فیصلہ سانحہ ساہیوال اور ریاست کا کردار

شاہد کاظمی  جمعـء 1 نومبر 2019
سانحہ ساہیوال میں نہتا خاندان پل بھر میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سانحہ ساہیوال میں نہتا خاندان پل بھر میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سانحہ ساہیوال میں ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا گیا۔ متاثرہ خاندان کو معاوضہ مل گیا۔ اپیل کرنے کی کوئی منطق باقی نہیں۔ نہ ہی مدعیان میں سے کوئی مقدمہ ہٰذا کو آگے لے کر چلنا چاہتا ہے۔ اور عدالتوں پر اعتماد کا لگا بندھا بیان بھی مدعیان کی طرف سے دے دیا گیا ہے۔ پاکستان میں جو قانون و انصاف کے رائج تقاضے ہیں وہ مذکورہ بالا کیس میں پورے ہوچکے ہیں۔ لہٰذا عمومی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ اللہ خیر صلا۔ اب کیس فائل کلوز کردینی چاہیے۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے۔

ملزمان سرکاری اہلکار، جن کا تعلق سی ٹی ڈی سے تھا، وہ بری ہوچکے ہیں۔ کیوں کہ گواہان نے انہیں شناخت کرنے سے ہی انکار کردیا۔ اور باقی پیچھے کیا بچتا ہے جس کی بنیاد پہ کیس چلایا جاسکے۔ اور بہت جلد اہلکار اپنے عہدوں پر بحال بھی ہوجائیں گے اور نوکریوں پر حاضری دیں گے۔ معاملات سلجھ گئے۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ لیکن اس پورے قصے کے ساتھ جڑے کچھ دیگر عوامل ایسے ہیں جو ہماری تباہی بطور معاشرے کے تو راگ الاپ ہی رہے ہیں، لیکن ریاست کے کردار کے حوالے سے بھی کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔

اس پورے قصے میں ریاست کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا ہے، جسے ہٹانے کی کوشش نہ اس سے پہلے لوگوں نے کی، نہ موجودہ لوگ کررہے ہیں، نہ ہی آنے والے یقینی طور پر اس پر کوئی کام کریں گے۔ کیوں کہ سوالیہ نشان ہٹنے کا مطلب ہے کہ ادارے اپنے ذاتی مفادات کےلیے استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ اور کیا پاکستان کے معروضی حالات میں ہماری اشرافیہ یہ تصور کرسکتی ہے؟ معاملات کیا اتنے ہی سادہ تھے جتنے ہمیں نظر آرہے ہیں؟

نہتا خاندان پل بھر میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ اور اب شک کا فائدہ دے کر ملزمان بری ہوگئے۔ یہاں ایک لمحہ ٹھہریے اور سوچیے۔ کیا گولیاں چلانے والوں نے گولیاں صرف ایک نہتے خاندان پر چلائیں؟ یا پورے معاشرے پر؟ نہتا خاندان نہیں بلکہ چھلنی تو ہمارے رویے ہوئے، چھلنی تو ہمارا معاشرہ ہوا۔ یہ مسلح افراد ہم میں سے ہی منتخب ہوکر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یونیفارم پہنتے ہیں۔ انگریزوں پر ہم الزام تھوپتے ہیں، لیکن نظام بنایا انگریز نے تھا اس کی اوورہالنگ تو عرصے سے ہم خود کررہے ہیں۔ پھر مسئلہ کیا ہے؟ نظام کی خرابی کو اوورہالنگ کے دوران ہم ٹھیک بھی تو کرسکتے تھے۔ لیکن ہم نے جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر نظام مستعار لیا اور محنت کے بجائے اسی سے کام چلانا شروع کردیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ماڈل ٹاؤن ہو، سانحہ ساہیوال ہو یا نقیب اللہ کیس، ابھی یہ مثالیں اور بڑھیں گی۔

قانون کی خامی ہے۔ درست نہیں کی گئی۔ شک کا فائدہ ملزمان کو ملا اور بری قرار دے دیے گئے۔ بات سمجھ آتی ہے۔ لیکن دوسری جانب ریاست کی ذمے داری کیا تھی؟ دہشت پھیلائی گئی، اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سرکاری اہلکاروں نے یہ دہشت پھیلائی۔ ریاستی ادارہ اس میں ملوث تھا۔ یا تو یہ کہیے کہ نہتے خاندان کو گولیوں سے جن بھوت بھون کے چلے گئے اور نظر ہی نہیں آئے۔ قانون کو تو چلیے شہادت کا سہارا چاہیے ہوتا ہے۔ خانہ پری کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ریاست کی کیا مجبوری ہے؟ کیا چند افراد ریاست کو یرغمال بناسکتے ہیں؟

ایک مصروف شاہراہ پر ایک گاڑی کو روکا گیا۔ بچوں کی موجودگی کے باوجود اندھادھند فائرنگ کی گئی اور یقین کیا گیا کہ کوئی زندہ نہ بچ پائے۔ شومئی قسمت تین نونہال بچ گئے۔ اور معاملہ سوشل میڈیا کی زینت بن گیا۔ اس سانحے سے معاشرے میں دہشت پھیلائی گئی۔ کیا ریاست نے اپنا مقدمہ یہاں لڑا کہ معاشرے میں دہشت کیوں پھیلائی گئی؟ اس سانحے سے معاشرے میں یہ تاثر پھیلایا گیا کہ قانون کے محافظ کچھ بھی کرلیں سزا نہیں پاسکتے کہ وہ قانونی سقم کو جانتے ہیں۔ کیا ریاست نے ان حالات میں مدعی مقدمہ کے مان جانے کے بعد بھی معاشرے میں ریخت کا باعث بننے والے اس سانحے پر ملزمان کے خلاف کوئی لائحہ عمل اپنایا؟ ایک ادارہ ملوث پایا گیا۔ اس ادارے کی اوورہالنگ اور بطور مجموعی رویوں کی تبدیلی کے حوالے سے ریاست نے کوئی لائحہ عمل اپنایا؟

پہلے تو یہ کہہ کر جان چھڑا لی جاتی تھی کہ پولیس اور ادارے حکمرانوں کی ذاتی خدمت پر مامور ہیں۔ اب تو ایسا نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے ایسا تو پھر کیا یقینی دہانی ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ رونما نہیں ہوگا؟ کیا ریاست اس واقعے کو مثال بناتے ہوئے کوئی ایسا ارادہ رکھتی ہے کہ پیسہ قانون کی راہ میں مستقبل میں رکاوٹ نہ بنے؟ کیا متاثرین میں پیسے بانٹ دینے سے ذمے دار افراد بری الذمہ ہوجاتے ہیں؟ کیا قتل کرنے والے کے دامن پر لگا داغ دھل جاتا ہے؟ کیا پیسے میں اتنی ہی طاقت ہے کہ سر راہ آپ چار لوگوں کو خون میں نہلا دیں اور پیسے دے کر جان چھڑا لیں؟ یا پھر ریاست اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ سیدھا سادا معاشرے میں دہشت پھیلانے کا قصہ قانونی سقم کی وجہ سے قصہ پارینہ بن جائے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔