’’ہم ایسے ادیب ہیں کہ نمک حرامی سے باز نہیں آتے‘‘

اسد محمد خان نے علامتی کہانی کے انداز میں تقریر کی،ا ردو اپنے ہی گھر میں جلاوطن۔ فوٹو: فائل

اسد محمد خان نے علامتی کہانی کے انداز میں تقریر کی،ا ردو اپنے ہی گھر میں جلاوطن۔ فوٹو: فائل

لاہور: عالمی اردو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی ادیبہ ڈاکٹر لڈمیلا وسیلیوا نے کہا کہ میرا اور اردو کا رشتہ عاشق اور معشوق کا رشتہ ہے۔

میں اردو کی عاشق ہوں اور جذبہ دل مجھے یہاں لایا ہے۔ یہ صدارت جو مجھ کو سونپی گئی ہے میں اس کے لیے خود کواہل نہیں سمجھتی کہ میں غریب شہر بھی ہوں اور ماہر لسانیات بھی نہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی صدارتی تقریر کے آغاز میں کہاکہ پروفیسر ایک گھنٹے تک تو سوچے سمجھے بغیر بھی بول سکتے ہیں اور پھر اس کے بعد پوچھتے ہیں کہ آج کا موضوع کیا ہے۔ ضیا دور میں ہونے والی ادیبوں کی کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا انھوں نے ادیبوں سے کہا تھا کہ ادیبوں کو نمک حرام نہیں ہونا چاہیے لیکن ہم ایسے ادیب ہیں کہ نمک حرامی سے بعض نہیں آتے۔ اسد محمد خان نے اپنی تقریر بھی علامتی کہانی کے انداز میں پیش کی۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ دانشور سلیم راز نے پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے اور یہاں سوشلسٹ معیشت کا نظام نافذ کرنے کی تجویز دی۔

انھوں نے کہا برصغیر کی غیر فطری تقسیم نے دنیا کے نقشہ پر عجیب الخلقت بچے کو جنم دیا۔ معروف کالم نگار زاہدہ حنا نے کہا کہ میں شاعرہ نہیں ہوں مگر ہر محفل میں مجھے شاعرہ کہہ کر متعارف کروایا جاتا ہے، انھوں نے کہا کہ تتلیوں کی تلاش میں جنگل میں شیر تو ملے مگر شعر نہیں مل سکے۔ مسعود اشعر نے کہا کہ 17/18 ویں صدی میں شہر آشوب ہوتے تھے، میر تقی میر سے آگے سب ادیب، شاعر روتے رہے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ اس عمر کے حصہ میں ہوں جہاں اکثر اعضاء آرائشی ہوجاتے ہیں جس سے ہال قہقہوں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ ایک مقرر نے بھارت میں اردوکی اہمیت بتائے ہوئے کہاکہ ایک اردو شاعر نے مجھے پوچھنے پر بتایاکہ یہ تو نہیں پتہ کتنا کما لیتا ہوں لیکن یہ پتہ ہے کہ تین ماہ بعدگھرکا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ بھارت میں اردو لسانی سیاست کا شکار ہوئی ہے اسی لیے کہتے ہیں کہ اردو اپنے ہی گھر میں جلاوطن ہوگئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔