا آغاز کردیا ہے اور مختلف اشیاء ضرورت کو طے شدہ نرخ سے زاید پر فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔

منڈی انتظامیہ کے ترجمان کے مطابق منڈی میں برف اور کولڈڈرنک کی سپلائی کا ٹھیکا حاصل کرنے والے ادارے کا کا ٹھیکا فوری طور پر منسوخ کردیا گیا ہے، کیوںکہ وہ برف طے شدہ نرخ سے زائد پر فروخت کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کررہا تھا۔

منڈی انتظامیہ نے تمام سپلائرز او ر ٹھیکیداروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ طے شدہ نرخ سے زاید پر اشیاء فروخت نہ کریں اور عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کریں، ورنہ ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی اور ان کے ٹھیکے منسوخ کرنے کے علاوہ انہیں بلیک لسٹ بھی کردیا جائے گا۔

انتظامیہ کے مطابق منڈی میں اب تک 37ہزار گائے اور بیل جب کہ تقریباً3ہزار بکرے لائے جاچکے ہیں۔ منڈی میں کل 21بلاکس ہیں، جن میں سے تقریباً7بلاکس آپریشنل ہوچکے ہیں، جب کہ روزانہ بڑی تعداد میں جانور لائے جارہے ہیں۔ منڈی انتظامیہ کی جانب سے بیوپاریوں کی سہولت کے لیے قائم فائر بریگیڈ، بم ڈسپوزل، فری ٹوائلٹس، جانوروں کے لیے پانی اور بجلی کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ انتظامیہ نے تمام بیوپاریوں سے درخواست کی ہے کہ کسی بھی قسم کی پریشانی کی صورت میں فوری طور پر شکایتی سیل پر رابطہ کریں اور کسی بھی شخص کو اپنے مسائل کے حل کے لیے پیسے نہ دیں۔

ترجمان کے مطابق گذشتہ سال کی نسبت اس سال بیوپاریوں اور خریداروں کے لیے زیادہ بہتر انتظام کیے گئے ہیں جب کہ کے ایم سی اور کمشنر کراچی کی جانب سے بھی بھرپور تعاون کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک درجن سے زاید ڈاکٹروں کی ٹیم منڈی میں 24گھنٹے خدمات انجام دے رہی ہے اور کوئی بھی خریدار اپنا قربانی کا جانور کسی بھی وقت ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں کی ٹیم سے چیک کراسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔