بدن کے خطوط کا تناسب یا سیرت کا حسن

غلام محی الدین  اتوار 13 اکتوبر 2013
انڈونیشیا میں حسینۂ عالم کے روایتی مقابلے اور مس مسلم ورلڈ کا انوکھا تجربہ۔ فوٹو: فائل

انڈونیشیا میں حسینۂ عالم کے روایتی مقابلے اور مس مسلم ورلڈ کا انوکھا تجربہ۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: حال ہی مین گزرے دنوں اقوام عالم نے انڈونیشیا میں خواتین کی ذہنی اور جسمانی تناسب و توازن کے دوعالمی مقابلے دیکھے۔ یہ دونوں مقابلے ایک دوسرے سے یک سر مختلف تھے مگر دونوں ہی عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ پہلے مقابلے میں مس مسلم ورلڈ کا مقابلہ ہوا، جس میں نائیجیریا کی سیاہ فام خاتون نے فتح حاصل کی، اس کے چند ہی دن بعد مس ورلڈ کا مقابلہ ہوا، وہاں سرخ وسفید رنگت کی مالک فلپائن کی دوشیزہ نے میدان مارا۔

میگان ینگ نئی مس ورلڈ 2013

فلپائنی حسینہ میگان ینگ ’’مس ورلڈ 2013‘‘ منتخب ہوئی تو عالمی ذرائع ابلاغ نے اس مقابلے کو خصوصی کوریج دی۔8   سے 28  ستمبر  تک جاری رہنے والا یہ مقابلہ انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں منعقد ہوا۔ مس ورلڈ 2013 کے فائنل مقابلے میں دنیا بھر کی حسیناؤں نے شرکت کی، جن میں سے 5 حسیناؤں کو فائنل کے لیے منتخب کیا گیا تھا تاہم حتمی نتائج میں مس ورلڈ کا قرعہ 23 سالہ فلپائنی حسینہ میگان ینگ کے نام نکلا۔ ’’مس ورلڈ 2013‘‘ کا گرینڈ فِنالے دنیا بھر کے 180 سے زیادہ ممالک میں دیکھا گیا جب کہ اس موقع پر مظاہروں کے پیش نظر سیکیوریٹی کے انتہائی سخت انتظامات بھی کیے گئے تھے۔ تیئیس سالہ میگان ینگ کا تعلق فلپائن سے ہے۔ اس بار  انہوں نے  ’’مس فرانس‘‘ مارین لورفیلائن اور’’ مس گھانا‘‘ کرانزانا اوکیلے شوٹر کو مات دے کر مس ورلڈ 2013  کا تاج اپنے سر پر سجایا ۔ یہ تقریب انڈونیشیا کے شہر بالی کے نوسا دوا کنوینشن سنٹر میں منعقد ہوئی، جہاں میگن ینگ نے روشنیوں اور مدھر دھنوں والی اس تقریب میں  چمکتا ہوا مس ورلڈ 2013 کا تاج سر پر رکھوایا ۔

مس ورلڈ کے اس مقابلے میں 127 حسیناوں نے حصہ لیا تھا۔  مس ورلڈ 2013 کا فائنل دیکھنے والے 180 سے تجاوز کرتے ممالک کے ناظرین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’ ایشیا کی حسینہ نے امریکا اور یورپ کی حسیناوں کو واقعی دھول چٹا دی‘‘۔ یاد رہے کہ میگان ینگ مس فلپائن بھی ہے۔ خواتین کے عالمی مقابلۂ حْسن کے فائنل مرحلے سے پہلے عالمی میڈیا کا خیال تھا کہ انتہا پسند مسلمانوں کے مظاہروں کے تناظر میں مس ورلڈ کے فائنل راؤنڈ کا انعقاد خاصا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں حسینٔ عالم کے مقابلے کے افتتاح کے موقع پر چین کی وینش ایو بھی موجود تھی، جس نے پچھلے سال یہ خطاب جیتا تھا۔ باقاعدہ افتتاح سے پہلے شرکاء  کو ایک پریس کانفرنس میں متعارف کرایا گیا۔ مقابلے میں جسمانی توازن اور تناسب کے ساتھ ساتھ شرکاء کی ذہنی صلاحیت کو بھی پرکھا جاتا ہے۔

جس ہوٹل میں مس ورلڈ کے مقابلے کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی، اس کا عملہ بھی زرق برق لباس میں ملبوس تھا۔ ہوٹل حکام کا کہنا ہے کہ تبدیلی کا مقصد یہ بتانا تھا کہ مس ورلڈ کا مطلب صرف جسمانی خوب صورتی نہیں بل کہ یہ ثقافتی اقدار سے بھی منسلک ہے۔ منتظمین نے کچھ عرصہ پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ اس مقابلے میں بکنی راؤنڈ نہیں ہوگا۔ انتہا پسندوں کی جانب سے مقابلے کی مخالفت کی وجہ سے اس مقابلے کو جزیرۂ بالی تک ہی محدود رکھا گیا اور سیکیوریٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے ۔ انڈونیشیا میں اس مقابلۂ حسن کے خلاف احتجاج بھی ہوا۔ یاد رہے کہ اس مقابلے کے مختلف مراحل میں اچھی کارکردگی دکھانے والی کو ہی یہ خطاب ملتا ہے۔ تقریباً ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس مقابلے میں رواں سال 31 1 ملکوں کی خواتین نے حصہ لیاتھا۔

مس ورلڈ 2013 اور انڈونیشیا کے قدامت پسند

ناول نگار اور انڈونیشیا میں خواتین کے ایک آن لائن میگزین کی مدیرۂ منتظم نیلم سوری نے اپنے ایک مضمون میں مس ورلڈ مقابلوں کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا ۔ مدیرہ نے  انڈونیشیا میں مس ورلڈ مقابلے کے انعقاد پر انڈونیشیائی علما کونسل (ایم یو آئی) کے چیئرمین احمدان صابرہ کے ایک بیان  کا حوالہ دیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہماری پوزیشن واضح ہے، ہم مس ورلڈ کے مقابلے کے لیے انڈونیشیا کے میزبان بننے کو مسترد کرتے ہیں، اس مقابلے میں شریک خواتین کا اپنے جسم کو ظاہر کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ مس ورلڈ مقابلۂ حسن 2013 ملک میں ایک بڑے اختلاف کا سبب بنے گا۔ اسلام دفاع فرنٹ (ایف پی آئی) اور حزب التحریر انڈونیشیا جیسی کئی اور مذہبی تنظیموں نے بھی مقابلۂ حسن کو مسترد کیا کیوں کہ وہ اس مقابلے کو خواتین کو ان کے رتبے سے گرانے کا سبب، اخلاقی حوالے سے گھٹیا اور اسلامی اقدار کے برعکس سمجھتے ہیں۔ میں جو کہ خود ایک مسلمان عورت ہوں، مقابلہ ہائے حسن کو ٹی وی پر دکھائی جانے والی تفریح کی ایک اور شکل سمجھتی ہوں لیکن کئی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ مس ورلڈ کا مقابلہ انڈونیشیا کو نقصان کی نسبت فائدہ  پہنچا رہا ہے۔

یہ انڈونیشیا کے لیے بین الاقوامی سطح پر نمایاں ہونے کا ایک موقع ہے۔ نقطہ نظر اور آراء میں اختلافات ناگزیر ہیں لیکن ہمیں اپنی آراء دوسروں پر تھوپنی نہیں چاہییں۔  مس ورلڈ تنظیم کی چیئر پرسن جولیا مورلے نے اس ضمن میں کچھ یوں کہا ’’میں دنیا میں جہاں کہیں بھی جاتی ہوں، ہمیشہ اس ملک میں پائے جانے والے نقطہ نظر اور خواہشات کا احترام کرتی ہوں، ہم بہت کوشش کرتے ہیں کہ کوئی غلطی نہ کریں اور نہ ہی کسی کو ناراض کریں‘‘۔ مس ورلڈ 2013 کے منتظم نے مقابلے کو انڈونیشیائی ثقافت کے لے مزید موزوں بنانے کی خاطر پیراکی کے لباس والا حصہ ہی ختم کر دیا تھا اور مقابلے کا مقام جکارتہ اور بوگور (مغربی جاوا) سے تبدیل کر کے بالی مقرر کر دیا جو کہ ہندو اکثریت والا جزیرہ اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر معروف ہے۔ حسن کے مقابلوں کے حوالے سے انڈونیشیا کوئی اجنبی جگہ نہیں ہے۔ وہاں ’’انڈونیشیائی شہزادی‘‘ اور ’’مس انڈونیشیا‘‘ جیسے مقابلہ ہائے حسن بھی ہوتے رہتے ہیں۔  مقامی مقابلہ حسن اور بین الاقوامی مقابلوں میں واحد بڑا فرق، پیراکی کے لباس والے حصے کی عدم موجودی ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ 18 ستمبر کو جکارتہ میں نائیجیرین خاتون عبیبی عائشہ عجیب اللہ کو مس ورلڈ مسلم کا تاج پہنایا گیا۔

2011 میں اس مقابلے کی بنیاد ڈالنے والی عکاشانتی نے ان الفاظ میں اس کی وضاحت کی ’’مس ورلڈ مسلم‘‘ اسلام کی طرف سے مس ورلڈ کا جواب ہے۔ اس برس ہم نے جان بوجھ کر اپنا پروگرام حسینہ عالم کے مقابلے سے ذرا پہلے رکھا تا کہ دنیا کو دکھائیں کہ مسلمان خواتین کے لئے متبادل نمونے (رول ماڈل) موجود  ہیں‘‘۔ دنیا بھر سے 20 مسلمان خواتین نے اس مقابلے میں شرکت کی تھی۔ مقابلے کی فاتحین کا انتخاب مذہبی علم، اور تلاوت قرآن پاک جیسے معیارات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ مس ورلڈ مسلم اس بات کا ثبوت ہے کہ حسن کے مقابلے عالم گیر پروگرام ہیں اور مذہبی اور قومی سرحدوں تک محدود نہیں ۔ اگر خواتین چاہیں تو وہ اپنی قومیت، نسل اور مذہب سے قطع نظر ان میں شرکت کر سکتی ہیں۔ مس ورلڈ اور مس ورلڈ مسلم دونوں کی مقابلہ ہائے حسن کی دنیا میں اپنی اپنی جگہ ہے اور لوگ اس میں آزاد ہیں کہ وہ کس کا انتخاب کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاہم جان بوجھ کر کسی دوسرے کی مخالفت میں اس طرح کے پروگرام کرنے کا مقصد صرف لوگوں کو متحارب کیمپوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اس کے باوجود یہ مس ورلڈ تنظیم اور دیگر کے ساتھ مل کر کام کرنے اور حسن کے مقابلوں میں انڈونیشیا کی متنوع اقدار اور معیارات کو پہلے سے زیادہ سمونے کا ایک حیرت انگیز موقع ہے۔

ایسے معیارات جو اصل تشویش کا جواب دیں ان کے بارے میں غور و فکر کیا جا سکتا ہے اور انہیں اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال وہ خصوصی سیشن ہے جس میں مقابلے کی افتتاحی تقریب میں مقابلے میں شریک تمام خواتین کی انڈونیشیا کے روایتی ملبوسات میں رونمائی ہوئی۔  ثقافتی حوالے سے اس طرح کے دل چسپ اضافے عالمی سطح پر ہونے والے دیگر پروگراموں میں بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔  یہ مقابلہ انڈونیشیا کے لیے اس بات کے اظہار کا بھی بہترین موقع ہے کہ ہم ایک عزت دار قوم ہیں جو بین الاقوامی سطح پر کسی معاملے میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے مذہب اور ثقافت میں فرق کے باوجود اپنے مہمانوں کی تعظیم کرتی ہے۔ ایسے حل ممکن ہیں جن میں تمام فریق اطمینان محسوس کریں۔ جب کسی نے مس یونیورس 2005 کے مقابلے میں ’’انڈونیشیائی شہزادی‘‘ کے مقابلے کی فاتح کی جانب سے انڈونیشیا کی نمائندگی کرنے پر اعتراض کیا تو مس یونیورس کے منتظم نے مقابلے میں شریک خواتین کو پیراکی کے دو حصوں پر مشتمل مختصر ترین لباس (بکنی) کے بہ جائے ایک حصے والا لباس (جس میں پیٹ اور پیٹھ ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں) پہننے کی اجازت دے دی تھی۔ اسی طرح کے حل بین الاقوامی سطح پر لاگو کیے جا سکتے ہیں اور یہ شاید اس انداز کو تبدیل کر سکتے ہیں، جس انداز میں عالم گیر سطح پر مقابلہ ہائے حسن منعقد کیے جاتے ہیں۔ انڈونیشیا کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ بین الاقوامی مقابلہ ہائے حسن کو ثقافتی حوالوں سے ایسا بنا دے جس میں پہلے سے زیادہ لوگوں کے لیے ان میں شمولیت ممکن ہو۔

نائیجیریا کی اوبابئی عائشہ عجیب اللہ کو ملکۂ حسن منتخب کیا گیا تاکہ مسلم خواتین کا’’ اصل روپ ‘‘دنیا کو دکھایا جا سکے

انڈونیشیا کے دارالحکومت میں مسلم دنیا کی خواتین کے درمیان ایک منفرد نوعیت کا مقابلہ ہوا مگر یہ مقابلۂ حسن اور بدن کے بہ جائے حسن سیرت کی بنیاد پر ہوا تھا تاکہ مسلم خواتین میں اسلامی تصورات، خصائل اور عادات کو پروان چڑھایا جا سکے۔ اس منفرد مقابلۂ حسن میں اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے جدید دنیا کے مسائل سے نمٹنے کے رجحان کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس مقابلے کی مسلم خواتین میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مداحوں میں اضافے کے بعد منتظمین نے اس مرتبہ انڈونیشیا کے ساتھ ساتھ اسے ملیشیا، ایران، بنگلادیش، برونائی اور نائیجیریا کی مسلم لڑکیوں کو بھی حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔ مقابلے میں حصہ لینے والی خواتین کے لیے بے پردہ ہو نے کے بہ جائے لباس کے ساتھ سکارف کے ذریعے اپنا سر ڈھانپنا بھی لازم تھا۔ یاد رہے کہ اس مقابلے کا آغاز 2011  میں ایک اور نام سے ہوا تھا اور یہ صرف انڈونیشی عوام تک ہی محدود تھا مگر جب میڈیا نے اس کا موازنہ عالمی مقابلۂ حسن سے کرنا شروع کیا ہے تو پھر یہ عالمی شہرت یافتہ مقابلے کے “مسلم متبادل” کے طور پر سامنے آیا۔

فائنل تک پہنچنے والی تمام 20 لڑکیوں نے نفیس کڑھائی والے کپڑے اور پرکشش “سٹیلیٹوز” پہن کر مسلم ورلڈ مقابلۂ حسن کے فائنل مقابلے کو چار چاند لگا دیے۔  قابل تعریف بات یہ بھی رہی کہ تمام چھے ممالک سے آئی خواتین سرسے پائوں تک باپردہ تھیں۔ برطانیہ سے شروع ہونے والے اس مقابلۂ حسن میں جیتنے کے لیے صرف جسمانی حسن ہی نہیں دیکھا جاتا بل کہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ خاتون قرآنی آیات کی کتنی اچھی تلاوت کرتی ہے اور جدید دنیا میں اسلام کے متعلق کیا رائے رکھتی ہے۔ کئی مذہبی سکالروں اور باعمل مسلمانوں کے سامنے ہونے والے مقابلے کے بعد ججوں پر مشتمل ایک پینل نے نائیجیریا سے تعلق رکھنے والی اوبابئی عائشہ عجیب اللہ کو فاتح قرار دیا۔ مسلم ورلڈ کے فائنل میں حصہ لینے کیلئے 500 سے زیادہ لڑکیوں نے آن لائن مقابلوں میں حصہ لیا، جن سے پوچھا گیا تھا کہ انہوں نے سکارف لینا کب اور کیسے شروع کیا؟ پھر ان کی کہانیوں کا آپس میں موازنہ کیا گیا۔ اپنا نام پکارے جانے پر 21 سالہ فاتح دوشیزہ سجدے میں گر پڑی اور اللہ کا شکر ادا کیا اور قرآنی آیات پڑھتے ہوئے رونے لگی۔ وہ اپنی کام یابی اور جیت پراللہ کا شکر ادا کرتی رہی۔ مقابلہ جیتنے پر اسے مکہ مکرمہ  اور بھارت کے دورے کی سہولت کے علاوہ 2200 امریکی ڈالر بہ طور انعام بھی ملا۔

فائنل سے پہلے صحافیوں سے گفت گو کرتے ہوئے اوبابئی عائشہ نے بتایا کہ اس کے نزدیک یہ مقابلہ نہیں تھا، ہم سب تو اس لیے یہاں آئی ہیں کہ دنیا کو یہ دکھایا جائے کہ اسلام کتنا خوب صورت ہے۔ اس مقابلے کی بانی ’’اکا شانتی‘‘ نے، جن کو تین سال قبل اپنا سکارف اتارنے سے انکار کرنے پر نیوز اینکر کی نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا، اپنی اس کاوش کو ’’مس ورلڈ ‘‘ کا مثبت جواب قرار دیا۔ یہ مقابلہ حسینٔ عالم سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں مسلم خواتین فحاشی کی طرف جا رہی تھیں اور وہ  عوام کی رول ماڈل بنی ہوئی ہیں جو کہ تشویش کا باعث ہے، اسی لیے اس سال ہم نے جان بوجھ کر مس ورلڈ کے فائنل سے پہلے یہ مقابلہ برپا کیا تاکہ ہم مسلم خواتین کو بتا سکیں کہ ان کے لیے ایک اور رول ماڈل بھی موجود ہے۔ اس پروگرام کی میزبانی دیوی سندرا نے کی جوکہ انڈونیشین اداکارہ اور پاپ سٹار ہیں۔ وہ حال ہی میں سکارف کے لیے اپنے تیکھے ڈریس پہننا چھوڑ چکی ہیں۔

مقابلے میں مسلم اور پاپ موسیقی کی پرفارمنس بھی ہوئی مگر اس  میں بھی ایک سادگی تھی۔ جکارتہ میں منعقد ہونے والے اس مقابلے میں شوخ رنگوں کے انڈونیشیا کی اسلامی ڈیزائنر ڈریس ’’باتے‘‘ کی نمائش کی گئی۔ دیکھا جائے تو یہ انتہا پسندوں کا مغربی مس ورلڈ کے خلاف احتجاج کرنے کا بہترین طریقہ تھا۔ یاد رہے کہ انڈونیشیا میں مس ورلڈ کا فائینل رکوانے کے لیے ہزاروں انڈونیشی مسلمان سڑکوں پر نکل آئے تھے، جو یہ کہ رہے تھے مقابلۂ حسن کی تشہیری مہم کے متنظمین عریانی اور فحاشی کو فروغ دیتے ہیں۔ مس ورلڈ مسلم 2013 کا مقابلہ اس لحاظ سے بھی منفرد ثابت ہوا کہ یہاں کسی  بھی طرح کی جسمانی نمائش کی بہ جائے روایتی اسلامی اقدار کے مطابق لباس پہننے والی خواتین ہی موجود تھیں اور ان میں سے نائیجریا کی اوبابئی عائشہ عجیب اللہ کو ملکۂ حسن منتخب کیا گیا تاکہ مسلم خواتین کا اصل روپ دنیا کو دکھایا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔