کہاں ہے جناح کا پاکستان

نادر شاہ عادل  پير 28 اکتوبر 2019

عجیب بات ہے کہ ناانصافی کے عفریت پر سوچنے اور لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں تو دنیا کے اقتصادی افق پر یہ سوال گردش کرتا نظر آتا ہے کہ معاشی تفاوت یا عدم مساوات سنگین مسئلہ ہے یا غربت و افلاس کی ذلت آمیز اکیسویں صدی؟

ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا کے کروڑوں مفلسوں کے پاس کچھ کھانے کو نہیں ، مگر وہ اس بات پر پریشان نہیں کہ ان کے پاس تو پھوٹی کوڑی نہیں اور دوسروں کی تجوریاں دولت سے کیوں بھری ہوئی ہیں، بلکہ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیوں بعض لوگ غریبوں سے زیادہ دولت کی کچھ طبقات میں فراوانی پر بر افروختہ اور مضطرب ہیں؟ ان کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔

اس موضوع پر فرینک فرٹ نے On Bullshit نام سے ایک زور دارکتاب لکھ ماری ، جس کا بہت چرچا رہا۔ یہ کتاب نیویارک ٹائمز بیسٹ سیلرز میں شمار ہوئی ، وہ اس کتاب میں رائے دیتے ہیں کہ سماجی انصاف کے شعبے میں اب لوگوں کو معاشی مساوات چاہیے یا کم مساوات۔ دنیا کے معاشی مسیحاؤں کو فیصلہ کرنا ہوگا، مصنف کا خیال ہے کہ عدم مساوات کے خاتمہ سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے مناسب پیسے ملنے چاہئیں تا کہ وہ اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں، ان کا خاندان پیٹ بھر کر کھانا کھائے۔

فرینک فرٹ کا کہنا ہے کہ دولت کا ارتکاز اور غربت اصل میں دونوں جارحانہ ، نفرت انگیز اور توہین آمیز رویے ہیں۔ عدم مساوات ، نسلی امتیاز، غربت اور عالمی خوراک کی عدم دستیابی ایسے موضوعات ہیں جن پر نیٹ پر یا پرنٹ میڈیا میں عالمی رپورٹوں کے انبار لگے ہیں۔ ماہرین کو اندیشہ ہے کہ دنیا فوڈ سیکیورٹی کے شعبے میں ایک بڑے بحران سے دوچار ہونے کے قریب ہے ، ایسی ہی خطرے کی گھنٹی وہ ماہرین بجاتے ہیں جو تیسری دنیا میں غربت ، بیماری ، بیروزگاری اور جرائم کو ناانصافی کا شاخسانہ قراردیتے ہیں۔ وہ طبقاتی کشمکش کی نئی لہر کے ابھار پر خبردار بھی کرتے ہیں۔

لیکن ایک بات ذہن کو بار بار متوجہ کرتی ہے کہ دنیا بہر حال ناانصافی کے کثیرجہتی بحران میں مبتلا ہے۔ اس بحران کی شکل بدلتی رہتی ہے، اور اس کی زد میں غیر ترقی یافتہ اور غریب ملک ہی نہیں انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی آرہے ہیں۔ ان کے نزدیک دہشتگردی بھی غربت، ناانصافی، عدم رواداری اور ظلم وبربریت کا پرتشدد اور منتقمانہ رد عمل ہی ہے۔

چنانچہ اس سیاق وسباق میں کیا ممکن یا مناسب نہیں کہ نا انصافی کا جائزہ لیا جائے، قوموں کے عروج و زوال، تہذیب وتمدن ، اخلاقی معیار اور نظام اقدار پر نظر ڈالی جائے، ان مشاہیر ، بزرگ و معتبر شخصیات کے قول و فعل کے ذریعے سیاسی ، معاشی ، اخلاقی اور جذباتی مسائل اور ہیجانات پر بات کی جائے، ان اقوال زریں کا حوالہ دیا جائے جوکسی قوم کی تربیت اور نظام کی داخلی استقامت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

انصاف معاشرتی نظام کی اہم ترین اینٹ ہے۔  مختلف اقوال کی روشنی میں ہم امرکی نشاندہی کریں گے کہ  انصاف سے محروم سماج واقعتاً ظلم پر مبنی نظام کی بد ترین شکل پیش کرتے ہیں، چاہے ان کو لاکھ جمہوری ، سیکولر ، لبرل ، ترقی پسند اور معاشی اعتبارسے ترقی یافتہ قراردیا جائے۔ ناانصافی پر مبنی نظام کفر سے بڑھ کر ظلم کا علمبردار کہلائے گا اور کیا اس تناظر میں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کوئی اہل ضمیر  یہ گواہی دے گا کہ ہم آج انصاف کی حقیقی دولت سے مالا مال ہیں۔

ہم جمہوریت کی اساس اور اپنے معاشی، سیاسی وسماجی سسٹم کو منصفانہ طریقے سے چلا رہے ہیں۔ اور اگر یہ سچ ہے کہ پاکستانی جمہوریت اور قوم انصاف کے ایک پیج پر ہیں تو پھر بتایا جائے کہ معصوم بچوں کا قاتل کون ہے، ہر شخص برہم۔ غضبناک اور غصہ میں کیوں ، وہ معمولی بات پر پستول نکال کر اپنے دوست کو قتل کیوں کرتا ہے، اسٹریٹ کرائم کا جہنم کیوں دہک رہا ہے، شہر در شہر گناہوں کی بیاض کیسے پھر رہی ہے، یہ بے صبری کیسی ہے، حادثات میں لوگ روز مر کیوں رہے ہیں، اہل اقتدار اپنے حریفوں اور اپوزیشن حکمرانوں سے ستیزہ کار کیوں ہے، کچھ تو ہے کہ  22 کروڑ عوام بنیادی سہولوتوں سے محروم ہیں۔

کہتے ہیں  انصاف سے محرومی انسان کو ہر انسانی وصف،جمالیاتی خوبی ، تخلیقی ندرت اور اخلاقی اعتبار سے محروم کر دیتی ہے، آپ اس اصول پر لاکھ بحث وتکرارکریں مگر حقیقت اٹل ہے کہ جمہوریت انصاف ، رواداری، برداشت اور دوسرے کے حق اختلاف کو تسلیم کرنے سے عبارت ہے ، جمہوری مینڈیٹ کی رٹ لگانے والوں سے دست بستہ عرض ہے کہ قوم کوکس جمہوریت کے ٹرک کی پیچھے لگا دیا گیا ہے کہ اس کا سفر جمہوریت کسی شاندار اسٹاپ پر رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

خدارا ہم لوگ ذرا رک جائیں، سوچیں کہ انصاف کے تقاضے کیا ہیں، وہ اہل فکر نظر جنھوں نے سماجی شیرازہ بندی میں انصاف کو بنیادی پتھر کا درجہ دیا تھا کیا وہ انصاف پسند نہ تھے، کیا ان کی خواہش یہ نہیں تھی کہ نوع انسانی کو ایک ایسی معاشرتی فضا مہیا کی جائے جہاں وہ  انصاف کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں زندگی بسر کریں۔  خود بھی جیئیں اور دوسروں کو بھی جینے دیں۔

اب آئیے کچھ اقوال زریں دیکھتے اور پڑھتے ہیں تاکہ روح انسانیت کو سکون مل جائے، دکھی انسانیت کو قرار آجائے۔ مظلوم کشمیریوں، فلسطینیوں،روہنگیاکے مظلوموں اور شام و عراق اور افغانستان کے عوام کو آزادی ، وقار، امن اور استحکام عطا ہو۔ بندوقوں کی گھن گرج مدھم پڑجائے، قتل و خون کا رواج دم توڑدے۔ ظلم کی حکمرانی ختم ہو، قانون کی حکمرانی کا عالمی سورج طلوع ہو۔

ہمارے آخری نبی ؐ کا قول ہے کہ جابر حکمراںکے سامنے انصاف کی بات کرنا افضل ترین جہاد ہے۔ خود اندازہ لگائیے کہ اس قول کے برعکس ظالم بادشاہوں کی لاش کے سامنے سچ بولنے کے کتنے ہی دعویدارآج بھی میدان سیاست ومذہب کے شہسوار ہیں۔ ساحر لدھیانوی کا شعر ہے۔

سر مقتل جنھیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے

سر منبرکوئی محتاط خطیب آج بھی ہے

داناؤں، فلسفیوں، صوفیوں، علمائے حق اورسیاسی  مفکروںٕ نے صدہا ایسے اقوال کہے جو روح کو سیراب کرتے ہیں۔سنیئے  وہ کیاکہتے آفاق کا

اخلاقی محور طویل ہے مگر اس کی انتہا انصاف ہے۔ قانون کا اطلاق اگر سب پر ہو تو کوئی ناانصافی کی شکایت نہ کرے۔ انصاف صحیح وغلط میں غیر جانبدار رہنا نام نہیں بلکہ سچائی کو ڈھونڈھنا اور اسے سربلند رکھناہے۔ مردہ انسان کبھی انصاف کے لیے فریاد نہیں کرتا۔یہ کام زندہ لوگوں کا ہے۔ انصاف ضمیر کو کہتے ہیں ،کسی شخص کے ضمیر کو نہیں ضمیر ِعالم ِ انسانیت کو۔ سچائی کسی جائز مقصد کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ایک قانون جو موڑا نہ جائے اسے اکثر توڑا جاتا ہے۔ انسان تمام حیوانات میں اشرف المخلوقات ہے مگر انصاف اور قانون سے الگ رہے تو بد ترین ہے۔

انصاف میں تاخیر نا انصافی ہے۔ اسے قانون مت کہو جو دائمی انصاف کے خلاف ہو۔ جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں بے گناہ بڑی بے رحمی سے مرتے ہیں۔ تین انسان تین چیزوں سے محروم رہیں گے ، غصے والا صحیح فیصلے سے، جھوٹا عزت سے، جلد باز کامیابی سے۔ بے حسی نصف موت ہے۔ کبھی اس شخص سے ظلم مت کرو جس کے پاس اللہ تعالیٰ سے فریاد کے سوا کچھ نہ ہو۔ جو تکلیف تم خود برداشت نہ کرسکو وہ کسی دوسرے کو مت دو۔ علم بغیر انصاف کے عیاری ہے۔ تمام بڑے اقدامات بہت ہی سادہ ہیں اور آسان الفاظ میں ہیں:آزادی، انصاف، وقار، احساس فرض ، رحم اور امید۔ مسلمہ اصول ہے کہ جہاں انصاف نہ ہو وہاں غربت کا راج ہوگا ، جہالت ہوگی، عوام محسوس کریں گے ان پر منظم ظلم کو مسلط کردیا گیا ہے۔

وہاں انسان کے جان ومال کے تحفظ کا پھرکیا سوال پیدا ہوگا۔ اگر تم ہر  ناانصافی پر تڑپ اٹھتے ہو تو پھر میرے دوست ہو۔کوئی پوچھتا ہے کہ انصاف کو دیگر اقدار اور خوبیوں پر فوقیت کیوں حاصل ہے جواب یہ ہے کہ دیگر خوبیاں انفرادی ہوتی ہیں ، مگر انصاف کی مسرت ہر شخص کو نصیب ہوتی ہے۔ ایک مجرم کو بچانا بہتر ہے بجائے اس کے کہ کوئی بے گناہ پھانسی چڑھ جائے۔ انصاف کا بنیادی اصول درست حکمت و عقلمندی ہے، فیصلہ حق پر ہو، کوئی اس سے انحراف کرتا ہے تو یہ نا انصافی ہوگی اور بری حرکت بھی۔

اس بات سے کس کو انکار تھا جب کسی دانائے راز نے کہا تھا کہ

’’انصاف کرو چاہے آسمان گر پڑے۔‘‘

حقیقت پوچھو تو ملکی حالات جس سمت نکل پڑے ہیں ، دور دور تک وحشت وظلمت کے اندھیرے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ قتل وغارت، اسٹریٹ کرائم ، مہنگائی ، بیروزگاری اور الزام تراشی، شعلہ بیانی اور سیاسی محاذآرائی کا منظرنامہ روح کو تڑپا دیتا ہے۔ آدمی سوچ میں پڑجاتا ہے کہ کیا یہی ہے بابائے قوم محمد علی جناح کا پاکستان؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔