حج، عالمی اسلامی اخوت، وحدت اور نظریاتی ہم آہنگی کا مظہر

مفتی منیب الرحمن  پير 14 اکتوبر 2013
خوف خدا سے عاری زندگی انسانیت کے لیے با عث آزار بن گئی ہے۔ فوٹو: فائل

خوف خدا سے عاری زندگی انسانیت کے لیے با عث آزار بن گئی ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام کی کامل روح تو یہ ہے کہ بندۂ مومن کی زندگی مجسم عبادت بن جائے، اس کی چال ڈھال، رفتار و گفتار، نشست و برخاست، انفرادی و اجتماعی معاملات، حتیٰ کہ ہر شعبۂ زندگی اور ہر لمحۂ حیات میں اﷲ تعالیٰ کی مکمل بندگی اور اس کے رسول ﷺ کی کامل اطاعت کی جھلک نظر آئے۔

ہم نے اپنی زندگی کو دین اور دنیا کے نام سے جن دو خانوں میں تقسیم کردیا ہے، اس کا خاتمہ ہوجائے۔ اگر ہر مسلمان اپنی زندگی کو اﷲ اور اس کے رسولؐ ﷺکی رضا اور اطاعت کے قالب میں ڈھال لے اور اس کا وجود اﷲ کے بندوں کے لیے وسیلۂ رحمت بن جائے تو اس کی معیشت، تجارت اور سیاست، سب عبادت بن جائے گی اور خوف خدا اور اخلاقی گرفت سے عاری زندگی جو انسانیت کے لیے باعث آزار بن گئی ہے، اس سے نجا ت مل جائے گی۔ لیکن اس عمومی اور جا مع و کامل تصور عبادت کے ساتھ اسلام نے رسمی عبادات کا ایک حکیمانہ اور مربوط نظام بھی عطا کیا جن کا حقیقی مقصد مومن کے قلب میں اس جامع  تصور عبادت کو ابھارنا ہے۔ یہ عبادات تین اقسام پر مشتمل ہیں۔

(1) خالص بد نی عبادات: جیسے نماز اور روزہ، یہ بہرصورت ہر بندے کو خود ادا کرنی ہوتی ہیں اور ان میں نیابت کا کوئی تصور نہیں۔

(2) خالص ما لی عبادت: جیسے زکوٰۃ اور فطرہ وغیرہ، ان میں نیابت چل جاتی ہے، یعنی کوئی فرد دوسرے کا وکیل یا  نمائندہ بن کی بھی ادا کرسکتا ہے۔

(3) مخلوط عبادات: یعنی جو بدنی بھی ہوں اور مالی بھی، اس میں بھی اصل رو ح تو یہی ہے کہ بندہ خود ادا کر ے، لیکن اگر  مجبوری کے باعث خود ادا نہ کرسکتا ہو تو اس کی نیابت میں اس کے مصارف پر دوسرا قابل اعتماد آدمی بھی کرسکتا ہے، اسے ’’حج بدل‘‘ کہتے ہیں۔

حج کے معنیٰ و مفہوم

لغت میں حج کے معنیٰ ہیں، کسی قابل تعظیم چیز کا قصد کرنا  اور اصطلاح شریعت میں عبادت کی غرض سے بیت اﷲ کے قصد کو حج کہتے ہیں۔  اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’بیت اﷲ کا حج کرنا لوگوں پر اﷲ کا حق ہے، جو بھی وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص سفر خر چ اور سواری پر قادر ہو، جس کے ذریعے وہ بیت اﷲ تک پہنچ سکے اور اس کے باوجود وہ حج نہ کر ے تو عملاً اس سے کو ئی فر ق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔‘‘

حج ایک کیفیت جذب و جنوں

یہ سوال ہر ذہن میں اٹھ سکتا ہے کہ طویل اور تکلیف دہ سفر کرکے مسلمانوں کو ایک مقام پر جمع کرنے میں آ خر کیا راز پنہاں ہے؟ سب لوگوں کو ان کا روایتی لباس اتروا کر دو چا دریں پہنا دینے میں کیا مصلحت ہے؟ آخر اس میں کیا حکمت ہے کہ لاکھو ں انسان دیوانہ وار پتھر کی ایک عمارت کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں؟ دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑ رہے ہیں؟ ایک خاص دن اور تا ریخ کو ایک خاص مقام پر پو را شہر آباد ہوتا ہے اور شام کو اجڑ جاتا ہے۔ لاکھوں لو گ پتھروں کی علامتی دیوار پر کنکریاں برسا رہے ہیں، ایک خاص مقام پر ایک ہی دن لا کھوں لوگ جمع ہو کر لاکھو ں جانوروں کی قر با نی پیش کر تے ہیں،آخر کیوں؟

یہ سارے انداز یہ بتا تے ہیں کہ حج معمول کے شب و روز کا نام نہیں، بلکہ معمول کی زندگی کو تر ک کر کے مجاہدانہ انداز سے کیمپ لائف گزارنے کا نام ہے، ایک محدود عرصے کے لیے لباس، رنگ، علاقائیت، زبان اور نسب و نسل کے تمام امتیازات کو کلی طور پر ترک کردینے کا نام ہے، یہ سب کچھ دراصل امام الانبیاء حضرت ابراہیمؑ، ان کے صاحب زادے حضرت اسمٰعیلؑ اور ان کی اہلیہ حضرت ہاجرہ کی اداؤں کو اپنانے کا نام ہے۔ عالمی اسلامی اخوت، وحدت و اتحاد اور نظریاتی ہم آہنگی کے بھرپور مظاہر ے کا نام ہے ، اور اس عز م کے عملی اظہار کا نام ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کے دین کا تقاضا ہوا تو ہم حضرت ابراہیمؑ کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے اپنا سب کچھ اﷲ کی را ہ میں لٹانے کا عزم رکھتے ہیں اور حج اسی عزم مصمم کے اظہار کا نام ہے۔  اگر یہ ’’روح حج‘‘ ہما رے قلب وقالب میں صحیح معنیٰ میں اتر گئی تو ہم نے مقصد حیات پالیا، ورنہ محض مشقت سفر کے سوا اور حکم الٰہی کی ظاہری تعمیل کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہ آیا۔

کعبہ معبود نہیں، جہت عبادت ہے

جب ہم عین بیت اﷲ کی چوکھٹ کے سامنے سجدہ کررہے ہوں تب بھی بیت اﷲ ہمارا مسجود و معبود نہیں ہوتا، مسجود و معبود تو صرف اﷲ کی ذات ہوتی ہے ، بیت اﷲ تو صرف ’جہتِ سجدہ ‘ ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے غالباً اس میں حکمت یہ مستور رکھی ہے کہ کعبے کو اپنے انوار و تجلیات کا مرکز بناکر ہمیں اس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے اور اس کے گرد طواف کرنے کا حکم دیا، تاکہ ہم پر کعبے کی برکات کے طفیل اس کی رحمتوں، برکتوں اور انوار و تجلیات کا نزول ہو۔ دوسر ی حکمت یہ ہے کہ ہماری عبا دت کے لیے مرکزیت، ایک نقطۂ ارتکاز تو جہ ہو، تاکہ ہم مختلف سمتوں کی جا نب بھٹکنے سے محفوظ رہیں۔ اطراف عالم کے مسلمانوں میں ایک مثالی وحدت اور یک رنگی پیدا ہوجائے۔ حضور نبی پاکﷺ نے اسی قبلے کو مومن کی شناخت اور پہچان کا وسیلہ قرار دیتے ہو ئے ارشاد فرمایا:’’جس نے ہماری طرح نماز پڑھی، ہمارے قبلے کی جانب عبا دت میں رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ ظاہری علامات کے اعتبار سے مسلم ہے۔‘‘

حج: زندگی میں تبدیلی کا فیصلہ کن موڑ

اسلام چا ہتا ہے کہ حج مومن کی زندگی میں تبدیلی لا ئے، بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ بن جائے،گناہوں کو ترک کرکے پاکیزہ زندگی گزارنے کا نقطۂ آغاز ہو۔ بند ہ اپنے رب سے شعوری طور پر ایک عہدوپیمان اور تجدید وفا کا عزم کرکے، صرف سلا ہوا لباس ہی نہ اتارے، بلکہ گناہ کا وہ لباس بھی اتار پھینکے جس میں وہ سر تا پا جکڑا ہوا ہے۔ صر ف دو سفید چادروں پر مشتمل اجلا لباس ہی نہ پہنے، بلکہ ایمان و ایقان اور کردار کو بھی اتنا ہی صاف اور پاکیزہ بنا دے۔ اپنے آپ کو، اپنی رو ح اور جسم کو بھی اسی فطرت سلیم کے سا نچے میں ڈھا ل لے جس پر خالق نے اسے پہلے روز تخلیق فر مایا تھا۔

رسول کریم ؐ کا فرمان ہے:’’ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہو تا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘

یعنی حج کا لباس بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان اپنے آ پ کو گناہوں کی ان آلودگیوں سے دور کرکے جو معاشرے نے اس پر تھوپ دی ہیں، فطرت سے قریب تر، بلکہ اس کے عین مطابق ہوجائے۔

رسول عربیؐ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے خالص اﷲ کی رضا کے لیے حج کیا اور اس  دوران نہ تو شہوت رانی کی اور نہ ہی گنا ہ کیا تو وہ گنا ہوں سے ایسا پاک وصاف ہوکر لوٹے گا جیسے اپنی پیدایش کے دن گناہوں سے پا ک تھا۔‘‘

ایسے ہی کامل و مکمل حج کو تاج دار انبیاء ؐ نے ’حج مبرور‘ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔‘‘

اگر ہم نے حج سے یہ مقصد حاصل نہ کیا تو گویا ہم نے حج کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں، ایسی بے رخ عبادات صرف صورتاً عبادات ہوتی ہیں، حقیقتاً نہیں۔

حج: مشقت کی عبادت ہے

حج بنیا دی طور پر مشقت کی عبا دت ہے۔ اس کی یہ کیفیت آج سے ہزار سال پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔ ما ضی میں سفر کی صعوبتیں، زاد راہ کی دشواریاں، موسم کی ناگواریاں،  نکیلے پتھروں اور کانٹوں پر چلنا، پانی کی عدم دست یابی، وسائل کی کمی وغیرہ تھی، جب کہ آ ج مادی لحاظ سے زیادہ راحتیں، بلکہ تعیشات موجود ہیں، لیکن مشقت کی روح آج بھی موجود ہے۔ اس مشقت کا سب سے بڑا سبب انسانوں کا ہجوم، ان کی آسائشوں اور تعیشات کا دل دادہ ہونا، محنت ومشقت کا عادی نہ ہونا، جذبۂ ایثار و قربانی کا فقدان، صرف اپنی ذات اور اپنے مفادات کا اسیر ہونا وغیرہ ہیں۔ چناں چہ آ ج طواف، سعی اور رمی جمرات اور منیٰ میں حادثات پہلے سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ حاجی جب حج سے واپس آتا ہے تو اس کی زبان پر شکایات ہوتی ہیں۔

یہ طرز فکر وعمل اس لیے ہے کہ ہم ذہنی طور پر اس عمل کے لیے تیار ہو کر نہیں جاتے کہ ہم ایک سپاہی کی طر ح ’کیمپ لائف‘ میں جارہے ہیں اور ہمیں ایک بڑ ی مشقت کے عمل سے گزر نا ہے۔ راحت و آرام اور تعیش ہمارا مقصود و مطلوب نہیں ہے۔ اگر ہم ایسی سو چ لے کر جائیں تو پھر ہر بڑی تکلیف ہمیں چھوٹی نظر آئے اور ہمیں یہ احساس ہو کہ حج کے لیے اتنا بڑا اجر اسی تکلیف و مشقت کا انعام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔