نفرت بمقابلہ محبت

مناظر علی  پير 4 نومبر 2019
کرتارپور زیارت کےلیے آنے والے سکھوں کےلیے 2 شرائط ختم کردی گئی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کرتارپور زیارت کےلیے آنے والے سکھوں کےلیے 2 شرائط ختم کردی گئی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اہل عقیدت کا تعلق خواہ دنیا کے کسی بھی کونے سے ہو، اُنہیں ان کے مذہبی اور روحانی مراکز پر جاکر جو دلی سکون ملتا ہے، شاید ہی کہیں اور جاکر ملتا ہوگا۔ ہم جب مسلم امہ کےلیے سب سے اہم مقدس جگہ سرزمین مقدس کا ذکر کرتے ہیں تو مکہ و مدینہ منورہ کا ذکر آتے ہی سر عقیدت و احترام سے جھک جاتے ہیں۔ وہاں حاضری کےلیے درپیش مشکلات بھی اہل عقیدت کو ثواب کا باعث لگتی ہیں۔ لیکن پھر بھی سفری آسانی اور قیام وطعام میں سہولت مزید سکون کا باعث بنتی ہے۔ یہ معاملہ وہی جانتا ہے جو اہل عقیدت سے ہے۔ یہی حال دنیا کے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کا ہے کہ وہ اپنے مراکز میں جانے کےلیے آسانی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

کرتارپور زیارت سے اب وہ لوگ بھی واقف ہوگئے ہیں جنہیں تحریک انصاف کی حکومت سے قبل علم نہیں تھا۔ اب اس کی وضاحت ضروری نہیں کہ اس زیارت کی سکھوں کے نزدیک کتنی زیادہ اہمیت ہے اور وزیراعظم عمران خان نے سکھ برادری کےلیے کتنی بڑی سہولت بنادی ہے، خاص طور پر ہمسایہ ملک میں رہنے والے سکھوں کےلیے تو کرتارپور راہداری ان کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا پورے ہونے کی طرح ہے۔

اس سے قبل بھی حکومت پاکستان نے بھارتی یاتریوں کو کبھی پریشان نہیں ہونے دیا، خواہ وہ ہندو ہوں یا پھر سکھ۔ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی انہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ملک میں ہیں یا پھر پاکستان کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں۔ انہیں ان کے مذہبی مقامات پر جانے، عبادت کرنے اور دیگر معاملات میں سہولیات مہیا کی جاتی ہیں، حتیٰ کہ انہیں عوام بھی محبتیں دیتے ہیں، جس کا کئی بار وہ ذکر بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستانیوں کی محبت اور میزبانی کا اعتراف تو ابھی نندن بھی کرگیا، حالانکہ وہ بمباری کرنے آیا تھا مگر شاید اسے پہلے اندازہ نہیں تھا کہ یہاں کی مٹی محبت کے پھول اگاتی ہے، نفرتیں صرف انڈیا سے ہی جنم لیتی ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ کرتارپور زیارت کےلیے آنے والے سکھوں کےلیے 2 شرائط ختم کردی گئی ہیں۔ پہلی انہیں پاسپورٹ درکار نہیں ہوگا، محض درست شناخت ہی کافی ہوگی۔ جب کہ دوسری ختم کی جانے والی شرط کے مطابق سکھ یاتریوں کو 10 روز قبل اندراج کرانے کی زحمت بھی نہیں اٹھانا پڑے گی۔ افتتاح اور گروجی کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر بھی کوئی واجبات وصول نہیں کیے جائیں گے۔

وزیراعظم عمران خان کرتارپور راہداری کا باضابطہ افتتاح 9 نومبر کو کریں گے، جس میں نوجوت سنگھ سدھو سمیت بھارت سے کئی اہم شخصیات کی شرکت متوقع ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے سکھ برادری کو اتنا خوش کردیا ہے کہ دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے، سکھ برادری ان کا یہ احسان کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اس منصوبے کی تعمیر سے قبل بھی یہ زیارت حفاظت کے ساتھ اور اچھی حالت میں موجود تھی، مگر اب وہاں پاکستان حکومت نے نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اسے عالمی معیار کے مطابق سہولیات سے مزین کردیا گیا ہے، جس کا کریڈٹ یقینی طور پر پاکستان حکومت کو ہی جاتا ہے۔

مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی یاتریوں کو پاکستان میں مکمل سیکیورٹی اور سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور انہیں آنے میں بھی کسی قسم کی دشواری ہماری طرف سے نہیں۔ پھر اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری نہیں کہ پاکستان سے وہ اہل عقیدت جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی درگاہ، امام احمد رضاخان بریلوی کے مزار اور مدرسہ دیوبند جانے کی خواہش رکھتے ہیں، اسی طرح ایسے کئی مزارات اور مسلمانوں کے مقامات جنہیں دیکھنے کی خواہش پاکستانی مسلمانوں کی ہے، انہیں بھارتی حکومت کیا سہولیات دے رہی ہے؟

حکومت پاکستان جو سہولیات ہندوؤں اور سکھوں کو یہاں دے رہی ہے، کیا بھارتی حکومت میں اتنی جرأت، حوصلہ اور فراخدلی ہے کہ وہ بھی پاکستانی مسلمانوں کو انڈیا میں جانے کی سہولت دے۔ جو پاکستان کی طرف سے جذبہ خیرسگالی کا اظہار کیا جارہا ہے، کیا کشمیر میں بھی بھارتی حکومت کوئی اس قسم کی مثال قائم کرسکتی ہے؟ ایک طرف ہم ہیں کہ بھارتیوں کےلیے راستے آسان بنارہے ہیں اور ایک طرف ہمارا ہمسایہ ہے کہ وہ راستوں میں کانٹوں سے بھی بڑھ کر مسلمانوں کےلیے گولہ وبارود بچھارہا ہے۔

بھارت میں اگر کچھ اہل دانش لوگ ہیں تو انہیں یہ سوچنا نہیں چاہیے کہ اگر بارڈر کے اس پار سے ہمارے یاتریوں کو خوش آمدید کہا جارہا ہے، اگر اس طرف ہمارے لوگوں کو سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، اگر وہاں محبتوں کے پھول کھل رہے ہیں تو وہ بھی کشمیر میں خون کی ہولی بند کرے۔ وہ بھی پاکستانی اہل عقیدت کو بریلی، اجمیرشریف اور دیوبند سمیت دیگر مقامات پر جانے میں حائل رکاوٹیں ختم کرے۔

بھارتی حکومت کی آنکھوں پر تو نفرت اور تعصب کی پٹی بندھی ہے، جو اسے کچھ نظر نہیں آنے دے رہی مگر یہاں امن اور محبت کے پھول اُگ رہے ہیں جو پوری دنیا کو نظر آرہے ہیں۔ دنیا خود ہی اندازہ لگالے کہ اس خطے میں امن کون چاہتا ہے اور کون نفرت کے بیج بوکر انسانی لاشوں کی فصل کاٹنا چاہتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔