ٹھہریے! عجلت نہیں

مقتدا منصور  اتوار 13 اکتوبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

نادرا نے کراچی قومی اسمبلی کے حلقے NA 256 اور NA 258 میں بالترتیب 57 ہزار اور23 ہزار کے قریب ووٹوں کو ناقابل تصدیق قرار دیدیا۔ بدھ کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے نادرا کے ایک ذمے دار نے دعویٰ کیا کہ ملک کے بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر مخصوص مقناطیسی سیاسی استعمال نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے انگوٹھے کے نشان کی صحیح نشاندہی نہیں ہو سکی۔ الیکشن کمیشن نے بھی اس الزام کو کسی حد تک تسلیم کر لیا ہے۔ یہ خالصتاً ٹیکنیکل مسئلہ ہے، جس میں پائے جانے والے نقائص کی ذمے داری الیکشن کمیشن سمیت متعلقہ محکموں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ طے ہو جانے کے باوجود بیلٹ پیپر کے لیے مخصوص کاغذ کیوں استعمال نہیں کیا گیا اور ہر پولنگ اسٹیشن پر انمٹ سیاہی کے پیڈ مناسب تعداد میں کیوں مہیا نہیں کیے گئے۔ اس سلسلے میں تفتیش کرنے سے مزید حقائق سامنے آنے کی توقع ہے۔ اب ایم کیو ایم نے نادرا سے ووٹوں کی تصدیق کے عمل کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔

مگر بعض چینلوں نے اپنی روایتی عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس انداز میں ناقابل تصدیق ووٹوں کو جعلی قرار دیا، اس نے ایک خالص ٹیکنیکل معاملے کو حساس سیاسی مسئلہ بنا دیا۔ ایک عام شہری بھی اس بات سے واقف ہے کہ جعلی اور ناقابل تصدیق میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود کئی چینل رات گئے، بلکہ اگلے روز تک جعلی ووٹ کی گردان کرتے رہے اور ان پر بیٹھے وہ تجزیہ نگار جو ایک مخصوص سیاسی جماعت کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات رکھتے ہیں، اس لیے اس پر ملاحیاں بھیجتے ہوئے دل کا سارا غبار NA 256 پر اتارتے رہے۔ جب کہ NA 258 پر ہاتھ ہلکا رکھا گیا، کیونکہ اس حلقے سے حکمران جماعت کا رکن منتخب ہوا تھا۔ حالانکہ چوہدری شجاعت حسین نے پورے ملک میں ڈالے گئے ووٹوں کی اس طرح تصدیق کرائی جانے پر 90 فیصد ووٹوں کے غیر تصدیق شدہ ہونے کا دعویٰ بھی کر دیا تھا۔ یہ بالکل وہی معاملہ ہے جیسے کسی ٹیلی ویژن مذاکرے کے دوران اگر کوئی مہمان جنرل ضیاء کو تنقید کا نشانہ بنائے، تو اینکر فوراً پرانا قصہ کہہ کر اس کی بات کاٹ دیتا ہے، مگر خود اپنے ترکش کے تمام تیر پرویز مشرف کے سینے میں اتار دینے پر قطعی شرمندہ نہیں ہوتا۔ذرایع ابلاغ بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کی یہ روش صحافتی ضابطہ اخلاق کے اصولوں کی نفی کرتی ہے۔

میں 1970ء سے انتخابی عمل کا مختلف حیثیتوں میں بہت زیادہ قریبی شاہد رہا ہوں۔ 1970ء کے انتخابات کے وقت طلبہ تحریک کا سرگرم کا رکن تھا اور لاہور اور کراچی میں بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا مشاہدہ کیا۔ 1977ء سے 1990ء تک بحیثیت پریزائڈنگ افسر انتخابی عمل اور الیکشن کمیشن کے طریقہ کار کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔1993ء سے تادم تحریر ایک صحافی اور تجزیہ نگار کے طور پر ملک کے مختلف حصوں کے علاوہ فلپائن اور بنگلہ دیش سمیت کئی ایشیائی ممالک میں ہونے والے انتخابات کا جائزہ لیا اور ان پر رپورٹس تیار کیں۔ اس کے علاوہ پورے ملک کے صحافیوں کے ساتھ انتخابی عمل پر درجنوں انٹر ایکٹو سیشن کیے۔ پریس فائونڈیشن کی طرف سے صحافیوں کی آگہی کے لیے انتخابی عمل پر نصف درجن کے قریب کتابچے تحریر کیے۔ فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک (FAFEN) کے قیام کے ابتدائی مراحل میں PPF کی طرف سے شریک کار رہا۔ لہٰذا انتخابی عمل پر میرا خاصا مشاہدہ و مطالعہ ہے۔

پاکستان میں انتخابات میں دھاندلیوں کی طویل تاریخ ہے۔ یہ کئی اقسام کی ہوتی ہیں۔ جن کا آغاز انتخابی فہرستوں کی تیاری سے شروع ہو جاتا ہے اور یہ سلسلہ انتخابات کے بعد تک جاری رہتا ہے۔ انتخابی دھاندلیاں عموماً تین طرح کی ہوتی ہیں۔ اول، قبل از انتخابات دھاندلیاں۔ دوئم،پولنگ کے روز ہونے والی دھاندلیاں۔ سوئم، بعد از انتخابات دھاندلیاں۔ قبل از انتخابات دھاندلیوں کا سلسلہ حلقہ بندیوں سے شروع ہوتا ہے اور انتخابی فہرستوں تک تیاری سے ہوتا ہوا پولنگ اسٹیشنوں کے تعین تک جاری رہتا ہے۔ حلقہ بندیاں مردم شماری سے مشروط ہوتی ہیں، مگر اکثر و بیشتر حکومتیں مردم شماری سے قبل ہی حلقہ بندیوں میں رد و بدل کر دیتی ہیں۔

اس کے بعد دوسرا مرحلہ انتخابی فہرستوں کی تصحیح اور ان میں اضافہ و تخفیف کا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں کی جانے والی دھاندلیوں میں فہرستوں میں غلط ناموں اور پتہ کا اندراج، مرحومین اور حلقے سے نقل مکانی کر کے کسی دوسرے حلقے میں چلے جانے والے ووٹروں کے ناموں کے اخراج کے بجائے انھیں برقرار رکھنا۔ حلقے کے بیشتر اصل رہائشیوں کے بجائے جعلی ناموں کا اندراج شامل ہے۔ اس کے علاوہ پولنگ اسٹیشنوں کا دُور دراز علاقے میں قیام، عملے کی تقرری میں جانبداری وغیرہ بھی قبل از انتخابات دھاندیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ طے ہے کہ قبل از انتخابات دھاندلیاں حکومت اور نوکر شاہی کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہوتیں۔ بلکہ عام طور پر یہ دھاندلیاں اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر ہی ہوتی ہیں۔ مگر گزشتہ انتخابات میں بعض غیر ریاستی عناصر کی جانب سے تین سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم سے دور رکھنے کے لیے امیدواروں کے قتل اور بم دھماکوں کی شکل میں ایک نیا مظہر سامنے آیا ہے۔

انتخابات کے روز ہونے والی دھاندلیاں عموماً امیدوار کرتے ہیں، جس میں انھیں پولیس سمیت انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ ان دھاندلیوں میں مخالف امیدوار کے کے ووٹروں اور پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے سے جبراً روکنا۔ انتخابی عملہ کو یرغمال بنا کر جعلی ووٹ بھگتانا وغیرہ شامل ہیں۔ اس قسم کی دھاندلیوں میں سیاسی جماعتوں کے اجتماعی طور پر شریک ہونے سے زیادہ امیدوار انفرادی طور پر ملوث پائے جاتے ہیں۔ یہ دھاندلیاں چونکہ میڈیا کے ذریعے فوری منظر عام پر آ جاتی ہیں، اس لیے ان پر انتظامیہ کو فعال کر کے قابو پانا قدرے آسان ہوتا ہے۔

تیسری قسم کی دھاندلیاں الیکشن کمیشن اور حکومت کے اشتراک کے بغیر ممکن نہیں ہوتیں۔ ان میں انتخابی نتائج کا تبدیل کیا جانا اور انتخابی عذرداریوں کیلے قائم ٹریبونل کی کارروائی میں تاخیری حربوں کا استعمال ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ امیدواروں کی طرف سے کی جانیوالی دھاندلیوں سے نتائج بہت کم تبدیل ہوتے ہیں، صرف ووٹوں کی تعداد کے فرق میں اضافہ ممکن ہوتا ہے۔ نتائج کی تبدیلی میں انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کی شرکت بہت ضروری ہوتی ہے۔ پاکستان میں اب تک جو بڑے پیمانے کی دھاندلیاں کی گئیں، ان میں ریاستی ادارے ملوث پائے گئے۔ جیسا کہ1990ء کے عام انتخابات کے بارے میں بی بی مرحومہ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان میں تینوں قسم کی دھاندلیاں سیاسی کلچر کا حصہ بن چکی ہیں، جس سے چھٹکارا ضروری ہے، مگر انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے امیدواروں کی سطح پر ہونے والی دھاندلیوں کو ختم کرنے سے پہلے قبل از انتخابات اور بعد از انتخابات دھاندلیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔

پاکستان میں انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے گزشتہ دو دہائیوں سے سول سوسائٹی خاصی فعال ہے۔ خاص طور پر دو تنظیمیں PILDAT اور FAFEN اس سلسلے میں خاصی محنت کر رہی ہیں۔ ان دونوں تنظیموں نے انتخابی عمل میں پائے جانے والے اسقام، کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کے علاوہ اس عمل کو بہتر بنانے کے لیے کئی صائب تجاویز بھی دی ہیں اور مسلسل متحرک ہیں۔ سول سوسائٹی کے اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ پارلیمان نے بھی گزشتہ برسوں کے دوران انتخابات کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے۔ جن میں چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے طریقہ کار کا تعین بھی شامل ہے۔ لیکن ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ انتخابی عمل میں خامیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کی گنجائش کم سے کم رہ جائے اور کسی بھی حلقے کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔

اس سلسلے میں ہمیں پڑوسی ملک بھارت کی نظیر کو سامنے رکھنا ہو گا، جہاں انتخابات کی شفافیت پر کبھی کوئی انگلی نہیں اٹھتی۔ بھارت میں ریٹائرڈ جج کے بجائے اچھی شہرت کے حامل سول سرونٹ کو جسے انتظامی امور کا وسیع تجربہ ہو، چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے تمام مراحل خالصتاً ایک انتظامی معاملہ ہوتے ہیں، جس کی انتظامی امور کا تجربہ رکھنے والا ایک منتظم ہی بہتر انداز میں نگرانی کر سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی طرح چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب سول انتظامیہ سے کیا جائے۔ ساتھ ہی کمیشن کے دیگر اراکین کے تقرر میں بھی اسی اصول کو مدنظر رکھا جائے۔ اس کے علاوہ ان کے انتخاب کا اختیار صوبوں کو دینے کے بجائے خود وفاقی پارلیمان یہ ذمے داری ادا کرے تو زیادہ بہتر نتائج آ سکتے ہیں۔ اس لیے ذرا ٹھہریے، عجلت کا مظاہرہ مت کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔