کرد دہشت گرد نہیں

جمیل مرغز  پير 28 اکتوبر 2019

اخباری اطلاعات کے مطابق ’ترکی اور روسی حکومت کے درمیان معاہدہ ہوگیا ہے جس کے مطابق ’شام کے کرد اور ان کی پارٹی YPG کی ملیشیا کو ترکی کی سرحد سے 30 کلومیٹر دور منتقل کر دیا جائے گا‘ اس کے بعد ان دونوں ملکوں کی فوج مشترکہ طور پر کردوں اور ترکی کی سرحد کے درمیان اس تنگ پٹی میں گشت کریں گی‘ تاکہ کردوں کو ترک سرحد سے دور رکھا جاسکے۔

معاہدے کے مطابق روسی ملٹری پولیس اور شام کی سرحدی گارڈ ایک ہفتے کے اندر YPG کے سپاہیوں اور ان کے اسلحے کو اس زون سے باہر لے جائیں گے ‘شامی کردوں کو ترکی کے حملوں سے بچانے کے لیے روسی صدر کی اس مداخلت اور اقدام کی تعریف ہونی چاہیے‘اس معاہدے کے تحت کردوں کی پارٹی YPG کو تل رفعت اور مانبیج کے شہر بھی خالی کرنے ہوں گے۔ شامی کردوں اور ان کی پارٹی YPGسے ایک غلطی ہوگئی۔

جب مشرق وسطیٰ کے واحد ترقی پسند ‘ سامراج اور اسرائیل دشمن صدر بشارالاسدکے خلاف سامراجی سازشیں شروع ہوئیں تو اس وقت کرد بھی (SDF)یعنی سیرین ڈیموکریٹک فورسز میں امریکا کی اتحادی بن گئے اور ان کے ساتھ مل کر شامی فوج کے خلاف لڑتے رہے ‘جب داعش نے بھی شام میں قدم جما لیے توامریکی فوج اور کردوں نے ان کے خلاف بھی محاذ کھول دیا ‘داعش کے خلاف کردوں کی رضاکار تنظیم ’’پیش مرگہ‘‘ نے بڑی بہادری کے ساتھ مزاحمت کی ‘ کردوں کی جدوجہد سے داعش کو شکست ہوئی۔

اس وقت روسی اور ایرانی امداد کی وجہ سے شام کی حکومت کے خلاف امریکی حمایت یافتہ تنظیموں اور ڈیموکریٹک فرنٹ کو بھی شکست ہوگئی اور امریکا اور سعودی عرب کو بھی یقین ہو گیا کہ اب اسد حکومت کا ملک کی اکثر علاقوں پر دوبارہ قبضہ مستحکم ہوگیا اب امریکا نے بوریا بستر سنبھالا اور شام سے نکل جانے کا اعلان کردیا ۔

ترکوں نے جب دیکھا کہ امریکا درمیان میں سے نکل گیا تو وہ کردوں پر چڑھ دوڑا ۔ ترکی میں کرد کافی عرصے سے ایک الگ ریاست کے لیے کردستان ورکرز پارٹی (PKK)کے تحت جدوجہد کر رہے ہیں‘ ترکی کا کہنا ہے کہ شامی کرد پارٹی  YPGکا تعلق ترک کردوں کی پارٹی PKKسے ہے‘ اس لیے ان دونوں ملکوںکے کرد باشندوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنا لازمی ہے‘ ترک فوج نے شامی کردوں کو کافی نقصان پہنچایا۔

روس نے ترکی کے صدر کو بلایا اور جنگ بندی کا یہ معاہدہ طے پایا ‘ ترکی صدر طیب اردوان ایک طرف مسلمانوں کی رہنمائی کا دعویٰ کرتے ہیں‘ اسرائیل کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھتے ہیں اور دوسری طرف ناٹو جیسی تنظیم کے ممبر بھی ہیں۔بہرحال قصہ درد کردوں کا ہے‘ ان کو اپنے ملک کے خلاف غیروں سے اتحاد کی سزا مل رہی ہے ‘ اب پھر وہی شام کے صدر اسد ہیں جن کے خلاف یہ لڑ رہے تھے جو ان کی مدد کو آئے اور اعلان کیا کہ شامی فوج کردوں کا ساتھ دے گی۔

ترکی کا کہنا ہے کہ شام اور ترکی کے سرحد پر شام کے علاقے میں ایک بفر زون قائم کیا جائے جو کردوں کو ترکی کی سرحد سے دور رکھ سکے اور اس زون میں شامی مہاجرین کو بسایا جائے۔ امریکی اتحادی کی حیثیت سے کردوں نے شامی فوج اور داعش کے خلاف جنگ میں 11ہزار افراد کی قربانی دی‘ اب امریکا نے کردوں کو ترکوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور خود اپنی فوج شامی علاقے سے نکال دی۔

اب کرد اس بات پر مجبور ہوگئے کہ اسد حکومت کے ساتھ صلح کر لیں اور شامی فوج کو اپنے علاقے میں آنے دیں‘ حالانکہ ان کے ساتھ امریکا نے جنگ کے بعد ایک آزاد کرد ریاست کے قیام کا وعدہ کیا تھا‘ کردوں کے ساتھ ہر مرتبہ اسی طرح دھوکا ہوجاتا ہے اور یہ عظیم قوم آج بھی بے گھر اور در بدر ہے۔

جیسا کہ سابقہ کالم میں ذکر ہوچکا ہے کہ کرد مشرق وسطیٰ میں ایک آباد مظلوم ترین نسلی گروہ یا قوم ہے جو اپنی شناخت اور الگ ریاست کے لیے تڑپ رہی ہے‘یہ قوم سامراجی طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے ایران‘ عراق‘ شام اور ترکی کی ریاستوں میں تقسیم کردی ہے۔سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد 1920ء کے سیورے معاہدے کے مطابق ‘شام‘عراق اور کویت کی آزاد ریاستیں وجود میں آئیں۔

اس معاہدے میں کردوں کے ساتھ بھی آزاد مملکت کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اتاترک کے برسراقتدار آنے کے بعد ترکی نے اور اس کے ساتھ ساتھ ایران اور عراق نے بھی کردوں کی آزاد ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا‘ یوں کردوں کی آزاد ریاست کا خواب شرمندہ نہ ہو سکا۔

کردوں کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی آزادی کی جدوجہد صرف ایک ملک کے خلاف نہیں بلکہ چار ممالک کے خلاف ہے‘ ان کی اکثریت ترکی میں رہتی ہے‘ اس لیے ترک ان کی ہر قسم کی جدوجہد کو ختم کرنا چاہتا ہے‘  حالانکہ کرد سپہ سالار اور صلیبی جنگوں کے ہیرو صلاح الدین ایوبی پر سب مسلمان فخر کرتے ہیں‘ ان کو کرد کے بجائے ’’پہاڑی ترک‘‘ کہا جاتا ہے۔

ایک ترک کرد جس کا نام یاسر ہے‘ کے مطابق اس نے اپنی تمام تعلیمی زندگی میں کسی ایک کتاب میں کرد یا کردش کا لفظ نہیں دیکھا، ایک کہانی اتلان کی ہے جو ایک ترکش کرد ہے‘ اس نے بیس سال تک اپنی شناخت چھپائی‘ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کردے گا۔

جب اس نے اپنے دوستوں سے کہا کہ حقیقت میں وہ ایک کرد ہے تو ان کا چہرہ اور تاثرات دیکھ کر میں حیران رہ گیا ‘ایک کہنے لگا کہ تم تو کرد نہیں لگتے ‘کرد پہاڑی لوگ ہیں‘ وہ دہشت گرد ہیں اور ان کے بدن سے بہت گندی بو آتی ہے‘ ان کا رویہ دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا‘ ترکوں میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ’’ایک بہترین کرد ‘ایک مرا ہوا کرد ہے‘‘۔ جب کوئی کسی کو خراب الفاظ سے بلانا چاہے تو کہتا ہے کہ ’’تم ایک کرد ہو‘‘ یہ لوگ بس ایک ذلت آمیز زندگی گزار رہے ہیں‘ بین الاقوامی تنظیمیں‘اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سب ان کے معاملے میں خاموش ہیں۔

ترکی کی طرف سے شام میں کردوں کے خلاف آپریشن ’’چشمہ امن‘‘ کی کھل کر حمایت کرنے والا ملک صرف پاکستان ہے‘ پہلے پاکستان کی وزارت خارجہ نے فوجی آپریشن کی حمایت کا اعلان کیا ‘پھر وزیر اعظم عمران خان نے صدر اردوان کو ٹیلی فون کرتے ہوئے فوجی آپریشن کی مکمل حمایت کا یقین دلایا‘صدر اردوان نے وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا اور فوجی آپریشن کے بارے میں معلومات فراہم کیں‘پاکستان نے ترکی کو اسلحہ فراہم کرنے کی پیش کش بھی کی ہے‘ماضی میں بھی ترک کردوں کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان نے ترکی کو اسلحہ فروخت کیا تھا‘ اسی لیے ترکی بھی کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی موقف کی حمایت کرتا ہے۔

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ کرد تین کروڑ کی قوم ہے‘ جس کو سامراجی سازشوں کی وجہ سے چار ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے‘کافی عرصے سے کرد ان چاروں ملکوں سے اپنا علاقہ الگ کرکے ’’کردستان‘‘ کی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘یہ جدوجہد عام طور پر سیاسی ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی مسلح بھی ہو جاتی ہے‘ان کو استعمال بھی کیا جاتا ہے جیساکہ شام میں کردوں کو مسلح کرکے داعش اور بشار اسد کی حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا اور ہزاروں کردوں کی موت کے بعد امریکی سامراج نے ان کو چھوڑ دیا‘ان کی لڑائی خالص قومی آزادی کی تحریک ہے‘ جو کرد اپنے وسائل سے لڑ رہے ہیں۔

اگر کردوں کی جدوجہد کی مخالفت پاکستان کرتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان دنیا کے ملکوں سے کشمیر کے مسئلے پر کیسے حمایت کی توقع رکھتا ہے‘دنیا کے ہر قوم کو قومی آزادی کی جدوجہد کا حق حاصل ہے اور مشرقی تیمور وغیرہ میں اقوام متحدہ بھی یہ اصول تسلیم کرچکی ہے۔

ترکی کے صدر اردوان بھی عجیب پالیسی پر عمل پیرا ہیں‘مسلمانوں کی قیادت کا دعوے بھی کرتے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات ہیں، کشمیر یوں کی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں لیکن اپنے کردوں کے خلاف جارحانہ رویہ رکھتے ہیں‘ پاکستان بھی ایک طرف کشمیریوں کے حق کے لیے آواز اٹھاتا ہے اور دوسری طرف کردوں کی قومی تحریک کے خلاف ترکوں کی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے ‘حالانکہ کرد‘کشمیر اور فلسطین‘ سب کی جدوجہد ’’قومی آزادی‘‘ کے لیے ہے‘یہ تینوں قومیں دہشتگرد نہیں ہیں ‘اصولی طور پران تمام تحریکوں کی حمایت کرنا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔