کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 27 اکتوبر 2019
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل


ہوا نہ مجھ سے کوئی ہم کلام گردش میں
دھواں ہوئے ہیں مرے صبح و شام گردش میں
یقین کر کہ تجھے گھومتے ملیں گے جہاں
تو جب کرے گا ذرا سا قیام گردش میں
مری طلب مری رفتار کے منافی ہے
میں خاص شخص ہوں رہتا ہوں عام گردش میں
پنپ رہا ہے کہیں دل میں شوقِ دید و شنید
دھڑک رہے ہیں زمانے مدام گردش میں
بدلتا رہتا ہے چلنے سے میکدے کا نظام
کہ چل چلاؤ سے رہتا ہے جام گردش میں
رکا ہوا ہوں میں اک گردشی جزیرے پر
گزر رہے ہیں مرے صبح و شام گردش میں
رکے ہوئے ہیں سبھی دوست کیوں فدا مرے
ملے گا ان کو یقیناً دوام گردش میں
(نوید فدا ستی۔ کہوٹہ)


غزل


پتھر کے لیے اور نہ شیشے کے لیے ہیں
ہم خاک کے ذرات ہیں کوزے کے لیے ہیں
منزل کے لیے ہوگا مِرا اور تعارف
چہرے کی یہ تحریریں تو رَستے کے لیے ہیں
ماں ہوں تبھی بیٹی کے لیے تنگ نظر ہوں
ہیں اور نظریات جو بیٹے کے لیے ہیں
چوپال میں غیرت کے قوانین جدا ہیں
بے باک خیالات تو حُجرے کے لیے ہیں
میں اپنے بھروسے پہ سڑک پار کروں گی
تم جیسے مددگار تو اندھے کے لیے ہیں
فوزی تِری آنکھیں جو سرائے کی طرح ہیں
یہ لوگ سمجھ لیتے ہیں رہنے کے لیے ہیں
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)


غزل


اک حرفِ اعتبار ہوں کچھ کیجیے مرا
میں مدعا گزار ہوں کچھ کیجیے مرا
اڑتی ہیں شہرِفکر میں لفظوں کی دھجیاں
دامانِ تار تار ہوں کچھ کیجیے مرا
آکر تمام کیجیے اس دل کے وسوسے
کس درجہ بے قرار ہوں کچھ کیجیے مرا
مجھ میں دھڑک رہی ہے کسی خواب کی نمو
اک فصلِ سازگار ہوں کچھ کیجیے مرا
جس کی ہر ایک اینٹ میں رہتی ہے خستگی
وہ سوختہ مزار ہوں کچھ کیجیے مرا
تھوڑا سا وقت دان مجھے کیجیے حضور
میں محوِانتظار ہوں کچھ کیجیے مرا
للہ.. میری خاک کو اب تو سمیٹیے
اُڑتا ہوا غبار ہوں کچھ کیجیے مرا
نس نس میں رینگتی ہیں طلب کی قیامتیں
بڑھتا ہوا فشار ہوں کچھ کیجیے مرا
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)


غزل


وہ اِک خوبرو سے جو پالا پڑا تھا
بہت خوب صورت، حسیں تھا‘ بَلا تھا
وہ جب مسکراتا تھا تب پھول کھلتے
بکھرتے تھے موتی وہ جب بولتا تھا
وہ سورج تھا اس کی تب و تاب دیکھی
نگاہوں میں شاید بڑا حوصلہ تھا
ملاقات پہلی تھی‘ اُلفت پرانی
وہ تھا اجنبی پھر بھی دل آشنا تھا
تصور میں تھا داد وہ ساتھ اپنے
حقیقت میں دیکھا تو وہ جا چکا تھا
(داد بلوچ۔فورٹ منرو)


غزل


دل وہ درویش ہے جب وجد میں ہُو بولے گا
آسماں ٹوٹ پڑے گا تو نمو بولے گا
پوچھنے حال مرا جب وہ کبھی آئیں گے
لب تو خاموش رہیں گے پہ رفو بولے گا
تیرے مجذوب کریں گے وہ دھمالِ الفت
ٹوٹ جائیں گے جو گھنگھرو تو لہو بولے گا
میں ہوں کس جرم کی پاداش میں اب شہربدر
آ ذرا دیکھ کہ خود میرا عدو بولے گا
ایک منصور کی آہٹ ہے جہاں میں پھر سے
اپنے ہی خون سے جو کر کے وضو بولے گا
اک صدا کُن کی جو گونجے گی جہاں میں حامیؔ
جام چھلکیں گے صراحی سے سُبو بولے گا
(محمد حمزہ حامیؔ، کراچی)


غزل


اب جو مجھ کو گلے لگائے گا
پھر وہ جا کے سکون پائے گا
غیر کے روبرو رہے گا تُو
یا مِرے آس پاس آئے گا؟
ہر کسی سے لگا رہا ہے دل
یار کس کس کا دل دکھائے گا
جس نے جھیلا نہیں عذابِ ہجر
وہ مجھے عشق کیا سکھائے گا
وقت آتا ہے ہر کسی کا دوست
یاد رکھ میرا دور آئے گا
(اسامہ زاہروی۔ڈسکہ)


غزل


جو کہہ رہے تھے بات وہ مانی نہیں گئی
عادت یہی تمہاری پرانی نہیں گئی
کہنے لگے ہیں اب تو عزادار مجھ کو لوگ
آنکھوں سے پر یہ اشک فشانی نہیں گئی
حتیٰ کہ دار پر بھی چڑھایا گیا اسے
اُس کی مگر وہ صدق بیانی نہیں گئی
لوری کے ساتھ نانی سناتی تھی جو ہمیں
ذہنوں سے آج تک وہ کہانی نہیں گئی
الزام دھر رہے ہو یونہی بے وجہ سحر
اُس تک یہ بات میری زبانی نہیں گئی
(اسد رضا سحر، احمد پور سیال)


غزل


وہ روح سے جگر کی تکرار بیچتا ہے
مجبور دھڑکنوں کی مقدار بیچتا ہے
سر کی سلامتی سے مشروط ہے جلالی
سو، شاہ تمکنت سے دستار بیچتا ہے
جب سے زباں درازی کا مول گر گیا ہے
ہر شخص خامشی سے گفتار بیچتا ہے
مجبوریاں سجائے بیٹھے ہیں ناتواں یہ
ہر شے خرید جو بھی لاچار بیچتا ہے
جس شہر میں ادب کو ترویج مل رہی ہو
اُس شہر کا سخن ور اشعار بیچتا ہے
ساگرؔ کسی کے ڈر سے خود کو چھپا رہا ہے
سرداب کے عوض جو مینار بیچتا ہے
(ساگرحضورپوری۔ سرگودھا)


غزل


سیاہ زلف کا گھیرا کبھی نہیں ہوگا
یہ وسوسہ ہے وہ میرا کبھی نہیں ہوگا
نئے دنوں کا یہ سورج اگر اُبھر نہ سکا
تَو زندگی میں سویرا کبھی نہیں ہوگا
محبتوں کے دلوں میں دیے جلانے سے
یہ نفرتوں کا بسیرا کبھی نہیں ہوگا
فقیر دیکھ کے ہاتھوں کو مجھ سے کہنے لگا
تُو جس کو چاہے گا تیرا کبھی نہیں ہوگا
کبھی تو وقت بھی بازی ضرور پلٹے گا
ہمیشہ ظلم کا ڈیرا کبھی نہیں ہوگا
تم آ گئے ہو تو دیکھو ہماری بستی میں
یہ ظلمتوں کا اندھیرا کبھی نہیں ہوگا
(سیف الرحمن،کوٹ مومن، سرگودھا)


غزل


حیف روزِقیامت بھول جاتے ہیں
لوگ کر کے محبت بھول جاتے ہیں
دُشمنوں کے ذرا سا مسکرانے پر
عمر بھر کی عداوت بھول جاتے ہیں
جب نہ آئیں شکایت ہی شکایت ہے
جب وہ آئیں شکایت بھول جاتے ہیں
توبہ توبہ مری توبہ مری توبہ
اہلِ نعمت بھی نعمت بھول جاتے ہیں
فن مرا بک نہیں سکتا کسی صورت
سَر پھرے یہ حقیقت بھول جاتے ہیں
یاد آئے خدا مشکل گھڑی میں جب
سَر پہ آئی مصیبت بھول جاتے ہیں
تُھڑ دلوں سے کہاں نسبت ہے ساگرؔ کو
جام پی کر شرافت بھول جاتے ہیں
(صدام ساگر۔گوجرانوالہ)


غزل


میری آنکھوں میں خواب رہنے دے
حُسن زیرِعتاب رہنے دے
پہلے میرا سوال تو سُن لے
اُلٹے سیدھے جواب رہنے دے
جامِ وحدت سے مجھ کو بے خود کر
ورنہ ساقی شراب رہنے دے
اپنی رحمت سے بخش دے مجھ کو
یہ حساب و کتاب رہنے دے
شعر کہہ اُن کے حُسن پر اخترؔ
عالمانہ خطاب رہنے دے
(محمد اختر سعید۔جھنگ)


غزل


اپنی انا کی جھوٹی بلندی کو پھونک دے
ایسا نہ ہو کہ وہ تری پگڑی کو پھونک دے
آتش ہے جو درونِ دلِ ہجر سوختہ
اس کی تپش نہ خرمنِ ہستی کو پھونک دے
نورِوفا کی ایک تجلی مدام مانگ
شعلۂِ حق سے عشقِ مجازی کو پھونک دے
نفرت کا اک الاؤ جو گھر گھر ہے جل رہا
ممکن ہے ایک روز وہ بستی کو پھونک دے
اس طور سے چلائے کوئی تیغِ آگہی
نشّہ فرو کرے مرا، مستی کو پھونک دے
ہو جاؤں گا مرید غمِ دہر میں ترا
یادِصنم بھلا، مرے ماضی کو پھونک دے
اے جلوۂِ حبیب کی پاکیزہ روشنی
قلبِ قمر کی گھور سیاہی کو پھونک دے
(قمرآسی، کراچی)


غزل


چُھپا کے بوتل کفن میں لے چل‘ وہیں غٹا غت پیا کریں گے
ہمیں نہ جینے دیا جہاں میں لحد میں شاید جیا کریں گے
سبق سکھایا ہے اس طرح سے تمہاری دنیا نے آج ہم کو
ستم کے بدلے ستم ملے گا‘ وفا کرو تو وفا کریں گے
میں خود میں لشکر ہوں ایک کامل‘ صبر کا تم امتحان مت لو
گریبان چاک جتنا کرو گے اتنا سِیا کریں گے
یہ راہِ اُلفت ہے جس میں ہم کو ہمیشہ پاؤ گے یوں بکھر کے
تماچا اِک گال پہ لگے گا تو دوسرا بھی دیا کریں گے
یہی ہے دستور مرتضیٰ کا‘ ہر اِک قدم پر تیرا ہی بن کر
جلے نہ چہرہ حسین تیرا‘ بدن سے سایہ کیا کریں گے
(مرتضیٰ آخوندی۔ اسکردو، بلتستان)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔