عطا آباد جھیل کے پانیوں پر ہچکولے کھاتی کشتی کا سفر خوفناک تجربہ تھا

محمد صدیق پراچہ  اتوار 3 نومبر 2019
نشریاتی محاذ کو بے یارو مددگار چھوڑ دینا کسی بھی ریاست کے مفاد میں نہیں ہوتا، بلتستان میں گزرے مہہ و سال کا احوال

نشریاتی محاذ کو بے یارو مددگار چھوڑ دینا کسی بھی ریاست کے مفاد میں نہیں ہوتا، بلتستان میں گزرے مہہ و سال کا احوال

(قسط نمبر 6)

اس علاقے کے تمام بچے سکول جاتے ہیں۔میٹرک کی تعلیم مکمل کرکے لڑکیوں اور لڑکوں کو علی آباد اور گلگت کے کالجز میں بھیج دیا جاتا ہے۔جو والدین اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اُن کے تمام اخراجات آغا خان فاؤنڈیشن کے ذریعے پورے کئے جاتے ہیں۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد نوجوان مرد او ر خواتین کو معقول روزگار کی فراہمی میں بھی پوری معاونت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ضلع ہنزہ میں بالعموم اور گوجال میں باالخصوص خواندگی اور روزگار کی شرح سو فیصد ہے۔ اگر کوئی بے روزگار ہے تو وہ اپنی کسی کوتاہی کی وجہ سے ہوگا۔گلمت میں ایک خود روجھاڑی Sea Buckthronپیدا ہوتی ہے۔

جس پر نارنجی رنگ کے چھوٹے بیر جیسے پھل لگتے ہیں۔ جو کینسر کے علاج کیلئے اکسیر ہیں۔ گلمت میں اس پھل کو چننے اور اس کا شربت بنانے اور اس کو پیک کرکے اندرون ملک و بیرون بھیجنے کاکام سائنسی طور پر کرنے کا کام گلمت ہی کا ایک نوجوان کر رہا ہے جو غیر ملکی سیاحوں کیلئے گائیڈ کاکام بھی کرتا ہے۔لعل سلطان نامی ایک معمرخاتون خوبانی کو خشک کرکے ملک بھر میں سپلائی کرنے کا کام کر رہی ہیں۔وہ تازہ ناشپاتی اور سیب بھی فروخت کرتی ہیں۔خوبانی گلگت بلتستان اور چترال میں بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہے اور تقریباً ہر علاقہ میں اسے خشک بھی کیا جاتا ہے۔

میں نے ان تینوں علاقوں میں تازہ اور خشک خوبانی کھائی ہے لیکن جو ذائقہ گلمت کی خشک خوبانی کا ہے وہ کہیں دیکھنے اور کھانے کو نہیں ملا۔ پاکستان کے آخری شہر سوست کی طرح گلمت میں دکانیں اور مارکیٹیں چینی ساز و سامان سے بھری پڑی ہیں۔گلمت ہی میں سابق حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے راجہ صاحب نے اپنے آبائی گھرمیں اپنا ہوٹل کھول رکھا ہے۔گھر کے لاؤنج کو انہوں نے طعام خانے میں تبدیل کر رکھا ہے۔ جبکہ وسیع و عریض چمن ایک منزلہ عمارت کے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں جن میں پھل دار درختوں کی تعداد زیادہ ہے۔برآمدے کو انہوں نے ریسپشن ایریابنا دیا ہے۔ جس میں تاریخی نوادرات اور تصاویر اس کو دل کش نشست گاہ کی صورت دیئے ہوئے ہیں۔

پروگرام کی ریکارڈنگ اور گلمت کا ایک چکر لگانے کے بعداُسی دفتر میںظہر کی نماز اداکی ۔ ہم نے جب واپسی کا قصد کیا تو تین بج چکے تھے ۔جھیل پر جلدی پہنچنے کیلئے ٹیکسی کی اور بھاگم بھاگ ششکت پہنچے تاکہ رات گلمت میں نہ رہنا پڑے۔کیونکہ عصر کے بعد کشتیاں چلنا بند ہوجاتی تھیں۔ اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا کہ جھیل کے اُس پار آنے جانے میں چار پانچ گھنٹے صرف ہوتے ہیں اور ہمیں بھاگم بھاگ واپس لوٹنا پڑے گا تو میں گلمت یا پسو میں ٹھہرنے کا پروگرام بنا کر آتا لیکن اب واپس جانا ضروری تھا۔ ششکت میں کشتی کا انتظار کر تے ہوئے وقت بچانے کیلئے میں نے وہاں موجود کشتیوں کے مالکان اور کشتی رانوں سے بات چیت کی ریکارڈنگ شروع کی تو حیرتوں کی ایک نئی دنیا کھل گئی۔

یہاں چلنے والی کل کشتیوں کی تعداد پینتالیس تھی۔ ہر کشتی کو پھیرا لگانے کیلئے مسافروں کی تعداد کے مطابق اپنی باری کیلئے ایک سے تین دن انتظار کرنا پڑتا تھا۔ منگلا اور تربیلہ ڈیموں کے کشتی ران یہاں اپنی اس نوکری سے خوش تھے کیونکہ اُنہیں ہر ماہ ملنے والی تنخواہ بیس ہزار روپے پوری کی پوری بچ جاتی تھی۔کھانا پینا رہائش کا ذمہ کشتیوں کے مقامی مالکان کا تھا جو کشتی چلانے کے فن سے ناواقف تھے۔ یہاں ڈیزل کی قیمت ایک سو روپے لیٹر تھی۔ جبکہ گلگت میں ڈیزل اسی روپے لیٹر دستیاب تھا۔ جو کشتیاں گاڑیوں اور تجارتی سامان کی بار برداری کیلئے استعمال ہوتی تھیں اُن کے مالکان کے وارے نیارے تھے کیونکہ وہ روزانہ کی بنیاد پردس سے بیس ہزار روپے کما لیتے تھے۔

مسافروں والی کشتیوں کی آمدنی بھی کم نہ تھی۔ کشتی میں سواریاں پوری ہوتے ہوتے میرے پروگرام کی ریکارڈنگ مکمل ہو چکی تھی۔ اب سورج بادلوں کی اوٹ میں اور پہاڑوں کے پیچھے جا چکا تھا۔ تیز سرد ہوا چل رہی تھی۔ میں نے گرم کپڑے تو پہن رکھے تھے لیکن دستانے،مفلر،بھاری سوئٹر یا اوور کوٹ نہیں پہنا تھا۔ تیز ہوا کی وجہ سے جھیل کی سطح پر بڑی بڑی لہریں پیدا ہو رہی تھیں۔کشتی میں سوار ہوتے وقت ڈر تو لگا لیکن اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ کشتی روانہ ہوئی ،کچھ آگے بڑھی تو انگریزی حرف ڈبلیو کی شکل کی جھیل میں تیزہوا کی وجہ سے پیدا ہونے والی لہروں کی شدت میں اضافہ ہو ا تو کشتی کاغذکی ناؤ کی طرح ڈولنے لگی۔

موت کا ایک دن اور وقت تو مقرر ہے لیکن بائیس تئیس سو فٹ گہری جھیل کے یخ بستہ نیلے پانیوں میں ڈوبنے کی خواہش ہر گز نہیں تھی۔ مسافروں پر نظر ڈالی کشتی میں سوار گوجال کی خواتین میں سے کچھ روایتی لباس اور ٹوپی میں ملبوس تھیں اور کچھ نے دور جدید کے لباس پہن رکھے تھے۔ان خواتین کی آنکھوں میں خوف اور حیرانی کے سائے تھے۔ مرد،بچے،جوان۔ بوڑھے ہر کوئی خوف زدہ نظروں سے لہروں کو دیکھ رہا تھا۔ تیز ہوا کی وجہ سے سردی میں بھی بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا، دانت بج رہے تھے اور جسم سکڑے جارہے تھے۔ اردگرد کے سرمئی پہاڑوں کا رنگ سیاہ بادلوں کی وجہ سے خوف ناک حد تک کالا نظر آرہا تھا اور اس جھیل کے طلاطم خیز پانیوںمیں صرف اللہ کا سہارا تھا۔ ابھی کشتی نے بمشکل ایک چوتھائی فاصلہ طے کیا ہو گا کہ تیز بارش شروع ہوگئی۔

جس کے موٹے موٹے قطرے برچھے کی طرح لگتے ۔کشتی میںکوئی اوٹ بھی نہ تھی کہ بارش سے پناہ لیتے ۔خدا خدا کرکے پونے گھنٹے کا یہ وقت تیز ہوا کے تھپیڑے کھاتے، بارش میں بھیگتے اور سردی سے کپکپاتے ہوئے گذرا ،جب دوسرا کنارہ نظر آیا تو سب کی جان میں جان آئی۔ عطا آباد سے دفتر کی گاڑی میں سوار ہوئے تو راستے میں تھول گاؤں کے سوا کہیں نہیں رُکے۔تھول کے سیب،ناشپاتی،اناراور انگور اپنے ذائقے کی وجہ سے علاقے بھر میں مشہور ہیں۔اگرچہ یہ مارچ کا مہینہ تھا اور تھول میں ان پھلوں کی فصل جولائی اگست میں تیار ہوتی ہے۔یہ تینوںپھل بہت نازک بھی ہیں۔لیکن اس کے باوجود ایک معمر درزی غلام محمد نے چھ سات ماہ سے اپنے گھر میں محفوظ رکھے ہوئے سیب اور ناشپاتیاں فروخت کیلئے رکھی ہوئی تھی۔اور وہ اڑھائی سوروپے کلو ناشپاتی اور دو سو روپے کلو سیب بیچ رہا تھا۔ اس قدر مہنگا پھل خریدنے کے بجائے میں نے اُس سے چار کلو بادام خرید لئے، جو اُس نے تین سو روپے کلو کے حساب سے دیئے۔اس معمر درزی کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر کم ہوچکی ہے اور کوئی بھی رعایت کرنا ممکن نہیں ہے۔

گلگت واپس پہنچنے پر بہت سی مصروفیات منتظر تھیں ان میں سرفہرست ریڈیوپاکستان گلگت کی چھتیسویں سالگرہ کو شایان شان طریقے سے منانے کے انتظامات کرنا تھے۔میں یہ تقریب اچھے انداز میں منانا چاہتا تھا کیونکہ ایک عرصے سے ریڈیو پاکستان گلگت ’منقار زیر پَر‘ تھا۔اس کی وجہ وہ لوگ تھے جو اس کی بنیاد رکھنے والے محمداکرم خان کی سٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے  2000؁ء میںریٹائرمنٹ کے بعد یکے بعد دیگرے یہاں کے سربراہ بنے۔یہ سب گلگت بلتستان سے تعلق رکھتے تھے۔خپلو کے رہنے والے غلام حسین کنٹرولر ریٹائرڈ کے علاوہ کسی نے بھی اپنی ذمہ داریاں کما حقہ پوری کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔صدر دفتر اسلام آباد کے ذمہ داران خوش تھے کہ اُنہیں دور دراز کے اس اسٹیشن کی نگرانی کیلئے مقامی افسران دستیاب ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ افسرا ن اپنے عزیزوں، رشتہ داروں کو مستقل اور عارضی آسامیوں پر بھرتی کرنے کے علاوہ کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتے تھے۔دفتر آنے جانے کے اوقات کی پابندی کی فکر کسی کو نہ تھی۔

ریڈیوپاکستان کے پروگراموں کا ایک حسن یہ بھی ہوتا ہے کہ پروڈیوسر نئے ٹیلنٹ کی تلاش میں رہتے ہیں اور کالجز، یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں سے تعلق رکھنے والے صداکار اور لکھاری ریڈیو میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کیلئے تیار رہتے ہیں جس کے باعث پروگراموں میں نیا پن اور دلکشی پیدا ہوتی ہے۔ گلگت میں یہ سلسلہ موقوف ہوچکا تھا۔پرانی گھسی پٹی آوازیں سن سن کر سامعین تنگ آچکے تھے۔

یاد رہے کہ کوئی بھی ذریعہ ابلاغ خاص طور پر ریڈیو اور ٹیلی ویثرن اپنے سامعین اور ناظرین کی ضروریات،دلچسپیوںاور تنوع کو نظرانداز کر ہی نہیں سکتے بصورت دیگر وہ اپنے سامعین اور ناظرین سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔گلگت میں نجی شعبہ میں قائم ایک ایف ایم ریڈیو سٹیشن خاصا مقبول ہو چکا تھااور وہ ہزاروں روپے ماہوار اشتہارات کی مد میں کما بھی رہا تھا۔ نجی شعبہ کے ریڈیو سٹیشنوں کی مقبولیت میں جہاں کئی دیگر عوامل کارفرما ہیں وہیں پیمرا کے قوانین کے ڈھیلے ڈھالے نفاذ کا بھی قصور ہے۔

جن کے تحت کوئی نجی ریڈیو سٹیشن بھارتی گانے نہیں چلا سکتا۔ عملاً بالکل اس کے برعکس ہو رہا ہے۔واہیات بھارتی گانوں کے ساتھ بلا سوچے سمجھے اور بغیر مسودہ کے انٹ شنٹ باتیں کرنے والی میزبان خواتین اور حضرات صرف اُن نوجوانوں میں مقبول ہیں۔جنہیں وقت گذارنے کیلئے لایعنی باتوں اور بے سُرے گانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے برعکس ریڈیو پاکستان ایک قومی ادارہ ہونے کے ناطے جہاں اپنے سامعین کو تفریح ،اطلاعات اور تعلیم دیتا ہے وہاں وہ سامعین میں ذوق سلیم کو پروان چڑھانے میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ قومی دینی اور اخلاقی اقدار کی آبیاری کرنا ریڈیو پاکستان ہی کا کام ہے جو وہ نامساعد حالات اور متعلقہ حکام کے سوتیلے پن کے باوجود سر انجام دے رہا ہے۔

جہاں تک اشتہارات سے ہونے والی آمدنی کا تعلق ہے تو اس مقصد کیلئے ریڈیو پا کستان میں سیلز کا شعبہ قائم تو ہے لیکن ایک عرصہ سے نیا خون شامل نہ ہونے کے باعث یہ شعبہ اپنی پوری استعداد کے ساتھ کام نہیں کرپا رہا۔ منظور شدہ 38اسامیوں میں سے تیس خالی ہیں جبکہ جزوقتی اور کل وقتی کل ملازمین کی تعداد گیارہ ہے۔ اس قدر نامساعد حالات کے باوجود اس شعبہ نے گذشتہ مالی سال کے دوران میں 375ملین روپے اشتہارات کی مد میں کمائے۔اس آمدنی میں پانچ سو فیصد اضافہ ممکن ہے ۔لیکن اس کیلئے افرادی قوت اور تمام ملازمین کیلئے ترغیباتی پیکج ضروری ہے۔

اس کے علاوہ انتظامیہ کی طرف سے اٹھائی جانے والی ایک اہم فروگذاشت کو اب تک درست نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ریڈیو پاکستان کے شعبہ اشتہارات کی آمدنی انتہائی قلیل سطح تک گرچکی ہے۔ایک وقت تھا کہ ریڈیوپاکستان کے تمام ملازمین کو اشتہارات اور سپانسر شپ لانے کی صورت میں پندرہ فیصد کمیشن دیا جاتا تھا۔(یہ کمیشن اشتہاری ایجنسیاں اسی شرح سے لے رہی ہیں)اس ترغیب کی وجہ سے تمام ملازمین کوشش کرتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ کمرشلز حاصل کئے جائیں۔ بعض عاقبت نااندیش افسران اپنے ماتحت عملے کی بہترین کارکردگی سے حسد کرتے اور اُنہیں مجبور کرتے تھے کہ کمیشن میں اُن کا حصہ بھی رکھا جائے۔

اس پر کچھ لوگوں نے تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی چپ چاپ برداشت کرلی۔لیکن بعض سر پھرے ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے افسروں کے ناجائز مطالبات ماننے سے صاف انکار کر دیا۔اس کشمکش کانتیجہ یہ نکلا کہ2010-11کے دوران میں اُس وقت کی انتظامیہ نے ملازمین کو دیا جانے والا کمیشن بند کردیا۔اس فیصلے نے ریڈیوپاکستان کی آمدنی پر بہت منفی اثرات مرتب کئے۔ ریڈیولائسنس کی فیس 1980؁ء کے عشرے کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے ختم کی گئی تھی۔اُس کے بعد سے اب تک ریڈیوپاکستان کو معمول کی نشریات کے علاوہ ہر ہنگامی موقعہ پر یعنی سیلاب آئے یا زلزلہ،طوفان کا سامنا ہو یا سرحدوں پر کشیدگی،ٹیکس وصولی مہم ہو یا پولیو کے قطرے پلانے کیلئے عوام کو آمادہ کرنا ہو، حج کے تربیتی پروگرام ہوں یا کسی وبا کے پھوٹ پڑنے کا اندیشہ، دھرنے ہوں۔

انتخابات کرانے ہوں یا کوئی عالمی کانفرنس منعقد ہورہی ہو، حکومت کی طرف سے معمول کے پروگراموں کے علاوہ خصوصی پروگرام تجویز کرنے اور نشر کرنے کا کہا جاتا ہے۔اچھے وقتوں میں ہر اضافی ذمہ داری کیلئے حکومت کی طرف سے مطلوبہ فنڈز مہیا کر دیئے جاتے تھے لیکن اب کچھ عرصہ سے صورت حال گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے توریڈیوپاکستان کو مہیا کئے جانے والے بجٹ میں گذشتہ آٹھ برس سے سالانہ بنیادوں پر اضافہ کے بجائے کٹوتی ہو رہی ہے۔ہر سال ہونے والی عمومی مہنگائی کسی بھی ادارے کے آپریشنل اخراجات کو شدید طور پر متاثر کرتی ہے۔

اس پر مستزاد تنخواہوں میں ہر سال ہونے والا قلیل اضافہ ہے، وہ بھی مہیا نہیں کیا جا رہا۔ دوران ملازمت انتقال کرجانے والے ملازمین کو گذشتہ چار برس سے وزیراعظم کے امدادی پیکیج کی رقم نہیں دی جا رہی ۔اس کے علاوہ علاج معالجے کے اخراجات ،پینشن، گریجویٹی وغیرہ کی مدات میں ریڈیو پاکستان نے کم و بیش پونے دو ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ اس کے علاوہ اسی فیصد میڈیم ویو ٹرانسمیٹر پرانی اینا لاگ ٹیکنالوجی والے ہیں اور وہ اپنی فعال طبعی عمر پوری کر چکے ہیں جنہیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں تبدیل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایک قومی ادارہ ہونے کے ناطے ریڈیوپاکستان کی جملہ ضروریات حکومت نے پوری کرنی ہیں۔ نشریاتی محاذ کو اس طرح بے یار ومددگار چھوڑ دینا کسی بھی ریاست کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ ہمارے کار پردازان حکومت کو جس قدر جلد یہ بات سمجھ آجائے اتنا ہی بہتر ہوگا۔اس جملہ معترضہ کیلئے معذرت۔

اس سے پہلے ذکر چل رہا تھا۔ریڈیوپاکستان گلگت کے مختلف سربراہان کا۔جن کی اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے مسلسل عدم دلچسپی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب میں نے فروری 2015؁ء میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں تو صورت حال اس قدر بگڑ چکی تھی کہ گلگت میں ہونے والی سرکاری غیر سرکاری تقریبات میں ریڈیو پاکستان گلگت کو بلانے کا تکلف نہیں کیا جاتا تھا۔ ریڈیوسٹیشن پر پروگراموں میںاہم سرکاری عہدیداروں ،غیرسرکاری تنظیموں ،شعراء،ادیبوںاور پڑھے لکھے لوگوں کا آنا جانا موقوف ہو چکا تھا۔ ڈرامے، مشاعرے، تقریبات،ادبی محفلیں اور وہ تمام پروگرام جو کسی بھی ریڈیو اسٹیشن کا خاصہ ہوتے ہیں عرصہ دراز سے بند ہو چکے تھے۔وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ فنڈز کی کمی تھی، جبکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہ تھی۔

بہرحال مجھے صفر سے کام شروع کرنا تھا۔دو اپریل کو ریڈیوپاکستان گلگت کی سالگرہ ہونا تھی ۔میں نے اس موقع کو غنیمت جان کرسب سے پہلے صدر دفتر کو خط لکھ کر یہ تقریب اپنی مدد آپ کے تحت شایان شان طریقے سے منعقد کرنے کی اجازت مانگی، جو فوری طور پر مل گئی۔تمام شعبوں کو اُن کی ذمہ داریاں حوالے کیں۔

پہلے یہ خیال تھا کہ یہ تقریب براڈکاسٹنگ ہاؤس میں منعقد کی جائے لیکن جب مہمانوں کی تعداد کے پیش نظر انتظامات کا جائزہ لیا تو بہتر لگا کہ یہ تقریب ہوٹل میں ہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُ س نے یہ تقریب شایان شان طریقہ پر منانے کیلئے سارے راستے آسان کئے۔بہت ہی مناسب نرخوں پر ایک سو بیس مہمانوں کیلئے شامیانہ،کرسیاں اور لوازمات کے ہمراہ چائے کا انتظام سرینا ہوٹل نے اپنے سر لیا۔گلگت بلتستان کے نگران وزیر اطلاعات عنایت اللہ خان شمالی کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا۔(اُس وقت پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اپنی پانچ برس کی مدت پوری کرچکی تھی اور وفاقی حکومت نے نئے انتخابات کیلئے نگران حکومت کا تقرر کر دیا تھا۔جس میں شاہجہاں میر کو نگران وزیر اعلی بنایا گیا تھا۔) گلگت کی علمی ادبی شحصیات اور شہریوں کے علاوہ کابینہ کے چار دیگر وزراء ،سکریٹری صاحبان اور سرکاری حکام کی بھرپور شرکت سے مہمانوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کر گئی تھی۔چاروں علاقائی زبانوں میں ریڈیوپاکستان گلگت کی خدمات پر مقالے پیش کئے گئے۔ میں نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے یہ گذارشات کیں:

محترم عنایت اللہ خان شمالی وزیر اطلاعات گلگت بلتستان اور معزز مہمانان گرامی و سامعین کرام!

؎آج پھر وسعت صحرائے جنوں

پُرسش آبلہ پا چاہتی ہے

میں اللہ رب العزت کا شکرگذار ہوں کہ اُ س نے آج ریڈیوپاکستان گلگت کی چھتیسویں سالگرہ کے موقع پر مجھے آپ سے مخاطب ہونے کے قابل بنایا۔مجھے آپ سب کو یہاں خوش آمدید کہتے ہوئے دلی مسرت ہو رہی ہے لیکن میں کوئی روایتی خطبہ استقبالیہ پڑھنے کیلئے یہاں نہیں آیا بلکہ میں آپ سے اپنے دل کی کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔یہ باتیں اگر کسی کو تلخ محسوس ہوں تو میں اس کیلئے پہلے سے معذرت چاہوں گا کہ آپ سب یہاں مہمان ہیں۔اور مہمانوں کو سامنے بٹھا کر انہیں کچھ سنانا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

؎خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم

انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

میں یہاں 4فروری کو آیا تھا ۔ یہاں سب سے پہلے جس مسئلے کا سامنا ہو اوہ بجلی کی بندش تھی۔روزانہ دو تین گھنٹے کیلئے اس کی شکل دیکھنے کو ملتی ہے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ سردیوں میں پانی کی قلت کی وجہ سے بجلی گھر پوری گنجائش سے کام نہیں کر پاتے، ریڈیوپاکستان میں ہماری ایک ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ لوگوں سے جا کر اُن سے ملا جائے،اُن کی باتیں سنی جائیں ،اُن سے شعر وادب،ثقافت،سیاحت، پھولوں، پھلوں اور فصلوں کی بات کی جائے اور اُن کے مسائل متعلقہ حکام تک پہنچائے جائیں۔ اس سلسلے میں اب تک میں کارگاہ،شیروٹ،بارگو بالا، نلتر،غلمت، جگلوٹ، عطا آباد، ششکت اور گلمت تک جا چکا ہوں۔اس کے علاوہ گلگت شہر میں بھی میرے ساتھیوں نے اسی نوعیت کے کئی پروگرام ریکارڈ کئے ہیں۔ کارگاہ میں میں نے دیکھا کہ وہاں سرکاری طور پر تعمیر کئے ہوئے پن بجلی گھروں میں سے کسی میں بھی نصب ہونے والی مشینری درست حالت میں نہیں ہے۔

کوئی بھی بجلی گھر اپنی گنجائش کی چوتھائی سے زائد بجلی پیدا نہیں کر رہا۔ جب مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ جو بجلی گھر 1988؁ء میں تعمیر ہو ئے تو اُس کے بعد کسی نے اُن میں نصب مشینری کی حالت پر توجہ نہیں دی۔ کارگاہ کا سب سے بڑا بجلی گھر جو چار میگاواٹ بجلی پیدا کرتا تھا۔2010؁ء کے سیلاب کی زد میں آیا تھا۔ ساری مشینیں پانی میں ڈوب گئی تھیں۔ آج پانچ برس گذرنے کے باوجود اُس کی تین مشینیںاُجڑی ہوئی پڑی ہیں۔اُن کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ پانی کے چینلز دیکھے تو اُن میں جگہ جگہ سوراخ ہیں اور بے تحاشہ پانی ضائع ہو رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب مجھے بارگو جانے کا موقع ملا تو وہاں میں نے دیکھا کہ جو پن بجلی گھر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یا کسی غیر سرکاری تنظیم کے تعاون سے لگا رکھے ہیں اُن سب کی مشینری بالکل ٹھیک ہے اور وہ اپنی پوری گنجائش کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ سرکاری شعبے میں لگے ہوئے پن بجلی گھروں کی مشینری کیوں تباہ حال ہے؟ وہ اپنی پوری گنجائش سے کام کیوں نہیں کر پا رہے؟ انہیں کون سا آسیب ڈس گیا ہے؟گلگت کی سڑکیں کیوں تباہ حال ہیں؟ شہر سے نکلنے کے بعد جب تک چینیوں کی تعمیر کردہ شاہراہ قراقرم نہیں آجاتی تمام گاڑیاں رینگ رینگ کر چلتی ہیں اور مسافر جھٹکے کھاکھا کر بے حال ہو جاتے ہیں۔

سڑکوں کی خراب صورت حال کے باوجود گلگت کے نوجوان موٹر سائیکل اس قدر تیز رفتاری سے چلاتے ہیں کہ لگتا ہے انہیں نہ اپنی جانوں کی پروا ہے اور نہ کسی اور کی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ سلطان آباد سے آگے ہنزہ جانے والی شاہراہ قراقرم پر ریس لگاتے ہوئے گلگت اور گرد و نواح کے درجنوں نوجوان موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ کیا لاکھ سوا لاکھ روپے کا موٹر سائیکل خرید کر دینے والے والدین اپنے بچوں کو تیز رفتاری سے نہیں روک سکتے؟ کیا ٹریفک پولیس ہلمٹ پہن کر موٹر سائیکل چلانے کے قانون پر عمل درآمد نہیں کرا سکتی؟

پینے کے پانی کا ذکر ہو تواچھے خاصے پڑھے لکھے بظاہر معزز لوگ اپنا کنکشن لگوانے کے بجائے اپنے گھر کے سامنے گذرنے والی پائپ لائن سے پانی چوری کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔گلگت سے لے کر گلمت گو جال تک میں نے جس سے بھی بات کی۔اُ س نے شکایات اور محرومیوںکا ایک طومار باندھ دیا۔جو سہولیات یا آسانیاں مہیا ہیں اُ ن کا کوئی ذکر نہیں۔ بس گلے ہی گلے ہیں۔کوئی یہ نہیں سوچتا کہ

؎شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اب ایک اور مسئلے کی جانب آپ کو لے کر جاتا ہوں۔ مجھ سمیت ہر سرکاری ملازم نے ملازمت حاصل کرنے کیلئے جانے کیا کیا پاپڑ بیلے ہوں گے۔لیکن جب ہمیں سرکاری ملازمت خاص طور پر پکی ملازمت مل جاتی ہے تو پھر ہم میں اور فرعون میں فرق کم ہی رہ جاتا ہے۔ گردن میں اتنا سریا آجاتا ہے کہ اپنے بیوی بچے بھی بات کرتے ہوئے گبھراتے ہیں۔ہم اپنے فرائض منصبی ایسے انداز میں ادا کرتے ہیں گویا پوری قوم پر احسان کر ر ہے ہیں۔ حالاں کہ مجھ سے زیادہ پڑھے لکھے لائق ، دیانت دار اور محنتی لوگ موجود ہیں جن میں شاید کچھ میرے ماتحت یا جز وقتی طور پر کام کرتے ہوں گے۔

کسی ضرورت مند کا مسئلہ حل کرنا اُن کے بس میں بھی ہو تو وہ ایسا کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ چھوٹے سرکاری ملازم کی بات کریں تو شاید وہ فرعونیت میں اپنے افسروں سے دو قدم آگے ہوںگے۔ سرکار سے مراعات لیتے وقت وہ کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے لیکن جب کام کرنے کی بات ہو تو اپنے روز مرہ کے کاموں میں دفتر کی ذمہ داریاں پوری کرنا سب سے آخری ترجیح بن جاتی ہے۔

اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کارگاہ میں ہمارے سرکاری بجلی گھر پورا کام نہیں کر پاتے۔ سیلاب کے پانچ برس گذرنے کے باوجود بجلی کی تاریں اور کھمبے سر بسجود رہتے ہیں۔ سڑکیںاُدھڑی ہوئی ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔ پانی کے پائپ اور پن بجلی گھروں کے چینلز چھلنی ہیں۔ڈاکٹر خواتین وحضرات اپنی ڈیوٹی کے وقت نجی کلینکوں میں نظر آتے ہیں۔ دیہی علاقوں کے سرکاری شفا خانے دواؤں اور طبی عملے سے محروم ہیں۔ اساتذہ دور دراز دیہات کے سکولوں میں صرف تنخواہ والے دن اپنی شکل دکھاتے ہیں۔ کہنے کو نیشنل بینک ملک کا سب سے بڑا بینک ہے لیکن سرکاری ہونے کی وجہ سے صارفین کو مہیا کی جانے والی خدمات کا معیار پاتال کو چھو رہا ہے۔ ترقی کے شاندار منصوبے کاغذات میں بنتے ہیں۔ ہوا میں تعمیر ہوتے ہیں۔ اور اُن پر مختص رقم چند جیبوں میں چلی جاتی ہے۔عوام کے مسائل وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔

یہ ملک ہم سب کا ہے۔ اس کی تعمیر و تخریب کے ذمہ دار بھی ہم ہیں۔آپ ذرا چند لمحوں کیلئے سوچیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور پاکستان میں کیا فرق ہے؟ کچھ لوگ کہیں گے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ میں نہایت ادب کے ساتھ اُ ن سے پوری شدت کے ساتھ اختلاف کروں گا۔قدرت نے پاکستان کو ہر نعمت۔ آبی، معدنی، سیاحتی،زرعی،انسانی اورترقی کیلئے درکار ہر وسیلے سے نوازا ہے۔ کمی تو مجھ میں اور آپ میں ہے۔ کہ ہم اپنے ملک کا سوچنے کے بجائے اپنی جیب بھرنے کا سوچتے اور اسی کیلئے محنت کرتے ہیں۔ حالاں کہ جو رزق میرے رب نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے میں اُ س سے ایک دھیلہ زیادہ نہیں حاصل کر سکتا۔ اور اگر کر بھی لوں تو اس سے فائدہ نہیں لے سکتا۔روزانہ کروڑوں روپے کمانے والا ہو یا چند سو روپے کی مزدوری کرنے والا، ایک وقت میں ایک روٹی سے پیٹ بھر جاتا ہے۔ کسی کے درجنوں گھر ہوں تب بھی ایک وقت میں ایک بستر پر ہی آدمی سو سکتا ہے۔

ایک وقت میں ایک جوڑا کپڑوں کا پہن سکتاہے۔دیکھا جائے تو ہماری بنیادی ضروریات بہت ہی محدود ہیں اور وہ باآسانی پوری ہوتی ہیں، مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم حرص میں گرفتار ہوتے ہیں حلال حرام کی تمیز کئے بغیر زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کیلئے رات دن ایک کئے دیتے ہیں۔پھر ملک ویران ہونے لگتے ہیں، وسائل ضائع ہوتے ہیں۔ سٹیل مل سے لے کر پی آئی اے تک سرکاری شعبے کے تمام ادارے تباہ ہونے لگتے ہیں۔ سیاح دوسرے ملکوں کا رخ کرنے لگتے ہیں۔ امن روٹھ جاتا ہے۔ دلوں میں نفرتیں پلتی ہیں اور اللہ سزا کے طور پر ہماری زندگیوں سے سکون اور اطمینان اُٹھا لیتا ہے۔

ان الفاظ کے ساتھ جب میں نے رخصت چاہی تو تما م حاضرین جو میری گذارشات سنتے وقت حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے۔دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔یہ تقریب سرینا ہوٹل کے چمن سے براہ راست ریڈیوپاکستان گلگت سے نشر ہو رہی تھی۔تین بجکر بیس منٹ پر شروع ہونے والی اس تقریب میں،مقالوں کے علاوہ اُردو،شینا،بروشسکی،کھوار اور وخی زبانوں میں گیتوں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔گیتوں کے دوران حاضرین جب جوش میں آتے تو وہ ڈائس کے آگے آکر محو رقص ہوجاتے۔اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے والے ملازمین کی اپنے افسروں کے ہاتھوںحوصلہ شکنی کی ریڈیو پاکستان کی دیرینہ روایات سے انحراف کرتے ہوئے میں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ملازمین میں مہمان خصوصی کے ہاتھوں سرٹیفیکیٹ تقسیم کرائے۔

جب چار بجکر اُ نسٹھ منٹ پر تقریب ختم کر کے قومی نشریاتی رابطے پر خبروں کا اعلان کیا گیا اور خبریں نشر ہونا شروع ہوئیں تو اس تقریب کی نظامت کرنے والوں گلگت کے معروف شاعر،ادیب اور براڈکاسٹر احسان شاہ اور ثمینہ کو پورے پروگرام کے دوران میں وقت کی پابندی کا خیال بہت اچھے انداز میں رکھنے پرحاضرین محفل نے بے اختیار ہوکر داد دی اور میں نے اور میرے سارے عملے نے سکھ کا سانس لیا کہ ہم سب کی محنت ٹھکانے لگی اور تقریب کے ہر لمحہ کا بہترطریقے سے استعمال کیا گیا۔ چائے کے دوران میں جب گلگت سے تعلق رکھنے والے شعراء،ادیبوں اور دیگر مہمانوںسے ملاقات ہوئی تو وہ سب بہت خوش اور حیران تھے کہ ریڈیو پاکستان گلگت سے ایسا پروگرام بھی براہ راست نشر ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔