قصاب.......

بشیر واثق  اتوار 13 اکتوبر 2013
معاشرے کا ایک عام کردار جو عید قرباں پر سب کی توجہ کا مرکز اور ضرورت بن جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

معاشرے کا ایک عام کردار جو عید قرباں پر سب کی توجہ کا مرکز اور ضرورت بن جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

میں اسے ساتھ لے کر جائوں گا، قصاب کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے ایک شخص نے کہا ، جبکہ دوسرا قصاب کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا ۔

جیسے ہی عید کی نماز ختم ہوئی تو غفورے قصاب کے گھر کے باہر قربانی کے جانور ذبح کرانے والوں کا تانتا بندھ چکا تھا ، غفورا اس جم غفیر سے تھوڑا گھبرایا ضروردکھائی دے رہا تھا مگر اس کی اس گھبراہٹ میں تھوڑا غرور بھی دکھائی دیتا تھا ، کیونکہ یہی تو وہ دن ہوتا ہے جب ہر کسی کو اس کی اہمیت کا احسا س ہوتا ہے، غفورے نے فیصلہ تو پہلے ہی کر رکھا تھا کہ اس نے کس کے ساتھ جانا ہے، مگر وہ اپنی اہمیت بڑھانے کے لئے اس سارے تماشے کو تھوڑا طول دے رہا تھا، آخر غفورے نے بلند آواز میں کہا کہ وہ چوہدری صاحب کے گھر جا رہا ہے کیونکہ ان سے پہلے بات طے ہوئی ہے، تاہم وہ دوسروں کو بھی مایوس نہیں کرے گا ، سب کی باری آئے گی ۔

جب وہ چوہدری صاحب کی حویلی کی طرف چل پڑا تو اس کے گھر کے باہر جمع ہونے والے دوتین افراد اپنے گھروں کی طرف جانے کی بجائے اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے اور اس سے وقت لینے کی کوشش کر رہے تھے، یوں لگتا تھا جیسے غفورا قصاب نہیں بلکہ کوئی ڈاکٹر ہے جس کو جاں بلب مریض کو دکھانے کے لئے گھر لے جانے کے لئے منتیں کی جارہی تھیں، تب پھر غفورے قصاب نے انھیں مطمئن کرنے کے لئے ان کی باریاں طے کر دیں تو وہ بے چارے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوئے۔ تاہم جس کی باری چوہدری صاحب کے بعد تھی وہ غفورے کے ساتھ ہی لگا رہا شاید اسے یقین نہیں تھا کہ غفورا قربانی کا جانور ذبح کرنے اس کے گھر آئے گا، وہ اسے اپنے ساتھ گھر لے جانے کے لئے اس کے ساتھ رکا ہوا تھا۔

عیدالاضحی یا عید قربان جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس عید پر سنت ابراہیمی ؑ کے مطابق جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے اور قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لئے قصاب کی ضرورت پڑتی ہے، یوں اس روز سارے لوگوں کی توجہ کا محور و مرکز قصاب ہوتا ہے۔ عید کی نماز ختم ہوتے ہی سب قصاب کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور اس تک پہنچنے میں سبقت لے جانے کے لئے کوئی گاڑی پر اور کوئی موٹر سائیکل کا استعمال کرتا ہے اور جن کے پا س کچھ نہیں ہوتا وہ سڑکوں اور گلیوں میں بھاگتے دکھائی دیتے ہیں ، جو ذرا زیادہ سیانے ہوتے ہیں وہ اپنے کسی بچے کو عید کی نماز سے پہلے ہی قصائی کے گھر کی طرف روانہ ہونے کی ہدایت دے کر عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عید قربان پر قصاب عموماً کم ہی عید گاہ میں نظر آتے ہیں وہ گھر بیٹھے لوگوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ شائد وہ اس دن خود کو دوسروں کی نظروں سے بچانے کے لئے ایسا کرتے ہیں کہ کہیں عید کی نماز پر ان کو ’’چاہنے والے‘‘ انھیں وہیں نہ گھیر لیں ۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ قصاب وقت کسی ایک کو دیتا ہے اور قربانی کرنے کسی دوسرے کے گھر تشریف لے جاتا ہے۔ قصاب کا ’’متاثرہ‘‘ بیچارہ گھر میں بیٹھا انتظار کر رہا ہوتا ہے اور قصاب صاحب ایمرجنسی میں ملنے والے گاہک کو بھگتانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ جب کافی دیر گزر جاتی ہے تو قصاب کا متاثرہ شخص اس کی تلاش میں نکلتا ہے پہلے اس کے گھر جاتا ہے، وہاں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فلاں شخص کے گھر گیا ہے، وہ وہاں پہنچتا ہے تو قصاب وہاں سے کام ختم کر کے کہیں اور نکل گیا ہوتا ہے، ان سے پتہ معلوم کر کے وہاں پہنچتا ہے تو قصاب معذرت کرنے کی بجائے سندیسہ دیتا ہے کہ وہ ابھی فارغ ہو کر اس کے ساتھ چلتا ہے ، کیونکہ متاثرہ شخص کے پاس اس وقت کوئی چارہ نہیں ہوتا اس لئے وہ ادھر ہی بیٹھ جاتا ہے کہ کہیں پھر کوئی قصاب کو ساتھ لے کر نہ چلا جائے ۔

عید کے روز کچھ قصابوں کا طریقہ واردات سب سے الگ ہوتا ہے وہ کہیں بھی قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بعد مکمل طور پر کام ختم نہیں کرتے بلکہ جانور کی کھال اتارنے کے بعد گھر والوں کو گوشت کرنے میں لگا کر خود کسی اور کی قربانی کرنے نکل پڑتے ہیں ، بہانہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی کھال اتار کر بس ابھی آیا ، حالانکہ دیکھا جائے تو وہ’’ ان دونوں کی ہی کھال‘‘ اتار رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ دوسرے شخص کے جانور کی کھال اتار کر وہاں سے بھی رفو چکر ہو جاتا ہے اور کسی تیسرے شخص کی ’’کھال‘‘ اتارنے کے لئے نکل پڑتا ہے جو خود ہی اسے اپنی ’’کھال‘‘ اُتروانے کے لئے لینے آیا ہوتا ہے۔ تین چار گھروں میں جانوروں کی کھال اتارنے کے بعد وہ واپس پہلے گھر میں جاتا ہے اس وقت تک گھر والے خود ہی جانور کا گوشت تقریباً کر چکے ہوتے ہیں ۔ تب وہ معذرت کرتا ہے اور ان کے ساتھ آخری چند منٹ گزار کر معاوضے کا حق دار ٹھہرتا ہے اور پیسے لے کر دوسرے گھر کا رخ کرتا ہے، وہاں بھی یہی صورتحال ہوتی ہے، یوں ایسے قصاب بہت سے گھر والوں کو اس روز قصاب کا کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں، اور اپنا معاوضہ بھی کھرا کر لیتے ہیں۔

اس سلسلے میں ’’ایکسپریس‘‘ نے پیشہ ور قصابوں سے بات چیت کی۔ پرویزقصاب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’عید الاضحی پر لوگ قربانی کرانے کے لئے خود ہی ہم سے رابطہ کرتے ہیں کچھ تو رات کو ہی بتا دیتے ہیں اور کچھ نماز عید کے بعد ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔ میں چونکہ بکرے ذبح کرتا ہوں تو میرے پاس بکرے کی قربانی دینے والے آتے ہیں تاہم بعض اوقات بڑے جانور جیسے گائے وغیرہ کی قربانی دینے والے بھی رابطہ کرتے ہیں، تاہم جب کوئی مدرسہ ہم سے طے کر لیتا ہے کہ ہم نے صرف انھی کی قربانی کے جانور ذبح کرنا ہیں تو پھر ہم تین، چار قصاب مل کر ان کے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، اس میں بڑے جانوروں کے ساتھ ساتھ بکرے بھی شامل ہوتے ہیں ۔

قربانی کا بکرا ذبح کرنے کا دو سے اڑھائی ہزار روپے لیتا ہوں ، اگر گائے ہوتو آٹھ ہزار روپے لیتا ہوں ، تاہم بہت سے لوگ اس میں سے بھی کم کرا لیتے ہیں ، کچھ لوگ ادھار بھی کر لیتے ہیں ان سے بعد میں معاوضہ وصول کرتا ہوں، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بکرے کی کھال اور تین، چار سو روپے معاوضے میں دیتے ہیں ، ہمیں وہ بھی قبول کرنا پڑتا ہے، عیدکے روز ہم معمول کے مطابق فجر کی اذان سے پہلے ہی اٹھ جاتے ہیں جبکہ اوزار ہم نے پہلے ہی تیار کئے ہوتے ہیں ، جس سے سب سے پہلے جانور ذبح کرنے کی بات طے کی ہوئی ہوتی ہے، پہلے اسی کے ساتھ جاتے ہیں ، عید کے روز شام تک یہی سلسلہ چلتا ہے، ایک جگہ سے فارغ ہوتے ہیں تو کوئی نہ کوئی دوسرا ہمیں ساتھ لے جانے کے لئے پہلے سے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو دن کے وقت قصاب میسر نہیں ہوتا تو وہ رات کو قربانی کراتے ہیں ۔ اللہ کے فضل سے بڑی نیک نیتی سے کام کرتے ہیں اور سب کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔‘‘

قربانی کے بڑے جانور گائے وغیرہ ذبح کرنے والے قصاب محمد رمضان نے عید قربان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ ہمارا پورا خاندان قصائیوں کا کام کرتا ہے ، ہم عید کے مہینے کا چاند چڑھتے ہی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں، چھریاں اور ٹوکے تیز کرنے کا کام شروع کر دیا جاتا ہے ، جس لکڑی پر گوشت بنایا جاتا ہے اس کا بندوبست کرتے ہیں ۔ عید کے روز صبح سویرے ہی اٹھ جاتے ہیں اور اپنے اوزاروں کا جائزہ لیتے ہیں کیونکہ عید کی نماز کے فوراً بعد لوگ قربانی کرانے کے لئے ہمیں لینے کے لئے آجاتے ہیں، تب اتنا وقت نہیں ہوتا کہ اوزاروں کا جائزہ لیں ۔ جن افراد سے قربانی کرنے کی بات کی ہوتی ہے پہلے انھی کے ساتھ جاتے ہیں۔ اصل میں جو لوگ سالہا سال سے ہم سے قربانی کرا رہے ہیں ہم سب سے پہلے انھیں ہی ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے بعد دوسروں کی باری آتی ہے، ہمارے بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ عیدکے روز قصاب وقت نہیں دیتے تو ان لوگوں کی بات بھی ٹھیک ہے اس روز رش ہی اتنا ہوتا ہے مگر ہم کسی کو مایوس نہیں کرتے جس کا کام جتنی جلدی کیا جا سکتا ہے کرتے ہیں اور دوسرے قصابوں کی طرح بھی نہیں کرتے کہ کسی کا کام ادھورا چھوڑا اور پھر آگے چل پڑے ، جس کا کام پکڑ لیا پھر مکمل کر کے ہی اس کے گھر سے نکلتے ہیں ۔

دو قصابوں کو ایک جانور کی قربانی کرنے میں دو، اڑھائی گھنٹے لگتے ہیں ، اس طرح سارے دن میں چار پانچ جانور ہی ذبح کر پاتے ہیں، انسان ہیں آخر تھک بھی جاتے ہیں ۔ ایک گائے کی قربانی کرنے کے چار سے پانچ ہزار روپے لیتے ہیں ، تاہم دیر سے کرانے والوں سے مزید پانچ سو کم کرنا پڑتے ہیں ۔ اسی طرح عیدکے دوسرے دن بھی معاوضہ خود بخود کم ہو جاتا ہے۔ عیدکے تیسرے روز تو شاذ ونادر ہی کوئی قربانی کراتا ہے، تاہم ہماری پوری تیاری ہوتی ہے۔ بڑے جانور کو قابو کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے، مگر ہم دو افراد جانور کو اچھی طرح قابو کر لیتے ہیں اور آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ قربانی کا جانور بے قابو ہوا ہو ۔ بعض افراد معاوضے میں جانور کی کھال دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ معاوضہ رقم کی صورت میں ہی وصول کیا جائے، کیونکہ کھالوں کو سنبھالنا ذرا مشکل ہوتا ہے جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہی اسے اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں ۔ بعض اوقات ادھار بھی کرنا پڑ جاتا ہے تاہم بعد میں پیسے مل جاتے ہیں کیونکہ قربانی کے ذبیحہ کی ادائیگی کرنا مذہبی طور پر بھی ضروری ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔