پلیٹلٹس (Platelets) کیا ہیں اور کیوں گرتے ہیں؟

ڈاکٹر آصف محمود جاہ (ستارہ امتیاز)  جمعرات 31 اکتوبر 2019
خون میں پلیٹلٹس کی کمی کی اسباب، علامات اور علاج سے متعلق ایک جامع تحریر

خون میں پلیٹلٹس کی کمی کی اسباب، علامات اور علاج سے متعلق ایک جامع تحریر

آج کل ہر شخص یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ خون کے پلیٹلٹس کیا ہوتے ہیں؟ ڈینگی کے علاوہ کون کون سی بیماریوں میں یہ کم ہوتے ہیں؟ ان کا کون سا لیول خطرناک ہوتاہے؟ کیا ایک دفعہ پلیٹلٹس گر کر دوبارہ نارمل ہو جاتے ہیں؟

کون کون سی بیماریوں میں پلیٹلٹ کی مقدار کم ہوتی ہے اور اس کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں۔ ان سارے سوالوں کا جواب دینے کے لیے یہ مضمون لکھا گیاہے۔ خون میں سرخ اور سفید خلیوں کے علاوہ Platlets بھی ہوتے ہیں۔

پلیٹلٹس کا لفظ دراصل پلیٹ سے ماخوذ ہے۔ یہ جسم کے پولیس مین کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جسم کے کسی حصے پر جب کٹ لگتاہے۔ خون نکلنے لگتاہے۔ یہ خون کے یہ محافظ اس جگہ میں آکر پلیٹ کی طرح جمع ہو جاتے ہیں ۔ دماغ کو سگنلز بھیجتے ہیں کہ مزید پلیٹلٹس ادھر آجائیں اور یوں سارے جمع ہو کر خون بہنے سے روکتے ہیں۔ ایک نارمل آدمی کے خون میں ان کی مقدار ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ تک ہوتی ہے۔

آج کل ڈینگی کا مرض عام ہے۔ ڈینگی میں بھی وہ آخری سٹیج ہوتی ہے جب ان کی مقدار چند ہزار رہ جائے۔ اس اسٹیج پر Bleeding شروع ہو جاتی ہے جس سے بندہ کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ اس سال اب تک ڈینگی سے 52 اموات اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہو چکی ہیں۔ حال ہی میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا ڈینگی ٹیسٹ نیگٹو آیا ہے تاہم ان میں پلیٹلٹس میں کمی کی دوسری وجوہات میں کوئی اور وائرل انفیکشن مثلاََ ہیپا ٹائٹس بی اور سی بھی ہوسکتاہے۔

خون کے خطر ناک امراض بلڈ کینسراور لیو کیمیا میں بھی خون میں پلیٹلٹس کی کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی بیماریاں جن میں جسم کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے مثلاََ ایڈز ، SLE اور جوڑوں کے مرض میں بھی پلیٹلٹس کم ہو جاتے ہیں۔ مختلف قسم کی ادویات لینے سے بھی ایک دَم پلیٹلٹس گرسکتے ہیں ۔ پلیٹلٹس گرنا شروع ہوجائیں تو وہ ایک دَم مزید گرتے ہیں ۔ جسم کی قوت مدافعت میں کمی آجاتی ہے۔ ذرا سے انفیکشن سے حالت خراب ہو جاتی ہے۔ وائرل کے علاوہ مختلف قسم کے بیکٹیریا سے بھی پلیٹلٹس کی کمی ہو جاتی ہے۔

پلیٹلٹس گرنے کی ایک مشہور وجہ ITP ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جسم کا مدافعتی نظام غیر فعال ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی مقدار بتدریج کم ہورہی ہے۔ مختلف قسم کی کینسر کی بیماری میں استعمال ہونے والی ادویات، مرگی کی بیماری کی ادویات اور ہیپارین Heparain لینے سے بھی ان کی مقدار گر جاتی ہے۔ خون میں جب پلیٹلٹس کی رفتار گرتی ہے تو جسم میں کمزوری ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

قوت مدافعت ختم ہونے کی وجہ سے انسان ڈاؤن ہوجاتا ہے۔ جسم  میں شدید کمزوری، جوڑوں میں درد ہوتاہے۔ منہ، مسوڑھوں اور ناک سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ جوڑوں میں سوجن ہو جاتی ہے۔ Bleeding زیادہ ہونے کی وجہ سے شاک میں جانے کی وجہ سے موت بھی ہوسکتی ہے۔ جسم پر سرخ رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جسم پر کسی نے چاقو سے زخم لگائے ہوئے ہیں۔ کٹ لگنے سے جسم کے مختلف حصوں سے خون رستا ہوا محسوس ہوتاہے۔ جسم پہ ذرا سا کٹ لگ جائے تو خون بہنا بند نہیں ہوتا۔

مرض کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ CBC، ہیپاٹائٹس B اور C ، ٹوٹل باڈی ایکین۔  بون میروسیمئر اور PET سکین کروائے جاتے ہیں جن سے بیماری کی تشخیص کی جاتی ہے۔ بیماری میں تلی بھی  بڑھ جاتی ہے۔ وٹامن B/2 اور B9 کی کمی کی وجہ سے بھی پلیٹلٹس کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ پلیٹلٹس کم ہونے کا اچانک پتہ چلتا ہے۔ ان میں بتدریج کمی ہوتی رہتی ہے لیکن جب تک بیماری سے بندہ ادھ موا نہیں ہو جاتا، اس کا پتہ نہیں چلتا۔ اس کے بعد تشخیص کرنے سے اس کمی کی وجہ کا پتہ چلتا ہے لیکن جسم کے مختلف حصوں سے Bleeding  اس بات کی نشا ندہی کرتی ہے کہ بیماری خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ جسم کے مختلف حصوں سے Bleeding ہو جانا میڈیکل ایمرجنسی ہے۔

فوراً ڈاکٹر اور ہسپتال سے رجوع کرنا چاہیے۔فوری طور پر پلیٹلٹس کی کمی کو میگا پلیٹلٹ کٹس لگا کر پورا کیا جاتا ہے مگر ان کے لگانے کے باوجود پلیٹلٹس اور خون کے سفید خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ جاری رہتی ہے۔ میگا کٹس کے علاوہ جسم کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیےImmumoglobulin کی  ڈرپس لگائی جاتی ہیں۔ اگر خون میں پلیٹلٹس کی مقدار کسی بیماری کی وجہ سے نہ گررہی  ہو جیسا کہ ITP کی بیماری  میں ہوتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ خود ہی نارمل مقدار میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

اگر کسی دوا کی وجہ سے کمی ہو رہی ہو تو فوری طور پر اس دوا کو بند کر دیا جاتا ہے۔ ڈینگی کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اس بات کا مشاہدہ اور تجربہ کیا گیا کہ ڈینگی وائرس سے متاثر مریضوں میں ڈینگی بخار میں جب پلیٹلٹس کی مقدار گرتی ہے تو پیپتا کے پتوں کا جوس استعمال کرنے سے فوری طور پر ان کی مقدار میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔ ڈینگی بخار کے ہزاروں مریضوں کو پیپتا کے پتوں کا جوس دیا گیا جسے لینے کے بعد ان کے پلیٹلٹس کی تعداد دو تین دن میں نارمل ہوگئی۔ ڈینگی کے علاوہ ITP کے مریضوں میں بھی پپیتا کا شربت کامیابی سے استعمال کیا گیا اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس B اورC میں بھی خون میں پلیٹلٹس کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ ان مریضوں میں پپیتا کے پتوں کا جوس کامیابی سے استعمال کیاگیا۔

اگر کچھ بن نہ پڑتے تو پھر پلیٹلٹس کی میگا کٹس لگاتے ہیں اور اس سے بھی فرق نہ پڑے تو پھر جسم کے مدافعاتی نظام کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے ImmunoGlobulin کی ڈرپس لگاتے ہیں ۔ ساتھ ساتھ سٹیرائیڈ دوائیں بھی دیتے ہیں جن سے خون میں پلیٹلٹس کی مقدار میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر پلیٹلٹس کی مقدار میں کمی ہوتی رہے تو اور کوئی علاج کار گر نہ ہو تو پھرآپریشن کرکے تلی کو نکال دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پلیٹلٹس کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر سٹیرائیڈ دوائیں بھی کارگر نہ ہوں تو آپ کے مدافعانی نظام کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے بعض دوائیں بھی دی جاتی ہیں جن سے بعض صورتوں میں افاقہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن اس طرح کی دواؤں کی مضر اثرات بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اور بھی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔

ان سب باتوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ شفاء من جانب اللہ ہے۔ اللہ چاہے توپپیتا کے پتوںکے جوس سے بھی ITP اور پلیٹلٹس کم ہونے کی دوسری وجوہات کو ختم کر سکتا ہے جیسا کہ ہم نے مشاہدہ اور تجربہ کیا کہ پپیتا کے پتوں کا جوس لینے سے بہت سے ڈینگی کے مریض شفایاب ہوئے اور ان کے پلیٹلٹس بھی نارمل مقدار میں آگئے۔ آج کل بھی ڈینگی مریضوں میں شربتِ پپیتا کا استعمال کامیابی سے جاری ہے اور اس سے ڈینگی کے ہزاروں مریض صحت یاب ہو رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔