کشمیر جاگ اُٹھا ہے

ذوالفقار احمد چیمہ  منگل 29 اکتوبر 2019
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

( ایک غیر مسلم کے قلم سے)

پھر تقریباً اُتنی ہی آوازوں اور اُتنی ہی شدت کے ساتھ ’’جیوے جیوے پاکستان ، پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔‘‘ پھر اِن آوازوں سے وادی ایسے گونجنے لگتی ہے جیسے ٹین کی چھتوں پر بارش کا شور یا بادوباراں کے طوفان میں بجلی کی کڑک۔ مسئلہ حقِ خوداختیاری کی بناپر رائے شماری کا ہے۔ وہ رائے شماری ،جوکبھی کرائی ہی نہیں گئی، وہ ریفرنڈم جو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرایا گیا۔

15اگست …….ہندوستان کے یومِ آزادی کے موقع پر پورا سری نگر شہر بند تھا۔ گورنر نے اُس بخشی اسٹیڈیم  میں پرچم لہرایا جو خالی پڑا تھا اور وہاں صرف چند سرکاری افسر تھے۔ چند گھنٹوں بعد سری نگر کے سب سے بڑے حساس چوک ’’لال چوک‘‘ میں ہزاروں لوگوں نے پاکستانی پرچم لہرایا اورایک دوسرے کو پچھلے دن یعنی پاکستان کے یومِ آزادی کی مبارک باد دی اور (اتفاق ہے کہ اُسی لال چوک میں1992 میں بی جے پی کے لیڈر اور بچّوں کی نصابی تاریخ کو مشرف بہ ہندومت کرنے کے شہرت یافتہ اوتار مرلی منوہر جوشی نے بارڈر سیکیورٹی فورسز سے پرچم لہرانے کی روایت ڈالی تھی)۔

16 اگست کو ہزاروں لوگ حریّت رہنما شیخ عبدالعزیز کے گاؤں پام پورہ پہنچے ۔ شیخ عبدالعزیز کو پانچ روز پہلے گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ عبدالعزیز ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ خطِ متارکہ کی طرف یہ مطالبہ لے کر بڑھ رہا تھا کہ جموں والی سڑک چونکہ بند کر دی گئی ہے، اب دوسرا فطری راستہ مظفر آباد والا رہ گیا ہے اس لیے سری نگر مظفرآباد شاہراہ کھولی جائے۔ تقسیم سے پہلے یہی راستہ استعمال کیا جاتا تھا۔

18اگست کو لاکھوں لوگ سری نگر کے بہت بڑے میدان ٹی آر سی گراؤنڈ، (Tourist Reception Centre) جس کا مطلب سچ اور صلح کی کمیٹی نہیں) میں جمع ہوئے۔ اس کے قریب ہی کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے فوجی آبزرور گروپ کا دفتر ہے اس احتجاج نے تین نکات پر مشتمل یادداشت گروپ کو پیش کی ۔ ہندوستانی راج ختم کیا جائے، اقوامِ متحدہ کی امن فوج متعین کی جائے اورگزشتہ دو دہائیوں سے ہندوستانی فوج اور پولیس کی طرف سے کیے گئے جنگی جرائم کی تحقیقات کروائی جائیں۔

18اگست کی صبح ، ساری وادی کے دیہات اور قصبوں سے لوگ سری نگر آنا شروع ہوئے۔ وہ ٹرکوں ، جیپوں ، بسوں کے علاوہ پیدل بھی آئے۔ ایک بار پھر رکاوٹیں توڑ دی گئیں اور لوگوں نے ایک بار پھر اپنا شہر واگزار کرا لیا۔ پولیس کے سامنے دو راستے تھے کہ یا تو راستے سے ہٹ جائے یا گولی چلائے اور قتلِ عام کرے۔ پولیس والے ہٹ گئے اور ایک بھی گولی نہ چلائی گئی۔ بڑے سائز کا پرچم آل انڈیا ریڈیوکی بلڈنگ کے باہر لہرا رہا تھا ۔ حضرت بل، بٹ مالو اور سوپور کو جانے والی سڑکوں کے ناموں والے بورڈ بھی سبز رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور لکھّا تھا ،’’راولپنڈی یا صرف پاکستان‘‘۔

کشمیریوں کو یہ اظہار اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ ان کی جدوجہد سے پاکستان والے ہمدردی کرتے ہیں ۔ کشمیری اپنی تحریک کوآزادی کی جدوجہد کہتے ہیں جب کہ ہندوستان اسے د ہشتگردوں کی تحریک قرار دیتا ہے۔ پھر اس میں ذرا سی شرارت بھی پائی جاتی ہے ۔ دراصل ہندوستان کو جس جس شے سے چِڑ ہے، جو اس کی بے عزتی کا باعث بنتی ہے۔ کشمیری اُس کا اظہار کرتے ہیں۔

ہر طر ف پاکستانی جھنڈے ہیں، ہر جگہ ایک ہی نعرہ ہے، پاکستان سے رشتہ کیا  لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہ ۔ آزادی کا مطلب کیا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہ۔میرے جیسے بعض لوگوں کے لیے جو مسلمان نہیں ہیں، آزادی کا یہ مفہوم سمجھنا اگر ممکن نہیں تو مشکل ضرورہے۔ میں نے ایک نوجوان کشمیری خاتون سے پوچھا کہ ’’اگر کشمیر آزاد ہو گیا تو اس طرح اس کی اپنی آزادی (آزادیٔ نسواں) کم نہیں ہو جائے گی؟‘‘ اس نے کندھے جھٹکے اور کہا ، ’’اب ہمیں کس قسم کی آزادی حاصل ہے؟ ہندوستانی سپاہیوں کے ہاتھوں بے حرمتی کی آزادی؟ ‘‘ اور اس کے جو اب نے مجھے خاموش کردیا۔

جیسے جیسے ہجوم بڑھتا گیا، میں ان کے نعرے اور خطابت سنتی رہی کیوں کہ اکثر اوقات اس قسم کی خطابت اور زوردار الفاظ سے صورتِ حال واضح ہوتی ہے، اوریہی وہ کلید ہے جس سے معاملے کی سوجھ بوجھ حاصل ہوتی ہے۔ میں نے پہلے بھی ایک عسکریت پسند کے جنازے پر ان کی تقریریں سنی تھیں۔ بہرطور، وادیٔ کشمیر کو بند کرنے (جموّںکی طرف سے)کے بعد ایک نیا نعرہ تھا، کشمیر کی منڈی راولپنڈی‘‘ اور ایک اور نعرہ تھا، ’’خونی لکیر توڑ دو، آر پار جوڑ دو۔‘‘ اس اجتماع میں ہندوستان کے خلاف شدید قسم کے ناگوار کلمات کہے گئے، ’’اے جابر و، اے ظالمو، کشمیر ہمارا چھوڑ دو۔ جس کشمیر کو خون سے سینچا، وہ کشمیر ہمارا ہے۔‘‘

وہ نعرہ، جو چُھری کی طرح میرے کلیجے کوچیر گیا اور جس نے میرا دل توڑ دیا، وہ تھا ’’بھوکا ننگا ہندوستان، جان سے پیار اپاکستان۔‘‘ یہ نعرہ میرے لیے اتنی بے عزتی اور اذیّت کا باعث کیوں بنا؟ میں نے اس پر غور کیا اور اس کی تین وجوہ کا پتہ چلا۔ پہلایہ کہ نعرے کا پہلا حصہ کھردرا سچ ہے اورایسے ملک کے بارے میں ہے جو سپر پاور کے طور پر اُبھر رہا ہے۔

یہ حصّہ بے حد خفیف بھی کر جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ سارے ہندوستانی جو بھوکے ننگے نہیں ہیں، وہ تاریخ کے ان دھاروں میں ثقافتی اور معاشی پُر پیچ صورتوںکے معاون رہے ہیں، جنہوں نے ہندوستانی معاشرے کو اس قدر اور انتہائی غیر مساوی بنا دیا ہے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ جو لوگ خود مصائب کا شکار ہوں، جب وہ اپنی ہی طرح کے مصائب کے شکار دوسرے لوگوں پر خندہ زن ہوں تو پھر تکلیف ہوتی ہے جب کہ ان دونوں پر جبر کرنے والا ایک ہی ہے۔ میںنے ان نعروں میں دیکھا کہ مظلوم کے اندر ظالم بن جانے کے کتنے جراثیم پَل رہے ہیں۔

میر واعظ عمر فاروق اور سیّد علی شاہ گیلانی کو اس ہجوم میںراستہ بناتے اور اسٹیج پر پہنچتے پہنچتے کئی گھنٹے لگ گئے۔ جب وہ آئے تو نوجوانوں نے اُنہیں کندھوں پر اُٹھا رکھا تھا اور اسی حالت میں انھیں اسٹیج تک پہنچایا گیا۔ ان کے استقبال پر نعروں کی گونج بہت ہی زیادہ تھی۔ میرواعظ عمر نے پہلے تقریر کی۔ اس نے مطالبہ دہرایا کہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ ، ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ کو واپس لیا جائے ، جن کے تحت ہزاروں کو قتل کیا گیا، جیل میں بند رکھا گیا اور تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ اس نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کی مانگ کی اور مطالبہ کیا کہ سری نگر مظفرآباڈ روڈ لوگوں کے آنے جانے اور تجارت کے لیے کھول دی جائے اور وادی ٔکشمیر کو فوج سے خالی کرا کے اسے غیر فوجی علاقہ قراردیا جائے۔

سیّد علی شاہ گیلانی نے تقریر کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا، اس کے بعد اس نے وہی کچھ کہا، جو سیکڑوں مرتبہ پہلے کہہ چکا تھا کہ کامیابی کا واحد را ستہ یہی ہے کہ ہم قرآن سے رہنمائی حاصل کریں ، اسلام ہماری جدوجہد کی رہنمائی کرے گا کیونکہ اسلام مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے اور اسی کے تحت کشمیر کے آزاد لوگوںپر حکومت کی جائے گی۔ اس نے کہا کہ پاکستان ،اسلام کے گھر کے طور پر وجود میں لا یا گیا تھا اور وہ مقصد کسی صورت ناکام نہیںہونے دیا جائے  گا۔ اُس نے کہا کہ جس طرح پاکستان کشمیر کا ہے، اسی طرح کشمیر پاکستان کا ہے۔ علی گیلانی نے کہا کہ اقلیتی فرقوں کے حقوق مکمل طور پر محفوظ ہوں گے اوراُن کی عبادت گاہیں بھی مامون ہوں گی۔

گیلانی کو قدم قدم پر داد دی گئی۔ سیّد علی گیلانی نے توجو کچھ کہا ، وہ بڑا واضح اور صاف تھا مگر مجھے حیرت تھی کہ آزادی کی اس تحریک میں یہ سب مختلف نظریات رکھنے والے فریق کیسے متحد ہو گئے ہیں، مثلاً جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ مکمل آزادی چاہتا ہے۔ گیلانی کشمیر کا پاکستان میں پورا ادغام اور میرا وعظ عمر نے ان دوانتہاؤں کے درمیا ن ایک بڑا ہی نازک توازن قائم کر رکھا ہے۔

یہ وقت ایسا نہیں کہ فکری طور پر کاہلی اور سستی کا مظاہر ہ کیا جائے یا صحیح صورتِ حال کا اندازہ لگانے سے ہچکچاہٹ برتی جائے۔ ہاں !یہ کہا جا سکتا ہے کہ 1947 میں مہاراجہ ہر ی سنگھ کی ہیرا پھیری نے جدید عہد کے بہت بڑے المیے کو جنم دیا۔ ایک ناقابلِ یقین قسم کا کشت و خون ہو ا اور تقریباًآزاد لوگوں کو طویل عرصے تک غلامی میں جکڑ دیا گیا۔

تقسیم کے موقع پرجس عفریت نے سر اُٹھایا تھا ، اس کا سر پھر اُبھر تا نظر آرہا ہے۔ ہندوتوا کے نیٹ ورک پر اس قسم کی افواہیں چلتی ہیںکہ وادی کے ہندوؤں پر حملے ہو رہے ہیں اور وہ بھاگ رہے ہیں۔ ان افواہوںکے بعد جمّوں سے فون آئے کہ ہندو ملیشیا مسلمانوںکو قتل کر نے کے لیے نکل  کھڑی ہوئی ہے اور ہندو اکثریت والے دو اضلاع سے مسلمان نقل مکانی کی تیاری کر رہے ہیں۔

بھارتی حکومت بے شمارلوگوں کو قید خانوں میں ڈال دے۔ان حربوں سے چند سال اور حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں کا غیر معمولی سرمایہ کشمیر میں فوجی قبضہ رکھنے پر خرچ ہو رہا ہے، عوام کا حق ہے کہ وہ پیسہ ، اسکولوں اور اسپتالوں پرخرچ کیا جائے، اُن لوگوں کو خوراک فراہم کی جائے جو کم خوراکی کا شکار ہیں۔ خدا جانے وہ کون سی حکومت ہو گی اور کس قسم کی ہو گی جو یہ سوچے کہ کشمیر میں زیادہ اسلحے کی فراہمی اور وہاں زیادہ سے زیادہ قید خانے بنانے پر اُسے ، مزید روپیہ صرف کرنے کا حق ہے بھی؟۔

’’کشمیر پر فوجی قبضے کے باعث ہم سب دراصل جن بھوت اور بڑی بلائیں بن گئے ہیں۔ اس سے ہندوستان کے انتہاپسند ہندو شہ پاتے ہیں اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔کشمیر میں مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کے حوالے سے انھیں یرغمال سمجھتے ہیں۔ اس ساری صورتِ حال سے فضا زہریلی ہوتی جا رہی ہے اور اس کا زہر ہماری رگوں میں سرایت کر تا جا  رہا ہے‘‘

کیا کسی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ فوجی طاقت کے زور پر کسی قوم کی آزادی چھین لے، بالکل اُسی طرح جس طرح کشمیر کو ہندوستان سے آزادی چاہیے، ہندوستان کو بھی کشمیر سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔