پنجاب اسمبلی: خبردار! ماسک پہننا لازمی ہے

سید امجد حسین بخاری  ہفتہ 2 نومبر 2019
آلودگی کے اعتبار سے لاہور کا تیسرے نمبر پر آلودہ علاقہ پنجاب اسمبلی ہے_ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آلودگی کے اعتبار سے لاہور کا تیسرے نمبر پر آلودہ علاقہ پنجاب اسمبلی ہے_ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مجھے قدرت سے پیار ہے، اس کی حسین تخلیقات پر دل و جان فدا کردیتا ہوں۔ پینڈو افراد قدرت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، شاید اسی وجہ سے انہیں قدرتی ماحول میں رہنا پسند ہوتا ہے۔ زندگی میں پہلی بار شہر آیا تو ایک ہفتے تک شور کی وجہ سے کسی کی بات سنائی نہ دیتی۔ رفتہ رفتہ میں اس ماحول کا عادی ہوتا گیا، ماحول کی اتنی عادت ہوگئی کہ اب گاؤں کے سناٹے، کھیتوں کی خاموشی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ کسی ندی پر چلا جاؤں جہاں صاف و شفاف پانی پتھروں سے اٹکھیلیاں کرتے ہوئے خوب شور مچاتا ہے۔ اگر اس سے بھی جی نہ بھرے تو نالہ بیتاڑ کے کنارے پہنچ جاتا ہوں تاکہ زندگی کے اس سکون میں شور تلاش کرسکوں۔

یہ تو تھی ایک پینڈو کی کہانی جو اپنے گاؤں میں جی بھر کر سانس لیتا ہے، جسے کبھی میٹھے پانیوں کے چشموں سے عشق تھا، جو کھیتوں کے ہریالی اور لہلہاتی چراگاہوں کو جنت سے تعبیر کرتا تھا۔ جسے تلاش معاش نے شہر آنے پر مجبور کردیا۔ اب اس کے چاروں جانب کھیتوں کی جگہ بلند و بالا عمارتیں ہیں۔ پگڈنڈیوں اور چراگاہوں کی جگہ اس کی نظر صرف کنکریٹ پر پڑتی ہے، جو ندی اور چشمے کے صاف پانی کے بجائے خرید کر پانی پیتا ہے کیونکہ شہر کے نلکوں کے پانی میں سنکھیا (آرسینک) کی مقدار ناقابل برداشت ہے۔ یہ پینڈو شہر لاہور میں تلاش معاش کےلیے آیا تھا مگر اس شہر میں تو اس کا جینا مشکل ہوگیا۔ لاہور جو کبھی اپنے حسن کی وجہ سے سارے پاکستان سے ممتاز تھا، جہاں گھروں کے آنگن میں جامن کے پیڑ ہوا کرتے تھے، جس کے چاروں جانب لہلہاتے کھیت تھے، اب اس شہر میں سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔

بے ہنگم تعمیرات کے دوران درختوں کی بے دریغ کٹائی کی گئی جس کے بعد شہر کی آب و ہوا متاثر ہونا شروع ہوگئی۔ ہر سال نومبر اور دسمبر میں اسموگ اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور ہم اس کا سارا الزام بھارتی کسانوں پر عائد کردیتے ہیں۔ ابھی اسموگ کی ابتداء نہیں ہوئی لیکن پیارا لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کےلیے کام کرنے والی تنظیم ’اے کیو آئی‘ نے ہوا کے معیار کے لحاظ سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست مرتب کی ہے جس میں پہلے نمبر پر بھارتی دارالحکومت دہلی، دوسرے نمبر پر لاہور جب کہ کراچی چھٹے نمبر پر ہے۔

’ایئر کوالٹی انڈیکس‘ میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کو ہوا کے معیار کا تناسب 339 ہونے پر دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ یہ تناسب صحت مند فضا کےلیے درکار تناسب سے بہت زیادہ آلودہ ہے جس سے سانس کی بیماریاں عام ہونے کا خدشہ ہے۔ لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس 170 سے 220 کے درمیان ہے۔ ماہرین کے مطابق لاہور میں صرف ہوا کے معیار کا تناسب ہی بہت خراب نہیں بلکہ ہوا میں موجود باریک ذرّات (فائن پارٹیکلز) کی مقدار بھی بہت کم تھی۔ ماہرین ہوا کے معیاری اور صحت مند ہونے کو ایک انڈیکس سے ظاہر کرتے ہیں جسے ایئر کوالٹی انڈیکس کہتے ہیں۔ شہر لاہور کے آلودہ ترین علاقوں میں سندر انڈسٹریل ایریا ہے، جبکہ گلبرگ کا پوش علاقہ آلودگی کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے۔ میرے لیے یہ امر باعث حیرانی تھا جب میں نے ویب سائٹ ’’ایئر وژول‘‘ پر شہر کے آلودہ علاقوں کی تفصیلات دیکھیں، کیونکہ آلودگی کے اعتبار سے شہر کا تیسرے نمبر پر آلودہ علاقہ پنجاب اسمبلی تھا۔ جس کے وقت یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں، مال روڈ کا ایئر کوالٹی انڈیکس 190 تھا۔

مال روڈ اور پنجاب اسمبلی کا علاقہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس فیملیز، بیرون لاہور کے افراد، طلبہ اور طالبات کےلیے سستی تفریح کی جگہ سمجھا جاتا ہے۔ گورنر ہاؤس، چڑیا گھر، واپڈ ہاؤس، ہال روڈ، انارکلی اور جی پی او سمیت کئی تفریحی مقامات اس شاہراہ پر واقع ہیں۔ مگر شہریوں کو یہ تفریح کس قیمت پر مل رہی ہے؟ پنجاب اسمبلی میں ممبران آتے ہیں، وزراء کے دفاتر میں رونقیں لگتی ہیں، فنڈز پر بحث ہوتی ہے، تقرری، تبادلے اور استحقاق کے نعرے بلند ہوتے ہیں، مگر اپنی سانسوں کی بحالی پر کوئی گفتگو نہیں کرتا۔ محسوس ہوتا ہے کہ مقتدر اشرافیہ اپنی گاڑیوں میں آکسیجن سلنڈر ہمرا ہ رکھتی ہے، وگرنہ اتنی غفلت تو سمجھ سے بالاتر ہے۔

شہر کو پیرس بنانے کے دعوے کیے گئے، موجودہ حکومت نے ان دعووں کی قلعی کھولنے کے نعرے بلند کئے، سابقہ حکومت نے درخت اگانے کی مہم شروع کی تو موجودہ حکمران جماعت اس کا آڈٹ کرانے کا نعرہ بلند کر رہی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کی اس لڑائی میں شہر شٹل کاک بن چکا ہے۔ شہر کے کھیتوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بن چکی ہیں، لاہور سے شیخو پورہ اور لاہور سے قصور تک چاروں طرف بس لاہور ہی لاہور ہے۔

گزشتہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی شہر میں آلودگی کا ذمہ دار بھٹہ مالکان اور بھارتی کسانوں کو قرار دے رہی ہے، مگر دونوں حکومتوں نے بنیادی وجوہ تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

شہر لاہور کے وسیع گھر اور ان کے آنگن میں لگے جامن کے درختوں کی جگہ اب ڈبے نما پلازے بن چکے ہیں۔ کوئی بھی سرکاری نمائندہ ان پلازوں کی تعمیر پر معترض نہیں ہوا، کیوں کہ یہ پلازے یا تو مقتدر اشرافیہ کے ذاتی اور قریبی افراد کے ہیں یا پھر ان پر کسی تگڑی سرکار کا دست شفقت رہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ وقتی فائدے کےلیے حضرت انسان خود کو کیوں تباہ کر رہا ہے۔

دہلی، جو دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر ہے، اس شہر میں بچے صبح اسکول جاتے ہوئے ماسک پہن کر جاتے ہیں، شہری سائیکل پر سواری کرنے اور علی الصبح چہل قدمی سے بھی لاچار ہوچکے ہیں۔ دہلی اور لاہور کی آلودگی میں بظاہر زیادہ فرق نہیں لیکن اس کے باوجود بھی حالات کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ شہر کے خالی رقبوں کی بندر بانٹ کے بجائے وہاں درخت اگائے جائیں، ایل ڈی اے مزید ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے پر پابندی لگائے اور پہلے سے موجود سوسائٹیز کو اس وقت تک سرٹیفکیٹ جاری نہ کیا جائے جب تک وہ آلودگی سے بچنے کےلیے مکمل اقدامات نہ کریں۔ گھروں میں کچن کارڈننگ کو فروغ دیا جائے جبکہ پلازوں کے گرد و نواح میں درخت لگانے کےلیے منصوبہ سازی کی جائے۔

وزیر اعظم پاکستان کا بلین ٹری سونامی کا مشن قابل تعریف ہے، مگر اس دوران مقامی درختوں کو اگانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ صنعتی علاقوں (انڈسٹریل ایریاز) میں بھی درخت لگائے جائیں۔

ان تمام حالات کے باوجود اگر ہمیں سنگینی کا اداراک نہ ہوا تو یقیناً صورتحال اس سے بھی زیادہ بھیانک ہوسکتی ہے۔ پھر پنجاب اسمبلی میں جاتے ہوئے ہمارے قانون سازوں کو آکسیجن سلنڈر کے ساتھ ساتھ ماسک بھی پہننے لازم ہوجائیں گے۔ اجلاس کے دوران اپنے جذبات پر بھی قابو کرنا ہوگا کیونکہ جوشیلے سیاستدانوں کا آلودگی سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنے والے یاد رکھیں کہ آلودہ ہوا سے پھیپھڑے متاثر ہوسکتے ہیں، عوام کےلیے نہ سہی کم از کم اپنی جوشیلی تقاریر کو جاری رکھنے کےلیے آلودگی پر قابو پالیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔