داتا صاحب کا عرس اور پیر سید سعیدالحسن صاحب کی خدمات

میاں عمران احمد  جمعرات 31 اکتوبر 2019
داتا دربار میں عرس کی تقریبات تین روز تک جاری رہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

داتا دربار میں عرس کی تقریبات تین روز تک جاری رہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حضرت داتا علی ہجویریؒ کا عرس ہر سال عزت، محبت اور عقیدت کے پیغام سے شروع ہوتا ہے اور روحانی تسکین، بامقصد زندگی، قرب الہی، حقوق العباد اور خود احتسابی کے پیغام کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے۔ یہ عرس ہمیں پیغام دیتا ہے کہ کامیاب زندگی گزارنے کےلیے بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنا ضروری ہے۔ معاف کر دینا صوفیوں کی شان رہی ہے۔ عفو و درگزر سے کام لینا ہی انسان کی دعاؤں کو قبولیت کی معراج تک پہنچا سکتا ہے، بھٹکے ہوؤں کو سیدھے راستے پر لا سکتا ہے، فقیر کو بادشاہ بنا سکتا ہے، طوائف کو جنت کا حقدار ٹھہرا سکتا ہے، زانی کو ولی اللہ بنا سکتا ہے اور شرابی کو دین کا داعی بنا سکتا ہے۔ جو طاقت معاف کر دینے میں ہے وہ بدلہ لینے میں ہر گز نہیں۔ اللہ کی صفات میں افضل ترین صفت معاف کردینا اور رحم کرنا ہے۔

یہ عرس پیغام دیتا ہے کہ لاحاصل سفر کے مسافر نہ بنو۔ خود احتسابی ہی حکم الہی کو سمجھنے کا راستہ ہے۔ اللہ تک پہنچنے کےلیے پہلے اس کے بندوں تک پہنچنا ضروری ہے۔ منفی سوچ کو اپنے اندر پنپنے نہ دو۔ جو مقصد تم نفرت کرکے حاصل کرنا چاہتے ہو، وہ محبت دے کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ناپسندیدہ لوگوں کو خود سے دور نہ کرو۔ انہیں اپنے پاس بٹھاؤ، محبت و امن کا پیغام دو، نفرت کے بادلوں کو برسنے سے پہلے ہی تحلیل کر دو۔ کسی کو نفع نہیں دے سکتے تو نقصان بھی نہ دو۔ سازشوں کا گڑھا کھودنے میں وقت ضائع نہ کرو بلکہ محبت کے بیج بونے کا سلسلہ شروع کرو تاکہ پرامن معاشرہ پروان چڑھ سکے۔

یہ عرس ہمیں بتاتا ہے کہ آج تک کسی بھی مسئلے کا حل قتل، نفرت اور تباہی سے نہیں نکل سکا بلکہ محبت نے نفرت کو زندگی کے ہر محاذ پر شکست دی ہے۔ یہ پیغام دیتا ہے کہ عمل الہی میں دخل نہ دو بلکہ حکم الہی پر توجہ دو۔ دوسروں پر تنقید سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکو۔ انا اور تکبر کو پاس بھٹکنے نہ دو۔ عاجزی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو۔ جھکے ہوئے پودے کو زیادہ پھل لگتا ہے، اس کے سائے میں انسان، چرند پرند سکون حاصل کرتے ہیں۔ اللہ کو بھی جھکے ہوئے انسان ہی پسند ہیں۔

آئیے ایک نظر حضرت داتا علی ہجویریؒ کے 976 ویں عرس کے انتظامات پر ڈالتے ہیں۔ حضرت داتا علی ہجویریؒ کا عرس ہر سال منعقد ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ کا عرس ماضی کی روایتوں سے مختلف تھا کیونکہ پنجاب کے صوبائی وزیر اوقاف و مذہب جناب پیر سید سعید الحسن صاحب عرس کے تینوں دن دربار میں بنفس نفیس موجود رہے۔ عرس کی تقریبات اور انتظامات کی نگرانی خود کرتے رہے۔ ماضی میں مذہبی امور و اوقاف کے وزیر صرف حاضری لگانے آتے تھے لیکن اس سال صوبائی وزیر صاحب مسلسل بہتر گھنٹے دربار میں حاضر رہے جو اُن کی بزرگان دین، صوفیائے کرام سے محبت اور احساس ذمہ داری کی دلیل ہے۔ پنجاب حکومت کی تاریخ میں مذہب و اوقاف کی وزارت کےلیے ان سے زیادہ موزوں و مؤثر سیاسی نمائندہ نہیں مل سکا۔ انگلش کا مقولہ ’’صحیح کام کےلیے صحیح شخص‘‘ ان کی ذات کےلیے انتہائی مناسب ہے۔

وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب جناب عثمان بزدار صاحب ان کے انتخاب پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ شریعت، مذہب، معیشت، حقوق العباد، حقوق اللہ، قرآن کی تشریح، اولیائے کرام کی زندگیاں، منافع بخش پالیسیاں بنانا اور سب سے بڑھ کر سامنے بیٹھے شخص کے دل میں اتر جانا اور اسے اپنے اندر سمو لینے کا جو ہنر پیر صاحب جانتے ہیں، وہ ایک مختصر تحریر میں بیان کرنا ناممکن ہے۔

داتا صاحب کے عرس کے موقع پر بہترین سکیورٹی انتظامات دیکھنے میں آئے۔ اگر کہا جائے کہ سکیورٹی انتظامات فُول پروف تھے تو غلط نہیں ہو گا۔ سکیورٹی کےلیے 143 سکیورٹی کیمرے، 25 عدد ایل ای ڈیز، 2000 سے زائد پولیس اہلکار، 3 ایس پیز، سات ڈی ایس پیز، 2 ایلیٹ فورس کی گاڑیاں، 11 واک تھرو گیٹ، 36 میٹل ڈٹیکٹرز، 25 واکی ٹاکی، 22 انٹرکام، 450 تنظیموں کے رضاکار، 45 محکموں کے سکیورٹی گارڈز، 124 پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز، 5 ایمبولینسیں، چار جنریٹر اور 250 صفائی کے رضاکاروں کا بندوبست کیا گیا تھا۔

صوبائی وزیر جناب حضرت پیر سید الحسن صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ داتا علی ہجویریؒ کا عرس بزرگان دین سے محبت اور پنجاب کی ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا میں روحانی اور خانقاہی دنیا کی سب سے بڑی تقریب ہے اس لیے انہوں نے عرس کے موقعے پر دینی، روحانی محفلوں اور علمی نشستوں کی انعقاد کےلیے 500 سے زیادہ مشائخ، سجادگان، اکابر، علما، مذہبی اسکالر، قرأ اور نعت خواں حضرات کو بھی مدعو کیا۔ تقریباً 200 سے زیادہ روحانی اور خانقاہی شخصیات کے علاوہ ہندوستان سے حضرت خواجہ غریب نواز کے سجادہ نشین سید بلال چشتی، خواجہ فرید الدین فخری سجادہ نشین اورنگ آباد شریف، پیر سید دیوان طاہر نظامی سجادہ نشین درگاہ خواجہ نظام الدین محبوب الہی بطور خاص مدعو تھے۔

وزیر صاحب قوالی، میلاد، عرس کے حوالے سے مدلل گفتگو کرتے ہیں۔ عربی، انگلش، چائنیز، اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ چائنیز وفد جب بادشاہی مسجد کا دورہ کرنے آیا تو پیر صاحب نے نہ صرف چائنیز زبان میں ان کا استقبال کیا بلکہ بادشاہی مسجد کی تاریخ اور اس کی اہمیت کے حوالے سے چائنیز زبان میں مکمل تفصیل سے آگاہ کیا۔ چائنیز چند منٹوں میں ہی پیر صاحب کی صلاحیتوں کے گرویدہ ہو گئے۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے قائم کردہ مذہبی سیاحتی کمیٹی میں پیر صاحب کی تجاویز دور جدید کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں جنہیں وزیراعظم اور گورنر پنجاب سمیت کمیٹی کے تمام ممبران نے سراہا ہے۔

داتا علی ہجویری کے عرس کے انتظامات پیر صاحب کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک پہلو ہے۔ اوقاف ڈیپارٹمنٹ کی بہتری کےلیے بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے منصوبے میں کرپشن ختم کرنے کےلیے تمام مزارات پر غلہ باکس ہٹا کر الیکٹرک کیش مشینیں نصب کرنا، مزاروں کے ملازمین کی ٹریکنگ سسٹم کے ذریعے مانیٹرنگ کرنا، اوقاف کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر پودے لگانا، اوقاف کی زمین پر غیر قانونی قبضے ختم کروانا، باعزت اور مہذب طریقے سے درباروں پر لنگر کی تقسیم کو یقینی بنانا، تمام مزارات پر پناہ گاہیں بنانا، اولیاء اللہ کی تعلیمات کو عام کرنے کےلیے تمام مزارات میں تصوف اکیڈمیوں کے قیام کو یقینی بنانا، لاہور میں سیرت اور تصوف یونیورسٹی کا قیام جیسے منصوبے شامل ہیں جن کی تکمیل پاکستانی عوام کےلیے علم کی نئی راہیں کھولنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

وزیراعظم عمران خان نے بیس اکتوبر کو کرتار پور کوریڈور میں بابا گرونانک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا اور تقریب سے خطاب میں فرمایا کہ تمام درباروں کی زمینوں پر یونیورسٹیاں اور اسپتال بنائے جائیں۔ یہ اوقاف کی زمینوں کا بہترین استعمال ہوگا۔ یہاں میں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم صاحب کو یہ تجاویز بھی صوبائی وزیر اوقاف و مذہبی امور جناب حضرت پیر سید سعید الحسن صاحب نے دی تھیں، جن کی عملی شکل بابا گرونانک یونیورسٹی کے سنگ بنیاد کی صورت میں سامنے آنا شروع ہوگئی ہے۔

بلاگ کے اختتام پر میں وزیراعظم پاکستان اور صوبائی وزیر مذہب و اوقاف حضرت پیر سید سعید الحسن صاحب کو عرس کی تقریبات کو احسن طریقے سے مکمل کرنے، تصوف کی تعلیم کو حکومت کی ترجیحات میں شامل کرنے اور داتا علی ہجویری کے پیغامات کو عام کرنے کےلیے کوششیں کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کے زیر سرپرستی پاکستان میں صوفیائے کرام کا پیغام ہر گھر اور ہر دل تک پہنچ سکے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔