ہمیں اعتراف کرلینا چاہیے

زاہدہ حنا  منگل 15 اکتوبر 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

آج پاکستانی سماج خلفشار سے دوچار ہے، تو اس پر حیران نہ ہوں کہ یہ بہت پرانا قصہ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ 40 کی دہائی میں جب ہندوستان کی تقسیم کے نعرے لگے اور کچھ ہی عرصے میں یہ حقیقت میں بدلتے ہوئے نظر آنے لگے تو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہونے والوں کا اس بات پر ایمان تھا کہ پاکستان میں رہنے والے تمام مسلمان شیرو شکر ہوکر رہیں گے۔ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔ انھیں روزگار ملے گا، ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اور ان کی نسلیں پاکستان کی سرحدوں کے اندر محفوظ و مامون رہیں گی۔ انھیں راسخ یقین تھا کہ ابتدائی مشکلات پر ریاست جلد ہی قابو پالے گی اور ان کی زندگیاں پُرسکون ہوجائیں گی۔ ان کے انسانی حقوق کی پاسداری ہوگی ۔ انھیں اظہار رائے کی آزادی ہوگی۔ ان کے ساتھ بلاامتیاز انصاف ہوگا۔ عقیدے، نسل، زبان یا طبقاتی فرق کو خاطر میں لائے بغیر ریاست ان کے ساتھ یکساں سلوک کرے گی۔

ان تمام باتوں کے برعکس ہوا کچھ یوںکہ جمہوریت کے نام پر بننے والے ملک میں صرف آٹھ دن بعد صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی قانونی اور آئینی حکومت بہ جبر ختم کردی گئی ۔ چند مہینوں کے اندر اقلیتوں کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے اور انھیں پاکستان میں دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنا ہوگا۔ ابھی تقسیم کو چھ مہینے مکمل نہیں ہوئے تھے کہ بنگالیوں کو بتادیا گیا کہ ان کی صدیوں پرانی علمی اور ادبی روایات سے مالا مال زبان کو قومی زبان کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یہ ان کے لیے اتنا بڑا جھٹکا تھا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے اکثریتی ووٹوں سے ملک وجود میں آیا تھا لیکن اب وہ ایک ایسی اکثریت تھے جسے اقلیت کے احکامات کا سامناتھا۔ اسی احساس کا نتیجہ تھا کہ10 دسمبر 1947 سے ڈھاکا میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے اور 24 مارچ 1948 کو جناح صاحب ڈھاکا یونیورسٹی میں جلسۂ تقسیم اسناد کے موقعے پر اپنی تقریر مکمل نہ کرسکے اور طلبہ کی نعرے بازی کے نتیجے میں انھیں کانووکیشن  ہال سے بہ حفاظت باہر لے جایا گیا۔

خدائی خدمت گار تحریک اور بعض دوسری سیاسی جماعتوں پرپابندی لگی۔ کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے کی مخالفت پر ایوب کھوڑو گرفتار ہوئے اور ان کی حکومت برطرف ہوئی۔ حسین شہید سہروردی، باچا خان، جی ایم سید ،صمد اچکزئی اور دوسرے اہم سیاسی رہنما پس زنداں بھیجے گئے۔ فوج کے چند دستوں کی سرکردگی میں مجاہدین کے غول بیابانی سے کشمیر فتح کرنے کی کوشش کی گئی ۔ قلات (بلوچستان) کو بندوق کی نوک پر پاکستان میں شامل کیا گیا۔ قیام پاکستان کا ایک سال مکمل ہونے سے صرف 2 دن پہلے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر بھابھڑا میں گولی چلی اور 600 سے 800 لوگوں کو جرم بے گناہی میں قتل کردیا گیا۔ خان عبدالقیوم خان صوبہ سرحد کے جنرل ڈائر کہلائے۔ آزادی تحریر پر پے بہ پے حملے ہوئے۔ 17 نومبر47 کو وقار انبالوی نے روزنامہ ’’سفینہ‘‘ نکالا جسے چند مہینوں بعد ہی بند کردیا گیا۔ فروری 1948 میں روزنامہ ’’زمزم‘‘ پر پابندی لگی۔ آزادیٔ اظہار کے حوالے سے پاکستانی حکومت کی نازک مزاجی کا یہ عالم تھا کہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور ’’امروز‘‘ کے مدیر فیض احمد فیض اور پبلشر سید امیر حسین ایک غلط خبر کی اشاعت پر گرفتار ہوئے۔ نقوش، ادب لطیف اور سویرا جیسے مستند ادبی رسائل کی اشاعت پر پابندی لگی۔

یہ قیام پاکستان کے ابتدائی 365دنوں کا میزانیہ ہے اور یہی اس خلفشار کی ابتدا ہے جس سے  پاکستان آج دوچار ہے۔ اس خلفشار اور انتشار کی کاشت ابتدائی 365 دنوں کے اندر بانیان پاکستان نے اپنے دستِ مبارک سے کی تھی۔اس خلفشار پر قابو پایا جاسکتا تھا اگر آئین 1947 کے فوراً بعد بن جاتا، آزادانہ انتخابات ہوتے رہتے اور فوج کو اپنے اقتدار کے لیے ہاتھ پیر پھیلانے کی اجازت نہ دی جاتی۔47 میں ناراض ہونے والے بنگالیوں کو 71میں ان کا حق حکمرانی دے دیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ صرف سندھ، بلوچستان، آج کا خیبرپختونخوا ہی ستم کا شکار نہیں ہوئے، پنجاب کے مزارعین بھی اپنا حق مانگنے پر کچل دیے  گئے۔ مزدور اور طلبہ تنظیمیں ماضی کا قصہ ہوئیں۔  ادبی تنظیمیں بنوائی گئیں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد آمروںسے اپنے لیے مراعات کی طلب گار ہوئی۔ بھٹو کی سولی کے سائے میں ادیبوں نے جنرل ضیا الحق کے دسترخوان کی زینت بڑھائی۔ جمہوریت کی نایابی، آئین کی بے وقعتی، انسانی حقوق کی پامالی، رواداری کے خاتمے، روشن خیالی کے کچلے جانے، مذہبی انتہا پسندی کے فروغ اور اور پے بہ پے آمریت کے قبضے میں جانے والے پاکستان کا مستقبل سیاہ تر ہوتا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے  Strategic Depth حاصل کرنے کے  شوق نے ہمیں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے شکنجے میں اس طرح جکڑا ہے کہ ہزاروں مارے گئے اور بچ جانے والے’’پناہ، پناہ‘‘ چیخ اٹھے ہیں۔

یہ غنیمت ہے کہ 2008 سے پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت ہے جس سے یہ امید بندھتی ہے کہ اگر لوگوں کے دکھوں کا مداوار کیا جائے، انھیں بلا امتیاز انصاف فراہم کیا جائے، تعلیم اور روزگار کے معاملے کو سرفہرست رکھا جائے اس کے ساتھ ہی رواداری اور روشن خیالی کو فروغ دیا جائے تو ہم اس خلفشار سے باہر آسکتے ہیں۔ایک ایسی صورتحال میں  جب ادیبوں اوردانشوروں کے کردار کی بات ہوتی ہے تو ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ دنیا میں پہلے بھی ادب اور دانش کے معاملات سرحدوں کے پابند نہ تھے اور اب جب کہ زمین کی طنابیں کھنچ چکی ہیں۔ ادیبوں اور دانشوروں کی ذمے داریاں بھی عالم گیر ہوچکی ہیں۔ برطانیہ کا برٹرنیڈ رسل ویت نام کا مقدمہ لڑتا ہے اور غدار ٹہرتا ہے، ایڈورڈ سعید نے تمام عمر فلسطینیوں کے حق کے لیے لڑتے ہوئے گزاری ، نوم چومسکی یہودی ہے، امریکی شہری ہے مگر اسرائیل اور امریکی ریاست پر حد درجہ تنقید کرتا ہے اور اس کی قیمت ادا کرتا ہے۔

بغداد کا قومی کتب خانہ جلتا ہے تو رابرٹ فسک روتے ہوئے عربی کے نادر مخطوطات کے صفحے چنتا پھرتا ہے اور برطانوی اور امریکی ریاست کے خلاف لکھتے ہوئے اپنا قلم زہر میں ڈبو لیتا ہے۔ ایسے دانشوروں اور ادیبوں کی ایک طویل قطار ہے جو اپنے ضمیر کے قیدی ہیں اور دنیا کے شہری ہیں۔ وہ دنیا کے مظلوموں کی لڑائی لڑتے  ہوئے ان کا مذہب، ان کی زبان اور ان کی قومیت نہیں پوچھتے۔نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ یہ دانشوروں اور ادیبوں کی ذمے داری ہے کہ سچ بیان کریں ۔ یہ ان کا فرض ہے کہ واقعات کو تاریخی تناظر میں دیکھیں۔ ’’ادیب کی ذمے داری‘‘ کے عنوان سے سارتر کا مضمون ہماری آنکھیں کھول دیتا ہے۔ایلیا ایرن برگ نے کہا تھا کہ ’’صرف وہی لوگ اپنی تہذیب کی حفاظت کرسکتے ہیں، جو بین الاقوامی تہذیب کے نگہبان ہوں‘‘۔

اس تناظر میں جب ہم اپنے ادیبوں اور دانشوروں کے کردار پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں مایوسی ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے پہلے 365 دنوں کا میزانیہ میں نے پیش کیا۔ اس روشنی میں دیکھیے تو چند ادیبوںکو چھوڑ کر سناٹا ہے۔ برصغیر میں جب فرقہ واریت کی کالی آندھی چلی تو یہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ اردو، ہندی، بنگلہ، پنجابی ، سندھی اور برصغیر کی دوسری زبانوں کے ادیب تھے جنہوں نے جم کر فرقہ واریت، مذہبی جنون اور قتل عام کے خلاف لکھا۔ ان کی تحریروں میں اس انسان کے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں جو نفرتوں اور عداوتوں سے ماورا ہے۔ جنگ، فسادات اور تنازعات کے زمانے میں ادیب حب وطن یامذہبی وابستگی کا نعرہ مارتے ہوئے کسی ایک فریق کا وکیل نہیں ہوسکتا ، وہ انسان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے

سابق مشرقی پاکستان میں فوج کشی ہوئی، ظلم و ستم کی انتہا ہوئی لیکن ہمارے ادیبوں کی اکثریت خاموش رہی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو خون بہانے والوں کو داد و تحسین سے نوازتے رہے۔ آج بھی ہمارے اطراف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ لوگ لاپتہ ہورہے ہیں۔ ان کا کھوج لگانے کی کوشش کی جائے تو ان کی تشدد زدہ اور مسخ لاشیں سڑک پر پھینک دی جاتی ہیں۔ ایک طرف ان کو عدالتوں کے سامنے پیش کرنے کی فرمائش سے نجات ہوجاتی ہے دوسری طرف ہمیں یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ’’خاموش رہو‘‘۔ لیکن کیا ہمیں واقعی خاموش رہنا چاہیے؟۔ ہندوئوں، عیسائیوں اور سکھوں پر عرصۂ حیات تنگ ہے۔ احمدی جس خوف و ہراس کا شکار ہیں اس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ ان کی عبادت گاہوں کے ساتھ جو کچھ  ہوتا ہے اول تو ہمیں اس کی خبر نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاںعورتوں پر زندگی حرام ہے، بچے جبری مشقت کی چکی میں باریک پیسے جاتے ہیں۔ ہم  ان سنگین حقائق سے آگاہ ہیں ، اس کے باوجود ہم میں سے بیشتر لکھنے والے اس پامالی کی طرف سے آنکھیں چراتے ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بدن پرنیابتی جنگیں لڑی جارہی ہیں۔ تزویراتی گہرائی حاصل کرنے کے خواب آج بھی دیکھے جارہے ہیں۔ یہ جبر و استبداد کیا رنگ لائے گا؟ اس بارے میں آخری فیصلہ مقتدر قوتیں نہیں کرسکیں گی۔ آخری فیصلہ وقت اور تاریخ کا ہوگا۔ ان معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ادیبوں کو سرجھکا کر یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ ہم میںسے چند کو چھوڑ کر بیشتر اپنا کردار ادا کرنے میںناکام رہے ہیں۔

(روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کی دوسری عالمی کانفرنس میں پڑھا گیا)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔