شٹ ڈاؤن امریکا

غلام محی الدین  اتوار 13 اکتوبر 2013
امریکی معیشت کو یومیہ تیس کروڑ ڈالر کا خسارہ، 17 اکتوبر تک معاملات طے نہ ہوئے تو تباہی شروع ہوجائے گی۔ فوٹو: فائل

امریکی معیشت کو یومیہ تیس کروڑ ڈالر کا خسارہ، 17 اکتوبر تک معاملات طے نہ ہوئے تو تباہی شروع ہوجائے گی۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: قریباً دو عشروں بعد امریکا میں پہلی بار یہ ہوا ہے کہ واشنگٹن میں معمول کی زندگی  ابتری کا شکار ہوئی ہے۔حکومت اور دفتروں میں گہما گہمی ڈھونڈے سے نہیں مل رہی، نجی اور حکومتی کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے۔

پرہجوم واشنگٹن ڈی سی، جو ہر وقت سات لاکھ سے زیادہ وفاقی ملازمین اور کئی ملین سیاحوں سے کھچا کھچ بھرا رہتا تھا اور پورا سال اس میں سیاح ایک قومی یادگار سے دوسری تک جاتے دکھائی دیتے تھے، جانے کہاں چلے گئے؟ کام کرنے والوں کو علم نہیں کہ انہیں اگلی تنخواہ کے چیک ملیں گے؟ یہ ہی نہیں اب تو اگلا ممکنہ حکومتی شٹ ڈاؤن بھی محض چند ہفتے کے فاصلے پر ہے۔ یکم اکتوبر منگل کو جب رات کے بارہ بجے رہے تھے، تو واشنگٹن کی گلیاں خالی اور فضا میں بے یقینی اور تشویش طاری تھی مگر صدر باراک اوباما سمیت بہت سے لوگ پرامید تھے کہ کانگریس میں عین آخری وقت پر کوئی نہ کوئی تصفیہ ہو ہی جائے گا لیکن الٹی ہو گیئں سب تدبیریں ۔۔۔

وفاقی حکومت امریکا کا سب سے بڑا آجر ادارہ ہے جس کے دو ملین سے زیادہ ملازمین ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ موجودہ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے وفاقی حکومت کے آٹھ لاکھ ملازمین کو بغیر تن خواہوں کے رخصت پر کیوں بھیجا گیا ہے؟۔ کئی وفاقی ایجنسیاں اور محکمے بند ہو چکے ہیں اور کم از کم تعداد میں صرف وہی ملازمین اس وقت کام پر ہیں جن کی موجودگی وفاقی حکومت کے کاروبار کو چالو رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ منگل یکم اکتوبر کی صبح واشنگٹن میں جو ملازمین حسب معمول اپنے کام پر آئے، انہیں یہ سننا پڑا کہ حکومتی دفاتر کی بہت بڑی تعداد بند ہو چکی ہے اور وہ واپس جا سکتے ہیں۔ پژمردگی کے شکار ملازمین کا کہنا ہے کہ اصل میں تو ایوان نمائندگان کے ارکان کی تن خواہیں روکی جانا چاہییں تھیں۔ ایسے ایک سرکاری ملازم نے تلملا کر کہا ’’اگر ہمیں تنخواہیں نہیں ملتیں تو انہیں (کانگریس کے ارکان کو) بھی نہیں ملنی چاہیں۔‘‘

اس شٹ ڈاؤن سے انتہائی اہم حکومتی ادارے، مثلاً پبلک اسکول، ٹرانسپورٹ اور قومی سلامتی کے ادارے متاثر نہیں ہوئے لیکن دارالحکومت بہ ہرحال پژمردہ ہے۔ درجنوں پبلک عجائب گھر، قومی یادگاریں اور قومی چڑیا گھر تک بند ہیں۔ حکام خبردار کرتے ہیں کہ صرف واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں اس شٹ ڈاؤن سے ہونے والا نقصان 200 ملین ڈالر یومیہ اور ہفتہ وار قریب ایک بلین ڈالر ہوسکتاہے۔ امریکی کانگریس کے اقدامات کو عوامی تائید و حمایت کی شرح محض 10 فی صد رہ گئی ہے، جو امریکا میں اپنے طور پر ایک نئی تاریخ ہے۔ امریکابھر میں سیاست دانوں کے خلاف غصے کا اظہار کیا جارہا ہے کیوںکہ ان کے نمائندے کسی حل تک پہنچنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے امریکی شہری حکومتی اداروں کی موجودہ بندش کے لیے ریپبلکن ارکان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، ان کے مطابق کانگریس نے صدر اوباما کے صحت عامہ کے پروگرام  (Patient’s Protection and affordable Care Act) سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کے لیے، سرکاری ملازمین اور ان کے خاندانوں کو مالیاتی یرغمال بنا رکھا ہے۔ واشنگٹن میں بین الاقوامی معیشت کے پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینیئر محقق جیکب کِرکیگارڈ کو خدشہ ہے کہ موجودہ صورت حال مزید خراب ہو گی‘‘۔

ایوانِ نمائندگان میں اکثریت کے حامل ریپبلیکنز نے سینیٹ کا ۲۷ستمبر کو بھیجا گیا بِل مسترد کر دیا تھا، جس کا مقصد ۱۵ نومبر تک حکومت کے فرائض کی بجا آوری کو یقینی بنانا تھا۔ پھر ۲۸ ستمبر کی شام ایوان کے سامنے بجٹ سے متعلق ایوان کا اپنا مسودۂ قانون رائے شماری کے لیے پیش ہوا، جس میں متوقع طور پر ایک سال کے لیے ہیلتھ کیئر قانون پر عمل درآمد معطل کیے جانے کی ترمیم شامل تھی تاہم سینیٹ، جس کے سو میں سے 54ارکان ڈیموکریٹس ہیں، نے اسے منظور نہیں کیا اور نتیجہ شٹ ڈاون ۔۔۔۔ اب 17 اکتوبر کو ایک اور ’ڈیڈ لائن‘ آنے والی ہے، جس سے پہلے پہلے کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی قرضوں میں اضافے کا اختیار منظور کیا جائے، اگر تب تک کوئی معاہدہ طے نہیں ہوتا تو امریکا اپنے قومی قرضوں کی ادائی میں ناکام رہے گا اور یہ بھی امریکی تاریخ میں پہلی بار ہوگا۔

امریکی شٹ ڈاون کے بعد نئے امریکی بجٹ سے متعلق آویزش کئی روز تک برقرار رہنے کی پیش گوئی میں کتنی سچائی ہے؟ تا دم تحریرکسی کو معلوم نہیں مگر امریکی کانگریس میں ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس ایک دوسرے پر مسلسل کیچڑ اچھال رہے ہیں جب کہ دوسری جانب تشویش زدہ امریکیوں نے سڑکوں کی راہ دیکھ لی ہے۔ میڈیا کے مطابق امریکی دارالحکومت میں ایسی سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں جن کا شعبۂ صحت میں کی جانے والی اصلاحات سے کوئی تعلق نہیں۔ خود امریکی صدر نے ریپبلی کنز پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ریپبلی کنز نے بھی ادھار باقی نہیں رکھا، نہ ہی وہ پس پا ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے بل کہ ان کی کوشش ہے کہ ڈیموکریٹس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں۔

ریپبلیکنز کا طریقہ سمجھ میں یہ آتا ہے کہ بجٹ، قانون کی شقوں کے مطابق طے کیا جائے اور اوباما کی صحت سے متعلق اصلاحات پر کیا جانے والا خرچ روک دیا جائے لیکن انہیں خود کانگریس سے بھی کافی حمایت دست یاب نہیں ہوئی، جہاں 435 کے ایوان میں ان کی اکثریتی یعنی 232 نشستیں ہیں، تبھی تو ریپبلیکن جان بینر غضب ناک ہو کر کہتے ہیں ’’مجھے سینیٹ کے فیصلے نے مایوس کیا ہے، جسں نے بجٹ میں ہماری تجاویز کو منظور نہیں کیا، ہماری طرف سے پیش کیے جانے والے قانونی مسودے میں حکومت کو 15 دسمبر تک مکمل اخراجات دیے جانے کی ضمانت دی گئی تھی اور ساتھ ہی اوباما کے صحت کے غیرمنصفانہ پروگرام کو تبدیل کرنے کے لیے کہا گیا تھا، اب کوئی رعایت نہ دی جائے، اصول سب کے لیے یک ساں ہوں، سینیٹ میں نہ صرف بجٹ سے متعلق ہماری پیش کردہ پالیسی کو رد کیا گیا بل کہ اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیے جانے کی ہماری اس تجویز کو بھی مسترد کیا گیا جس کی آئین اجازت دیتا ہے‘‘۔

عام امریکیوں کو اس سیاسی کھیل پر بہت زیادہ تشویش ہے۔ نوّے فی صد امریکی شہری کانگریس کے کام سے نامطمئن اور ری پبلیکنز کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ماہرین کیا اندازہ ہے کہ اس بحران سے ہر روز معیشت پر بیس کروڑ ڈالر کا بوجھ پڑے گا اگر واشنگٹن نے یہ قضیہ دو تین ہفتے میں حل نہ کیا تو مجموعی طور پر 55 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے، جو تباہ کن سمندری طوفان قطرینہ سے پہنچنے والے نقصان کے برابر ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ معاملہ 17 اکتوبر تک طے نہ ہوا تو ایک بڑی تباہی آسکتی ہے کیوںکہ اس تاریخ کے بعد حکومت کے پاس موجود رقم تمام ہو جائے گی۔ ایک سرکاری ملازم خاتون کہتی ہیں ’’انہوں نے حقائق سے یک سر روگردانی کرلی ہے، وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیںکہ ان کے فیصلے کا عام شہریوں پہ کیا اثر ہوتا ہے، ہم لوگوں پر، ہم ۔۔۔ جو چھوٹے لوگ ہیں‘‘۔ایک دوسری خاتون نے کہا ’’ان کو تو تن خواہ کسی نہ کسی طرح مل رہی ہے لیکن ہمیں نہیں، جب کہ اس آویزش کے ذمہ دار بھی وہ خود ہیں، ہم نہیں، مجھے لگتا ہے کہ یہ سب غیرمنصفانہ ہے‘‘۔

آٹھ لاکھ سرکاری ملازمیں کے فوری متاثر ہونے کے بعد اس خطرے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا کیا جاسکتا کہ اگر مالی بحران کے اسباب دور نہ کیے گئے تو دنیا بھر میں امریکی فوجی سرگرمیاں بھی متاثر پر ہوں گی۔ ایک عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق مالی مسائل کی وجہ سے شٹ ڈاون جاری رہا تو اس سے بحری جنگی جہازوں کی مرمت اورجنگی آپریشنز کے علاوہ فوج کے مختلف شعبوں کے لیے تربیت کا اہتمام بھی مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ امریکا کے دفاعی حکام کے مطابق اس شٹ ڈاون سے افواج کو سول شعبے سے ملنے والی معاونت کی بندش کے بعد افواج کی افرادی قوت بھی متاثر ہو گی لہٰذا یہ خدشہ بھی ہے کہ مسلح افواج کو بعض شعبوں میں آلات کی رسد میں رکاوٹ آجائے گی۔ اس بارے میں ایک سینیئر فوجی ذمہ دار کا کہنا تھا  ’’شٹ ڈاون سے جو اثرات فوج کو برداشت کرنا پڑیں گے ان کا احساس فوری طور پر نہیں ہو گا البتہ بعد ازاں اس شٹ ڈاون کے مضمرات سامنے آئیں گے‘‘۔ ان ذرائع کے مطابق بحری جنگی جہازوں سے شپ یارڈز پر ہونے والے کام متاثر ہوں گے، فوج کے بعض انتظامی شعبوں کے معمولات بھی گڑ بڑ ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی فورسز کی اس شٹ ڈاون پر فکر مندی کا کھلے عام ذکر نہیں کیا جا رہا لیکن مسقبل میں اس معاملے کے سنگین نوعیت کے خدشات بہ ہرحال موجود ہین۔

اٹھارہ سال قبل ہونے والے شٹ ڈاون کے حوالے سے ایک سابق میجر جنرل کا کہنا تھا ’’امریکا کو اس وجہ سے بوسنیا میں ایک آرمرڈ یونٹ تشکیل دینے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‘‘ امریکا کے وزیر دفاع چک ہیگل کا کہنا ہے ’’امریکا کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ متاثر ہوگی اور امریکی اتحادی اس سے مزید مایوسی کا شکار ہوں گے۔‘‘ امریکی پینٹاگان کے حکام میں بھی اس شٹ ڈاؤن پر گہرے تشویش کی لہر موجود ہے حتٰی کہ امریکا کی خواتین فوجیوں اور عام فوجیوں کی وردیوں کی تیاری میں بھی دشواری ہو سکتی ہے کیوںکہ پینٹاگان سلائی کا کام سول سے کرواتا ہے جو خود اس شٹ ڈاؤن کی زد پر آئے ہوئے ہیں۔ ان ذرائع نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے لیے بھجوائے جانے والے پمپرز کے بارے میں نہیں بتایاکہ یہ بھی سول کا شعبہ تیار کرتا ہے یا بھاری اخرجات کر کے اوپن مارکیٹ سے خریدے جاتے ہیں۔

شٹ ڈاؤن جاری،’ہیلتھ کیئر پر سمجھوتہ نہیں ہوگا:۔

امریکا میں آٹھ لاکھ سرکاری ملازموں کو بغیر تن خواہ کے چھٹی پر بھیجے جانے کے بعد بھی صدر اوباما اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں ان کا کہنا ہے ’’ ملک میں وفاقی محکموں کی بندش یا شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے لیے حزب اختلاف کی جانب سے ہیلتھ کیئر کے قانون میں تبدیلی کی شرط تسلیم نہیں کی جاسکتی‘‘۔ اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی فنڈنگ کو تقسیم کرنے کے کسی بھی بل کو ویٹو کر دے گی۔ خیال رہے کہ صدر اوباما ایک ایسا بل منظور کر چکے ہیں جس کے تحت بندش کے عرصے میں امریکی مسلح افواج کو تن خواہیں ملتی رہیں گی۔

اوباما جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیتے تو یہ نہ ہوتا:۔

شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں سات لاکھ سے زیادہ افراد کو بغیر تنخواہ رخصت پر جانا پڑا اور اس بات کی بھی ضمانت نہیں کہ جب یہ ڈیڈ لاک ختم ہوگا تو انہیں اس عرصے کی تنخواہ مل جائے گی؟ بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ امریکی صدر براک اوباما کے ہیلتھ کیئر پلان پر حزب اختلاف اور حکومت میں اختلافات ہیں۔ رپبلکنز نے بجٹ کی منظوری کے لیے اس قانون کے نفاذ میں کم از کم ایک برس تاخیر کی شرط رکھی ہے جو حکومت کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ادھر رپبلکنز نے اس معاملے پر ڈیموکریٹس سے مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔ اس موقع پر ایوانِ نمائندگان میں ریپبلیکن ایرک کینٹر کے ترجمان نے کہا ’’ اگر صدر اوباما نے پرجوش تقاریر پر کم اور کانگریس کے ساتھ مل کر معاملے کے لیے حل پر زیادہ وقت صرف کیا ہوتا تو شاید ہمیں اس صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا‘‘۔ انتظامیہ کی ترجمان ایمی برنڈیج نے ایک بیان میں کہا ہے ’’ ٹکڑوں میں بٹی یہ کوششیں سنجیدگی کا مظہر نہیں، یہ حکومت چلانے کا کوئی طریقہ نہیں۔‘‘ ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر جان بینر کے ایک ترجمان نے اس صورتِ حال کو ’‘منافقانہ‘‘ قرار دیا ہے۔

شٹ ڈاؤن کے باعث صدر اوباما کا دورہ ایشیا مختصر:۔

امریکی حکومت کے شٹ ڈاؤن کی وجہ سے صدر براک اوباما کو اپنا متوقع دورۂ ایشیا مختصر کرنا پڑا۔ امریکی نیشنل سیکیوریٹی کونسل کی ترجمان کیٹلن ہیڈن کا کہنا ہے ’’یہ اقدام ایوانِ نمائندگان کی وجہ سے حکومت کے شٹ ڈاؤن کا ایک اور نتیجہ ہے‘‘۔اکوئی نیسپاک یونی ورسٹی کے سروے کے مطابق 72 فی صد امریکی شٹ ڈاؤن کے خلاف  ہیں۔

شٹ ڈاؤن ہے کیا ؟ :۔

امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے درمیان بجٹ پر موجود اختلافات دور نہ ہونے کے سبب یکم اکتوبر سے امریکی حکومت شٹ ڈاؤن کا شکار ہے۔ یہ شٹ ڈاؤن کیا ہے؟

حکومتی گاڑی روپے پیسے کے ایندھن سے چلتی ہے۔ امریکی حکومت کی گاڑی کے ایندھن کی ذمہ دار کانگریس ہے، وہ فیصلہ کرتی ہے کہ حکومت کو کس سرگرمی کے لیے کب اور کتنی رقم دی جانی چاہیے؟ امریکا میں نئے مالی سال کا آغاز یکم اکتوبر سے ہوا، جس کا مطلب ہے کہ امریکی حکومت نے گزشتہ مالی سال میں کانگریس سے اپنی سرگرمیوں کے لیے جو پیسہ لیا تھا، وہ 30 ستمبر کو ختم ہو گیا اور اب اسے مزید رقم درکار ہے لیکن کانگریس کے دونوں ایوان، سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان، تاحال بجٹ پر متفق نہیں ہوپائے جس کے باعث حکومت کو اپنی سرگرمیاں اور ادارے بند کرنے پڑے، اسی کو اصطلاحی زبان میں ’’شٹ ڈاؤن‘‘ کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ امریکا کا 17واں شٹ ڈاؤن ہے۔

شٹ ڈاؤن کیوں ہوا؟ :۔

امریکا میں دوجماعتی سیاسی نظام رائج ہے، ایک جماعت ڈیموکریٹس کی، دوسری ریپبلیکنز کی ہے۔ اس وقت سینٹ میں صدر اوباما کی جماعت ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے تو ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکنز کی اکثریت ہے۔ دونوں جماعتوں میں اس وقت شدید اختلافات ہین سو اس باعث قانون سازی تو معطل ہے ہی بجٹ بھی منظور نہین ہو پارہا۔ وجۂ نزاع اوباما کا ’’صحت پروگرام‘‘ہے جسے ’’اوباما کیئر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پروگرام اس یکم اکتوبر سے مؤثر تو ہوگیا ہے مگر نئے بجٹ میں اس کے لیے رقم مختص کرنے پر پھڈا پڑگیا ہے ۔ ری پبلکنز اس کے سخت مخالف ہیں اور اس کی منظوری سے صاف انکاری ہیں، اُدھر ڈیموکریٹس بھی کسی ایسے بلِ کی منظوری سے انکاری ہیں جس میں اوباما کیئر کے لیے بجٹ نہیں رکھا جائے گا۔ دونوں ڈٹے ہوئے ہیں جس باعث 14-2013 کا بجٹ منظور نہیں ہوپارہا۔

حکومتی سرگرمیاں بند ہوجائیں گی؟:۔

جی نہیں، قومی سلامتی، دفاع اور ہنگامی نوعیت کی سرگرمیاں جاری رہیںگی۔ امریکی حکومت کے زیرِ انتظام ادارے اپنے ملازمین میں سے ان افراد کی نشان دہی کریں گے جن کا اپنی ملازمت پر موجود رہنا قومی سلامتی یا انسانی جانوں اور املاک کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ انہیں ’’ناگزیر ملازمین‘‘ قرار دیاجاتاہے، انہیں معاوضہ بھی ملتا رہے گا البتہ ’’غیرضروری‘‘ ملازمین کو بجٹ کی منظوری تک بلا تن خواہ گھر بیٹھنا پڑے گا۔ پولیس اور امریکی فوج کے مسلح اہل کار متاثر نہیں ہوںگے البتہ محکمۂ دفاع کے چار لاکھ سول ملازمین میں سے نصف کو بلاتن خواہ گھر بیٹھنا پڑے گا۔ اسی طرح محکمۂ خارجہ کی بیرونِ ملک جاری بیش تر سفارتی سرگرمیاں بھی جاری رہیں گی اور ویزا درخواستوں کی وصولی اور اجرا بھی جاری رہے گا۔ امریکا کی داخلی سیکیوریٹی کے ذمہ دار ادارے ’’ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی‘‘ نے اپنے دو لاکھ ملازمین میں سے 86 فی صد کو ’’ضروری‘‘ قرار دیا ہے، باقی 14 فی صدبغیر تن خواہ کے رخصت پر بھیج دیے گئے۔ یہ شٹ ڈاؤن سیاحوں کے لیے خاصا مایوس کن ہے کیوںکہ بیش تر سیرگاہیں بند ہوگئی ہیں۔

کتنے ملازمین متاثر ہوں گے؟:۔

امریکی حکومت کے ملازمین کی تعداد لگ بھگ 22 لاکھ ہے، ان میں امریکی فوج کے مسلح اہل کار اور محکمۂ ڈاک کے وہ ملازمین شامل نہیں جو شٹ ڈاؤن سے مستثنٰی ہیں۔ ان 22 لاکھ ملازمین میں سے لگ بھگ آٹھ لاکھ اصطلاحاً ’’غیرضروری‘‘ ہیں، جنہیں ایسی صورت میں گھر بھیجا جاسکتاہے۔

امریکی معیشت کو کیا نقصان ہوگا؟:۔

لوگوں کو تن خواہیں نہیں ملیں گی تو وہ خریداریاں نہیں کریں گے اور نہ ہی کریڈٹ کارڈ اور قرض پر لی اشیاء کی قسطیں ادا کریں گے جس سے کاروباری اور مالیاتی اداروں کی آمدن متاثر ہوگی نتیجتاً معیشت متاثر ہوگی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس دوران امریکی معیشت میں یومیہ 30 کروڑ ڈالر کی کمی ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گدھا (ڈیموکریٹس) اور ہاتھی (ری پبلیکنز) صورت حال سے کیسے عہدہ برآء ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔