سیاسی مہم جوئی کے مضمرات

سلمان عابد  پير 28 اکتوبر 2019
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاست کا بنیادی نکتہ سیاسی عدم استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ ایک بنیادی وجہ سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن یا بداعتمادی ہے۔ اس عدم استحکام کا نتیجہ سیاسی عمل میں پس پردہ قوتوں کی عملی مداخلت کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن اس وجہ کے علاوہ ایک اور بڑی وجہ سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کے درمیان سیاسی محاذ آرائی اورایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا بھی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست تاحال ایک ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے ۔مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم صورتحال میں بہتری پیدا کرنے اورماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے اور زیادہ سیاسی انتشار و بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں سیاسی مہم جوئی ہمیشہ سے بالادست رہی ہے۔ کوئی بھی جماعت جب دوسری جماعت کے سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے اور اس کے مقابلے میں اپنی سیاسی مہم جوئی سے حکومت کو گرانے ، کمزورکرنے یا ختم کرنے کی سیاست کرتی ہے تو ملک بڑے سیاسی بحران کا شکار ہوتا ہے ۔ اس عمل میں کوئی ایک سیاسی جماعت صورتحال کی ذمے دار نہیں بلکہ مجموعی طور پر تمام سیاسی جماعتیں جو حکومت میں ہوتی ہیں یا حزب اختلاف کی سیاست کا حصہ ہوتی ہیں ان کا کردار جمہوری کم اور غیر جمہوری و غیر قانونی زیادہ ہوتا ہے ۔

اگرچہ ہمارا سیاسی دعویٰ ہے کہ ہم جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی جنگ لڑ رہے ہیں ،لیکن جو رویہ ہماری اپنی سیاست کا ہے اس میں جمہوریت کو محض ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ہم سیاسی نظام کو مستحکم کرنے کے بجائے اپنی مرضی اور خواہشات پر مبنی نظام چاہتے ہیں اوراگر اس کے لیے ہمیں غیر قانونی اور غیرجمہوری طریقے بھی اختیار کرنے پڑیں تو ہم ا س سے بھی گریز نہیں کرتے۔

اس وقت بھی پاکستانی سیاست میں ایک بڑی سیاسی مہم جوئی کی سیاسی دیگ پکانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے ۔ اس مہم جوئی میں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو، مسلم لیگ ن کے نواز شریف ، مریم نواز ، عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی خان ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پیش پیش ہیں۔ لیکن بڑی مہم جوئی کے اصل کردار اس وقت مولانا فضل الرحمن ہیں۔

پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی سیاسی اوراخلاقی طور پر مولانا کی سیاسی مہم جوئی کے ساتھ کھڑے ہیں ۔البتہ بہت سے معاملات پر مولانا فضل الرحمن کی حکمت عملی کے مقابلے میں بلاول بھٹو اور شہباز شریف کی حکمت عملی مولانا فضل الرحمن سے مختلف نظر آتی ہے ۔ لیکن یہ سب جماعتیں اپنی مہم جوئی میں اس نکتہ پر متفق ہیں کہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے اور 2020ء کو نئے قومی انتخابات کا سال قرار دیا جائے۔ یقینی طور پر حکومت کا خاتمہ آسانی سے نہیں ہو گا اور اس کے لیے طاقت کا استعمال بھی کرنا پڑے تو بہت سی جماعتیں اس پر تیار بھی ہیں۔

اگر مقصد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہے تو اس کے لیے سیاسی، جمہوری اور آئینی سطح پر دو بڑے راستے ہیں ۔ اول تمام حزب اختلاف کی جماعتیں پارلیمنٹ میں حکومت اوروزیر اعظم پر عدم اعتماد کرکے نمبر گیم میں حکومت اوروزیر اعظم کو تبدیل کر سکتی ہے ۔ یاد رہے کہ عمران خان کی حکومت کی عددی برتری بھی بہت زیادہ نہیں ہے اور حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کی اتحادی جماعتوں میں سیاسی دڑار پیدا کر کے یہ سیاسی معرکہ جیت سکتی ہیں۔

دوئم اگر حکومت نئے انتخابات کا راستہ ہموار کرنا چاہتی ہے تو اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، جے یو آئی ، عوامی نیشنل پارٹی او رپختونخوا ملی عوامی پارٹی مل کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کرکے ملک میں ایک بڑا سیاسی بحران پیدا کرسکتی ہیں او راس کا نتیجہ یقینا نئے انتخابات کی صورت میں سامنے آسکتا ہے ۔

ان دونوں راستوں کے علاوہ تیسر ا راستہ براہ راست بڑا سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے حکومت کو مفلوج کرنا اور طاقت کے زور پر حکومت کو گرانا ہوتا ہے ۔ لیکن عمومی طور پر اس طرز کی سیاست کے نتائج کا فائدہ سیاسی قوتوں کو کم اور پس پردہ قوتوں کو زیادہ ہوتا ہے ۔ اس کھیل میں یقینی طور پر پرتشدد سیاست کا عمل بھی ابھرتا ہے جو منفی اورنفرت پر مبنی سیاست پیدا کرتا ہے۔

ماضی میں اس کے نتائج فوجی مداخلت کی صورت میں بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔اگر یہ منطق مان لی جائے کہ 2018ء کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ محض حکومت کی جیت دھاندلی زدہ تھی ، جب کہ حزب اختلاف کے لوگ جو بڑی تعداد میں سندھ اورپنجاب میں جیتے ہیں وہ شفاف انتخاب تھے ۔ اگر واقعی انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو پھر سارے انتخاب کو چیلنج کرنا ہوگا ۔

اسی طرح حزب اختلاف عمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے اگر عمران خان واقعی دباؤ میں آکر مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں توکیا حزب اختلاف اس سلیکٹڈ اوردھاندلی زدہ انتخابات کے نتائج کو قبول کرلے گی ۔کیونکہ عمران خان کے مستعفیٰ ہونے کے بعد اسی جعلی اسمبلی سے نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہونا ہے جو بذات خود تضادات پر مبنی فیصلہ ہے ۔اگر عمران خان نے 2014ء میں حکومت کے خلاف بڑی مہم جوئی کی تھی جو غلط تھی تو آج تجربہ کار سیاسی جماعتیں اسی غلطی کو دہرانے پر کیوں بضد ہیں ۔

اس سیاسی مہم جوئی میں ہم چار بڑے مسائل سے بطور ریاست یا ملک گزر رہے ہیں، ان میں معاشی بحران، ایف ٹی ایف میں گرے لسٹ میں موجود رہنا، پاک بھارت تعلقات اورکشمیر کا بحران یا بھارتی مہم جوئی ، افغانستان بحران ، ایران اور سعودی تعلقات میں پاکستان پر دباؤ یا پاک امریکا تعلقات جیسے مسائل سرفہرست ہیں ۔ان مسائل سے نمٹنے کے لیے بطور ریاست ہمیں عدم استحکام کے مقابلے میں ایک بڑا سیاسی استحکام درکار ہے۔

اس سیاسی استحکام کی بنیادی کنجی حکومت اورحزب اختلاف کے درمیان دشمنی کا خاتمہ ہے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اس میں حکومت پرزیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے مگر یہ عمل بھی حزب اختلاف کے سیاسی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ۔اس بداعتمادی کو کم کرنے یا ختم کرنے میں دونوں اطراف کے سنجیدہ افراد کو سامنے آکر کشیدگی کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

مولانا فضل الرحمن سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاست میں آخری کارڈ ابتدا میں نہیں کھیلا جاتا کیونکہ اگر یہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر موجودہ سیاسی مہم جوئی میں حکومت کے خاتمہ میں کامیاب نہیں ہوتیں تو اس کے بعد ان کے پاس کیا رہ جائے گا اورکیا دوبارہ ایسی مہم جوئی ممکن بھی ہوسکے گی ۔

مسئلہ حکومت گرانا ہے یا سیاسی نظام کی درستگی کا ہے۔ اگر مسئلہ نظام کی درستگی کا ہے تو یہ کسی بڑی مہم جوئی پرمبنی سیاسی انتشارکی بنیاد پر ممکن نہیں۔ اس کے لیے حکومت اورحزب اختلاف کو سیاسی اصلاحات پر توجہ دینی ہوگی۔یہ جو فکر ہے کہ ہمارے تمام اداروں کو اپنے اپنے قانونی دائرہ کار میں رہ کرکام کرنا ہے، یہ عمل ایک مفاہمتی سیاست اور ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھ کر آگے بڑھنے سے جڑ ا ہے ، ہمیں سیاسی مہم جوئی اورنظام گراو کے مقابلے میں نظام کی مضبوطی کی تحریک کو آگے بڑھانا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔