مودی حکومت نے قوم کو ’’ہم‘‘اور ’’وہ‘‘میں تقسیم کر دیا

سید عاصم محمود  اتوار 3 نومبر 2019
بھارت کے منفرد دانشور،ادیب اور سیاست داں،ششی تھرور کی فکر انگیز اور معلومات افروز باتیں

بھارت کے منفرد دانشور،ادیب اور سیاست داں،ششی تھرور کی فکر انگیز اور معلومات افروز باتیں

جنوبی بھارت میں واقع ریاست کیرالہ کئی لحاظ سے منفرد علاقہ ہے۔ساحلوں‘ جنگلوں اور پہاڑوں کی خوبصورت سرزمین ہے۔ عرب تاجروں نے پہلے پہل ہندوستان میں اسی جگہ قدم رکھے اور اشاعت اسلام کا آغاز کیا۔ آج بھی بھارت میں مسلمانوں کی پانچویں بڑی اکثر یت یہیں آباد ہے۔

اہم بات یہ کہ یہاں ہندو‘ مسلمان اور عیسائی سبھی امن‘ شانتی اور رواداری کے ماحول میں رہتے ہیں۔ ریاست میں مذہبی دنگا فساد شاذو نادر ہوتا ہے۔ممتازبھارتی دانش ور‘ ادیب ،مقرر اور سیاست داں‘ ششی تھرور کے اجداد کا تعلق بھی کیرالہ سے ہے۔ان کے والد اخبار میں کام کرتے تھے اور بسلسلہ ملازمت دنیا میں گھومے پھرے۔ 63سالہ ششی لندن میں پیدا ہوئے۔ دو سال کے تھے ، والدین بھارت چلے آئے۔

ششی نے کالج تک تعلیم وہیں پائی۔ 1978ء میں امریکا کی ٹفٹس یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔اسی سال اقوام متحدہ سے وابستہ ہوئے اور والد کی طرح مختلف ممالک میں کام کیا۔ 2006ء میں سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے عہدے کا الیکشن لڑا مگر بان کی مون سے شکست کھائی۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی حکمران طبقے کو ششی تھرور ناپسند تھے۔ انہیں ایک کمزور سیکرٹری جنرل درکار تھا جو امریکی مفادات کے سامنے دیوار نہ بن سکے۔

ششی صاحب نے اقوام متحدہ کو خیر باد کہا اور وطن چلے آئے۔ سیاست میں قدم رکھا اور کانگریس پارٹی سے منسلک ہوئے۔ کیرالہ سے تین بار رکن لوک سبھا منتخب ہو چکے۔ دو بار وزیر مملکت رہے۔ عمدہ لکھاری ہیں۔ نان فکشن کی 13 اور فکشن کی 4کتب شائع ہو چکیں۔ تاریخ ‘عمرانیات، معاشیات اور مستقبلیات محبوب موضوع ہیں۔ بہترین مقرر ہیں۔

2015ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی اپنی ایک تقریر میں انہوں نے ہندوستان میں برٹش راج حکومت کی لوٹ مار اجاگر کی۔ اسے بہت مقبولیت ملی۔بعد ازاں انھوں نے اپنی کتب میں انگریزوں کی سازشوں اور کرپشن کو تفصیل سے بیان کیا۔2014ء میں انتہا پسندی اور ہندو قوم پرستی کے نام لیوا نریندر مودی کی زیر قیادت بھارت میں برسراقتدار آ گئے۔ تب سے بھارت مذہبی اختلافات کا مرکز بن چکا۔ششی تھرور کلام و قلم سے انتہا پسندوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ بڑھتے قوم پرستانہ جذبات اور آزادی رائے پہ پابندیوں کے ماحول میں حق بات کہنا ان کی منفرد شخصیت کا عکاس ہے۔بھارتی سیاسی رہنما ہونے کے ناتے پاکستان پہ تنقید کرتے ہیں مگر اس نے کبھی انتہاپسندی کا چولا زیب تن نہیں کیا۔ ششی صاحب کے سیکڑوں انٹرویوز میں سے چیدہ جوابات کا انتخاب نذر قارئین ہے۔
٭٭
سوال: رابطے سہل ہونے سے دنیا آج عالمی گاؤں بن چکی۔ مگر یہ اعجوبہ بھی سامنے آچکا کہ اقوام عالم کے مابین اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: یہ بات کسی حد تک درست ہے۔میرے لڑکپن میں آئرلینڈ میں پروٹسنٹ اور کیتھولک ایک دوسرے سے نبردآزما تھے لیکن یہ لڑائی اب ختم ہو چکی۔ مگر یہ امر بھی صحیح ہے کہ دیگر ممالک میں معاشی ومذہبی اختلافات نمایاں ہو چکے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا اور سویت یونین کی سرد جنگ کے دوران کئی مسائل پس پشت چلے گئے تھے۔ جب سرد جنگ ختم ہوئی‘ تو وہ مسائل پھر ابھر آئے جن میں مذہبی اختلافات‘ قوم پرستی اور مقامی قضیے نمایاں تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہ عجوبہ مستقل نہیں اور آخر کار ختم ہو جائے گا۔ تاہم اسے برتنا خاصا کٹھن مرحلہ ہے کہ اس سے نئے مسئلے مثلاً دہشت گردی جنم لے چکے۔

سوال: دور جدیدمیں عالمی شہریوں کے نظریات وہ خیالات کی تشکیل میں جغرافیہ زیادہ اثر انداز ہو رہا ہے یا مذہب ؟
جواب: اس وقت دنیا بھر میں جغرافیہ یا مذہب نہیں قوم پرستی عوام و خواص کے حواس پر چھا چکی ۔ دراصل یہ ’’عالمگیریت‘‘ (گلوبلائزیشن) کے خلاف رد عمل ہے۔ عالمگیریت کے بطن سے ’’نظریہ کاسموپولٹین ازم‘‘ (Cosmopolitanism) نے جنم لیا ۔ اس نظریے کی رو سے دنیا کے تمام انسانوں کو امن و محبت سے رہنا چاہے چاہے وہ کیسے ہی مذہبی و نظریاتی خیالات رکھتے ہوں۔ اس نظریے کو پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں مقبولیت ملی لیکن پھر معاشی مفادات نے اسے کمزور کر ڈالا۔دراصل جب کوئی قوم معاشی ترقی نہیں کر سکے‘ تو پھر وہ ترقی یافتہ اور امیر اقوام پر ہر قسم کے الزامات لگانے لگتی ہے۔یہی نہیں ‘ اقوام عالم کے مابین معاشی جنگ بھی چھڑ جاتی ہے۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اقوام کے مابین معاشی اختلافات ہی نے شدت اختیار کر لی۔ انہی اختلافات نے پھر جارحانہ قوم پرستی کو جنم دیا۔ چنانچہ بھارت میں مودی لہر‘ امریکا میں ٹرمپ لہر اور برطانیہ میں بریگزٹ جیسے عجوبے سامنے آئے۔ یونان‘ ہنگری، آسٹریا اور دیگر کئی ممالک میں بھی قوم پرستانہ تحریکیں چل پڑیں۔رفتہ رفتہ انہی تحریکوں نے مذہبی قوم پرستی‘ نسلی قوم پرستی اور قومی تفاخر کا روپ دھار لیا۔ اب اپنی نسل یا قوم کی خصوصیت بڑھ چڑھ کر سامنے لائی جانے لگیں۔ یہ کہا جانے لگا کہ سچا بھارتی بننا زیاد اہم ہے اور یہ کہ امریکا کو دوبارہ عظیم بناؤ۔ غرض اس ماحول میں نظریہ کاسموپولٹین ازم پس پشت چلا گیا اور امن‘ محبت اور تعاون کی باتیں ہوا میں اڑ گئیں۔

سوال: اسرائیل کے مورخ و دانش ور،نوح ہراری (Yuval Noah Harari) کا کہنا ہے کہ ہر ملک میں شہریوں کو قوم پرستی نہیں جذبہ حب الوطنی اختیار کرنا چاہیے۔ وجہ یہ کہ قوم پرستی تنگ نظر ذہنیت کو جنم دیتی ہے۔ اس ضمن میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
جواب: دور حاضر میں رابطے کرنا بہت آسان ہو چکا ۔ اقوام عالم نہ صرف ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں بلکہ ان کا باہمی انحصار بھی بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں کسی قوم کا جارحانہ قوم پسندی پر اتر آنا یقیناً نقصان دہ عجوبہ ہے۔ پھر ایسی قوم پسندی مخصوص سیاست دانوں کے مفادات کی تکمیل کرتی اور انہیں فائدہ پہنچاتی ہے۔ بھارت میں ایسا ہی ہوا ۔ جبکہ جذبہ حب الوطنی ایک شہری میں مثبت جذبے پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اپنی زمین سے محبت اور اپنی تہذیب و ثقافت اور تمدن سے الفت جو شہریوں میں نیکی‘ برداشت ‘ پیار اور قناعت کے اعلیٰ جذبے پروان چڑھاتی ہیں۔جذبہ حب الوطنی دیگر اقوام کے لیے منفی جذبے عموماً پیدا نہیں کرتا۔ لیکن قوم پرستی کا نظریہ انسانوں کو ’’ہم‘‘ اور ’’وہ‘‘ میں تقسیم کر دیتا ہے۔ لہٰذا آج کی ایک دوسرے سے جڑی دنیا میں یہ نظریہ خطرناک نتائج کو جنم دے سکتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب جارحانہ قوم پرستی کے باعث ملک تباہ ہوئے اور اقوام صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جذبہ حب الوطنی کو اپنا لیں جو مثبت بنیادیں رکھتا ہے۔ قوم پرستی کو تو اب سیاسی ہتھیار بنایا جا چکا جس سے مفادات پورے کیے جاتے ہیں۔

سوال: بھارت میں بھی کیا ’’ہم‘‘ اور ’’وہ‘‘ کا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے؟
جواب: جی بالکل۔ مودی حکومت بھارتی قوم کو ’’ہم‘‘ اور ’’وہ‘‘ میں تقسیم کر کے نہایت خطرناک کھیل کھیلنے میں محو ہے۔ اب جو شہری حکومت کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا‘ وہ ’’ہم‘‘ سے نکل کر’’وہ‘‘ کا حصہ بن جاتا ہے۔ اور یہ تقسیم اس بنیاد پر کی جا رہی ہے کہ شہری کا مذہب کیا ہے‘ وہ کون سی زبان بولتا ‘ کیا کھاتا اور کیسا جانور گاڑی میں لے جاتا ہے۔ شہریوں کی زندگیوں میں مودی حکومت براہ راست مداخلت تو نہیں کر رہی لیکن اس کی خاموشی سے متشدد قوم پرستوں کو تحریک ملتی ہے کہ وہ دوسروں پر کھلے عام ظلم و تشدد کر سکیں۔ اس رویّے نے ہمارے قومی اداروں کو نقصان پہنچایا ہے۔مثلاً متشدد ہجوم مسلمان کوبے دردی سے مارتا رہتا ہے اور پولیس چپ چاپ تماشا دیکھتی ہے۔ گویا قانون کے رکھوالے ہی اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ قانون کی حکمرانی قائم کر سکیں۔ ہمارے آئین میں ضمانت دی گئی ہے کہ رنگ ‘ نسل‘ مذہب ‘ زبان وغیرہ سے بالاتر ہو کر ہر شہری کی جان و مال کو حکومت تحفظ دے گی۔ لیکن مودی حکومت کروڑوں شہریوں کو یہ تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی۔ یہ ناکامی بھارت میں جمہوریت کا مستقبل خطرے میں ڈال چکی۔

سوال: مودی حکومت جس قسم کی ہندو قوم پرستی کو پروان چڑھا رہی ہے، کیا وہ ہندومت سے مختلف ہے؟
جواب: ہندومت کے دراصل کئی نمونے یا ورژن ہیں۔ یہ مذہبی اصول و قوانین کا کوئی معین اور واضح نظام نہیں رکھتا۔ ہر ہندو کو اختیار ہے کہ وہ کوئی بھی نمونہ اپنالے۔ اپنی مرضی کے اعتقادات رکھے۔ من پسند دیوی دیوتا کی پوجا کرے۔ اپنی پسند کی مذہبی کتاب پڑھے۔ وہ کسی بھی دن یا وقت پر اپنی پسندیدہ روایات کے مطابق عبادت کرسکتا ہے۔ چاہے تو وہ کسی بھی مذہبی اصول کو رد کردے، کوئی اسے کچھ نہیں کہے گا۔ ہندومت میں ایک دوسرے کو واجب القتل قرار دینے کا نظریہ وجود ہی نہیں رکھتا۔اس میں جو لچک پذیری ہے، میں اسے خوبی سمجھتا ہوں۔آر ایس ایس اور دیگر شدت پسند مذہبی و سیاسی تنظیموں نے مگر ہندومت کو سیاسی ہتھیار بنالیا ہے تاکہ اپنے مقاصد اور مفادات حاصل کرسکیں۔ ہندومت کے اپنے اس نئے نمونے کو انہوں نے ’’ہندتوا‘‘ کا نام دیا جو جارحانہ قوم پرستی کے نظریات پر استوار ہے۔ یہ سیاسی نمونہ ہندومت کے مذہبی نظریات سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت میں75 تا 80 فیصد باشندے ہندومت کے کسی نہ کسی نمونے پر عمل پیرا ہیں۔ ان میں سے صرف 20 فیصد ہی ہندتوا نمونے کو پسند کرتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں، نریندر مودی کو خصوصاً الیکشن 2014ء میں کئی ہندوئوں نے یہ سوچ کر ووٹ دیئے کہ وہ ایک اچھے منتظم ہیں۔ وہ گجرات کو ترقی دے چکے لہٰذا بھارت کی قومی معیشت کو بھی سدھار دیں گے۔ اسی خیال کی بنیاد پر انہیں زیادہ ووٹ پڑتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ پارلیمانی الیکشن میں مودی بھارتیوں میں منفی قوم پرستانہ جذبات بھڑکا کر زیادہ ووٹ پانے میں کامیاب رہے۔ ان کی پانچ سالہ حکومتی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی۔ اسی لیے پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کا خوف قوم پر طاری کرکے انہیں ووٹ لینے پڑے۔سچ یہ ہے کہ مودی اینڈ کو نے ہندومت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ برطانیہ میں بعض اوقات فٹ بال کے شائقین آپے سے باہر ہوکرغنڈہ گردی کرتے ہیں۔ تب وہ ایک اچھے خاصے شریفانہ کھیل کا تیا پانچہ کرڈالتے ہیں۔ مودی اور ان کے ساتھی بھی انہی برطانوی غنڈوں جیسے ہیں جنہوں نے ایک معقول مذہب کی ایسی کی تیسی کردی۔ ہندومت اب تنگ نظری کا ایسا آلہ بن چکا جس سے خالصتاً سیاسی مفادات پورے کیے جارہے ہیں۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ مودی حکومت سیکولر آئین کے بھی بخیے ادھیڑ دے گی؟
جواب: جی بالکل۔ عام خیال یہ ہے کہ سیکولر مت مذہب مخالف نظریہ ہے۔ وہ مذہب کو تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن بھارت میں یہ نظریہ مختلف معنی رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ تمام مذاہب باہم شیر و شکر ہوجائیں اور حکومت کسی ایک مذہب کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔ آزادی کے بعد تمام حکومتوں کی سعی رہی ہے کہ سبھی مذاہب کو قریب لایا جائے تاکہ ان میں تصادم نہیں ہم آہنگی جنم لے۔ مگرآر ایس ایس کے لیڈر برسراقتدار آتے ہی قوم کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے لگے۔ کانگریس پارٹی کا نظریہ ہے کہ تمام مذاہب قابل احترام ہیں اور سبھی کو بھارت میں پھلنے پھولنے کے مواقع ملنے چاہیں۔ اسی لیے ہم تمام مذہبی تہوار یکساں جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔

سوال: ریاست جموں و کشمیر کے آرٹیکل 380 ختم کرنے کا اقدام کیا جائز تھا؟
جواب: مودی حکومت نے یہ اہم قدم اٹھانے سے قبل کشمیری رہنمائوں سے کوئی صلاح مشورہ نہیں کیا بلکہ انہیں نظربند کردیا۔ میرے نزدیک یہ اقدام جمہوریت کی روح کے خلاف تھا۔ اس سے بھارتی نوجوانوں کو یہی پیغام ملا کہ طاقت کے سامنے کوئی شے حتیٰ کہ اخلاقیات بھی ٹھہر نہیں سکتی۔ گویا مودی حکومت ملک میں جنگجویانہ جذبات پروان چڑھا رہی ہے جو ایک خطرناک عمل ہے۔

سوال: آپ نے ہندوستان میں انگریزوں کے دور حکومت کو اپنی کتب میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کی کیا وجوہ ہیں؟
جواب: دراصل برصغیر پاک و ہند میں آج بھی بہت سے لوگ انگریز راج کے گن گاتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انگریز حکومت ہر لحاظ سے اچھی تھی۔ چناں چہ میں نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ انگریز ہم ہندوستانیوں کے ہمدرد نہیں بلکہ لٹیرے اور ڈاکو تھے۔ ان کے دور حکومت میں لاکھوں ہندوستانی قحطوں کی وجہ سے مرگئے مگر انگریز حکمران بے حس بنے رہے۔ میں اسی لیے چرچل کو قاتل کہنا ہوں کیونکہ اس نے لاکھوں بنگالیوں کو سسک سسک کر مرنے چھوڑ دیا اور ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ پھر جلیانوالہ باغ جیسے قتل عام انگریز حکمرانوں کے دامن پر بدنما داغ ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ڈیڑھ سو سالہ اقتدار میں انگریز ہندوستان کی دولت لوٹ کر برطانیہ لے گئے اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو ترقی یافتہ بنالیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے سڑکیں، ریل پٹڑیاں، افسر شاہی، کرکٹ، چائے، انگریزی زبان وغیرہ کے تحفے ہندوستانیوں کو عطا کیے۔ لیکن انہیں دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ہمیں فائدہ ہوجائے بلکہ اس طرح خود غرض انگریز اپنی لوٹ مار کا عمل سہل اور آسان بنانا چاہتے تھے۔

اس سارے قضیے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ برطانیہ کی نئی نسل اپنے اجداد کی چوری چکاری اور لوٹ مار سے ناواقف ہے۔ اسے یہ علم ہی نہیں کہ برطانوی عجائب گھر ہندوستان سے چرائی قیمتی اشیا سے بھرے پڑے ہیں۔ انگریز تو ہماری بیش قیمتی کتابیں بھی اٹھا کر لے گئے اور اپنے کتب خانوں میں سجا دیں۔ حتیٰ کہ ملکہ برطانیہ کے تاج میں لگا کوہ نور ہیرا بھی ٹھگی سے انگریزوں نے اڑا یا اور اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہ کیا۔جرمنی میں ہٹلر اور اس کے حواریوں نے یہود، جپسی قوم اور دیگر غیر جرمن نسلوں پر ظلم و تشدد کیا تھا۔ آج جرمنی کی نصابی کتب میں اس ظلم و تشدد کے متعلق باقاعدہ ابواب شامل ہیں۔ جرمن استاد طلبہ و طالبات کو دورے پر نظر بندی کیمپوں میں لے جاتے ہیں۔ اس ساری سرگرمی کا مقصد یہ ہے کہ نئی نسل اپنے اجداد کی قبیح حرکات سے آگاہ ہو اور انہیں دہرانے سے اجتناب کرے۔ برطانیہ میں مگر نصابی کتب نو آبادیاتی تاریخ کے بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر پہنچ کر ہی ظالمانہ اور چوری کاری پر مبنی یہ تاریخ پڑھنے کو ملتی ہے۔میری تجویز ہے کہ حکومت برطانیہ کو چاہیے وہ ایک ’’نو آبادیاتی عجائب گھر ‘‘ تعمیر کرے۔ اس میں ہندوستان سمیت تمام نو آبادیوں سے لوٹ کر لائی جانے والی اشیا رکھی جائیں۔ اس میوزیم کا دورہ کرنے والے بچوں اور طلبہ و طالبات کو یہ بھی بتایا جائے کہ برطانیہ میں جتنی بھی شاندار عمارتیں نظر آتی ہیں، یہ چوری ڈاکے کے مال سے بنائی گئیں۔

سوال: آپ کے بیانیے میں مغل حکمران کہاں فٹ ہوتے ہیں؟ آپ نے اپنی کتب میں لکھا ہے کہ انگریزوں سے قبل کے حکمران مختلف تھے؟
جواب: انگریز اس لحاظ سے مختلف ثابت ہوئے کہ وہ ہندوستان سے کوئی لگائو نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی اس سرزمین سے مخلص تھے۔ مغل بھی باہر سے ہندوستان آئے مگر انہوں نے اس زمین کو اپنا وطن بنالیا اور یہاں کے باشندوں میں گھل مل گئے۔ مثلاً پہلے مغل بادشاہ کو چھوڑ کر آنے والا ہر مغل حکمران ہندوستانی ماں ہی کا بیٹا تھا۔ مغل ہندوستان کو اپنا گھر سمجھتے تھے…وہ واپس اپنے آبائی ملک نہیں گئے۔ انہوں نے کبھی اپنی دولت وہاں نہیں بجھوائی اور نہ ہی بیرون ملک جائیداد بنائی بلکہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کی۔ ملک ملک گھوم کر بہترین معمار، مصّور، معالج، موسیقار اور دیگر فن کار ہندوستان لے آئے۔ یوں انہوں نے ہندوستانی تہذیب، ثقافت اور تمدن کو پھلنے پھولنے کے نادر مواقع فراہم کیے۔اسے پہلے سے زیادہ پُرکشش اور دلکش بنا دیا۔

انگریزوں کا طرز عمل تو بالکل مختلف رہا۔ وہ ہندوستانی باشندوں سے دور ہی رہے۔ ان کی توجہ کا مرکز یہ امر رہا کہ وہ کون سے طریقے ہیں جن کی مدد سے ہندوستانی دولت سمیٹ کر برطانیہ بھجوا دی جائے۔ حد یہ ہے کہ ہندوستان میں تعینات انگریز افسر اپنی 80 فیصد تنخواہ انگلستان بھجوا دیتے تھے۔ مغل بادشاہ ملبوسات، عطریات اور زیورات کی صنعتوں کے سرپرست تھے۔ انگریز مگر یہ اشیا خریدنا نہیں چاہتے تھے۔ اسی لیے مغل حکومت کے خاتمے سے یہ صنعتیں بھی زوال پذیر ہوگئیں۔ اسی طرح مغل حکمران موسیقاروں، شاعروں، لکھاریوں کی سرپرستی کرتے تھے۔ مغل حکومت مٹ جانے سے علوم و فنون پر بھی زوال آگیا۔ کسی انگریز نے ہندوستان میں سرمایہ نہیں لگایا۔ سبھی اسے واپس برطانیہ بھجواتے اور وہاں اپنی جائیدادیں بناتے رہے۔

سوال: آپ کا کہنا ہے کہ انگریز نے ہندوستان کو جمہوریت کا جو تحفہ دیا، اس کی وجہ سے یہاں کئی خرابیوں نے جنم لیا۔ اس بابت کچھ بتائیے۔
جواب: انگریز دور حکومت میں انتظامیہ (افسر شاہی) سب سے طاقتور تھی۔ وجہ یہ کہ انتظامیہ کا بڑا حصّہ انگریز افسروں پر مشتمل تھا۔ یہ انتظامیہ پہلے پہل مقامی راجائوں، سرداروں ،جاگیرداروں وغیرہ کی شراکت سے مملکت کا نظم و نسق چلاتی اور عوام کو کنٹرول کرتی رہی پھر بیسویں صدی کے اوائل سے پارلیمنٹ بنادی گئی۔ اس کے ارکان بذریعہ الیکشن منتخب ہوتے تھے۔لیکن اصل طاقت انگریزوں ہی کے ہاتھوں میں رہی۔ وہ جاتے جاتے اقتدار مقامی جاگیرداروں اور اشرافیہ کے حوالے کرگئے جو بذریعہ الیکشن پارلیمنٹ میں پہنچنے لگے۔ مگر جلد ہی پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے مابین اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی جس کی وجہ سے حکمران صحیح طرح حکومت نہیں کرسکے۔ بدانتظامی کا دور دورہ رہا اور کرپشن رواج پاگئی۔ اب لوگ انسانیت کی خدمت کرنے نہیں دولت کمانے سیاست میں آنے لگے۔ یوں پارلیمانی جمہوریت کرپشن، ذاتی و جماعتی مفادات اور سازشوں کا مرکز بن گئی۔

میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمانی جمہوریت چھوٹے ممالک کے لیے تو ٹھیک ہے جہاں ایک رکن اسمبلی کا حلقہ انتخاب چند ہزار لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس حلقے میں بسنے والے سبھی لوگ الیکشن لڑنے والوں کی شخصیت و کردار سے آگاہ ہوتے اور بہترین امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ مگر بھارت اور پاکستان میں بھی ہر انتخابی حلقہ لاکھوں پر مشتمل ہے۔ اکثر اوقات ہر حلقے میں 95 فیصد لوگ امیدوار کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ یوں جرائم پیشہ افراد کو معزز شخصیت بن کر جیتنے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے، بھارتی پارلیمنٹ میں ایسے کئی امیدوار بیٹھے ہیں جن پر فوجداری مقدمے چل چکے۔

میرا خیال ہے کہ بھارت میں صدارتی طرز حکومت رائج ہونا چاہیے۔ اس طرز حکومت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ صدر ہی اپنے اچھے یا برے اقدامات کا ذمے دار ہوتا ہے۔ وہی اپنی ٹیم بناتا اور اپنے ویژن کے مطابق ملک چلاتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کی حکومت میں تو کھچڑی سی پکی ہوتی ہے۔ ہر وزیر اپنی اپنی بولی بولتا ہے اور جب کوئی بڑی خرابی جنم لے تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ کسے ذمے دار ٹھہرایا جائے۔ پھر صدر کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی شعبے کا اہل ترین، محنتی اور باصلاحیت فرد اپنا وزیر یا مشیر بنالے۔ پارلیمانی جمہوریت میں تو ارکان اسمبلی کے مابین عہدے پانے کی خاطر مقابلہ بلکہ کھینچا تانی شروع ہوجاتی ہے۔ اس سے حکومتی انتظام موثر انداز میں چلاتے ہوئے رکاوٹ درپیش رہتی ہے۔

پارلیمانی جمہوریت کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ عموماً مختلف سیاسی جماعتیں مل کر حکومت تشکیل دیتی ہیں۔ حکومت بنتے ہی اتحادی جماعتوں کے مابین پُرکشش عہدے پانے کی جنگ چھڑ جاتی ہے۔ جوڑتوڑ جنم لیتا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں ہونے لگتی ہیں۔ ایسے ماحول میں حکومت بھلا خاک ہوگئی؟ ہر کسی کو کرسیاں بچانے کی فکر لگی رہتی ہے۔ لہٰذا حکومت حکمران جوڑ توڑ کی سیاست سے پاک اور ذاتی یا گروہی مفاد کے لیے وفاداریاں بدلنے والوں کے رحم و کرم پر نہیںہوتا۔ لہٰذا اس کی پوری توجہ اچھا حکومتی نظام (گڈگورننس) کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔ یہ تو نریندرمودی کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی جماعت کو اکثریتی نشستیں مل گئیں ورنہ بھارتی سیاسی تاریخ سے عیاں ہے، بڑی جماعتیں حکومت بنانے کے لیے چھوٹی جماعتوں کی محتاج رہتی ہیں۔ وہ پھر ان کے ہاتھوں بلیک میل بھی ہوتی ہیں اور انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی چھوٹی جماعتوں کے مفادات پورے کرنے پڑتے ہیں۔

سوال: آپ روحانیت پر یقین رکھتے ہیں۔
جواب: جی ہاں۔ کائنات میں ایک عظیم ترین ہستی موجود ہونے کا خیال بچپن سے مجھے میرے حواس پر چھایا ہے۔ یہ ہستی پُراسرار، ناقابل رسائی، تصّور سے ماورا اور ہماری پہنچ سے باہر ہے۔ انسانوں کا ہر گروہ مگر اس تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی نے اسے انسانی صورت شکل دے دی، کوئی اسے نور سمجھتا ہے، بعض کے نزدیک وہ سفید ڈاڑھی والا بوڑھا ہے تو دیگر اسے سولی پر چڑھا دیکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام حقیقت پانے کی کوششیں ہیں جسے حقیقی زندگی میں ہم ابھی تک ڈھونڈ نہیں پائے۔ لیکن سچ تک رسائی کی زبردست سعی ہی ہم انسانوں کو حیوانوں سے ممتاز اور علیحدہ کرتی ہے۔

سوال: آپ کبھی ایسی مصیبت یا مشکل کا شکار ہوئے کہ خدا سے ناراض ہوگئے؟
جواب: کبھی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسان کو اپنے مصائب اور مشکلات کا ذمے دار خدا یا قسمت کو نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ اکثر اوقات مشکلیں انسان کے اپنے بداعمال کا ردعمل ہوتی ہیں۔ تب اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ مشکل سے کیسے نکلا جائے؟ تب خدا کے حضور دعا مانگنی چاہیے کہ وہ مدد کرے اور حفاظت بھی کرتا رہے۔

سوال: آپ تحریر و تقریر میں دلنشیں اور پُراثر الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ کا یہ نادر ذخیرہ آپ کے پاس کہاں سے آیا؟
جواب: میں پانچ سال کا تھا کہ کتابیں رسالے پڑھنے لگا۔ مطالعے کی عادت رفتہ رفتہ میرے لیے نشہ بن گئی۔ اس زمانے میں ٹی وی بہت کم دیکھا جاتا تھا۔ پھر کمپیوٹر تھا نہ موبائل فون، لہٰذا میں فارغ وقت کا بیشتر حصہ مطالعہ کرتے ہی گزارتا۔ کتابوں اور رسالوں نے مجھے تفریح ہی فراہم نہیں کی بلکہ میری تعلیم و تربیت میں بھی حصہ لیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مطالعہ کرنا نت نئی باتیں سیکھنے اور جاننے کا بہترین ذریعہ ہے۔ n

محمد رفیع پسندیدہ گلوکار
سوال: آپ فلم سے شغف رکھتے ہیں؟
جواب: میرے والدین انگریزی یا ملیالم فلمیں دیکھتے تھے۔ جب میں نئی دہلی کے کالج میں داخل ہوا تو بالی وڈ فلموں میں دلچسپی لینے لگا۔ مجھے یاد ہے، جب کوئی اچھی ہندی (اردو) فلم لگتی، تو میں رات کو اپنے دوستوں کے ساتھ ’’پُھٹا‘‘ کھاتا اور اسے دیکھنے پہنچ جاتا۔ جوانی میں ’’ارادھنا‘‘ اور ’’جوانی دیوانی‘‘ میری پسندیدہ فلمیں تھیں۔ تاہم میں ہر قسم کی فلمیں دیکھ لیتا تھا تاکہ اپنے زاویہ نظر کو وسیع کرسکوں۔اس زمانے میں راجیش کھنہ، ششی کپور اور سنجے خان میرے پسندیدہ ہیرو تھے جبکہ ممتاز، سائرہ بانو، زینت امان اور پروین بابی کو بطور ہیروئن پسند کرتا تھا۔ 1960ء اور 1970ء کے عشروں کے گانے کمال کے ہیں۔ آج بھی فارغ وقت میں اسی زمانے کے گانے سنتا ہوں۔ محمد رفیع میرے من پسندگلوکار ہیں۔ان کے گانوں کا شیدائی ہوں۔

زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ
سوال: آپ کی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جسے آپ اب تک نہیں بھلا پائے؟
جواب: میں 1981ء سے 1984ء تک سنگاپور میں یونائیٹڈ نیشنز ہائی کمشنر فار ریفیوجیز پروگرام کا سربراہ رہا۔ ان دنوں ویت نام سے ہزارہا لوگ کشتیوں پر سوار ہوکر بیرون ممالک جارہے تھے۔ بہت سے ویت نامی سنگاپور بھی آئے۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کی حیثیت سے میری اولیّں ذمے داری یہ تھی کہ میں پناہ گزینوں کی حفاظت کروں اور ان کے حقوق کا خیال رکھوں۔ سنگاپور بحریہ کے اہلکار سمندر میں پھنسے ویت نامی خشکی پر لاتے تھے۔ میں پھر ان سے بات چیت کرتا، انہیں سہارا دیتا اور ریفیوجی کیمپ بھجوا دیتا۔

مجھے ایک ویت نامی مہاجر خاندان کی داستان آج بھی یاد ہے۔ وہ خاندان ماں باپ اور دو چھوٹے بچوں پر مشتمل تھا۔ وہ ایک کشتی پر سوار ہوکر ویت نام سے نکلے۔ راہ میں کشتی کا انجن خراب ہوگیا۔ چناں چہ وہ سمندر کے دھارے پر بہنے لگی۔ پندرہ دن بعد غذا کا ذخیرہ ختم ہوگیا مگر مسافروں کو زمین نظر نہیں آئی۔جلد ہی بچے بھوک سے بے تاب ہوگئے۔ بارش کا پانی ان کی پیاس تو بجھا دیتا مگر بھوک کیسے مٹتی؟ آخرماں نے اپنی انگلیاں کاٹیں اور ان سے بہتا خون نیم بے ہوش بچوںکو پلا دیا تاکہ ان میں کچھ توانائی پیدا ہو اور وہ زندہ رہ سکیں۔ماں باپ کی دعائیں رنگ لائیں اور سنگاپور کے ایک جہاز نے انہیں بچالیا۔ تب چاروں جی بھوک کے باعث اتنے نڈھال تھے کہ چل بھی نہ سکے۔ ہم نے انہیں ہر ممکن مدد فراہم کی۔ میں نے پھر کوشش کرکے انہیں امریکا بھجوا دیا۔ رونگی کے وقت انہوں نے اتنے جذباتی انداز میں میرا شکریہ ادا کیا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سچ ہے، دکھی انسانیت کی خدمت کرکے انسان کو جو اطمینان اور دلی سکون ملتا ہے، وہ بڑی سے بڑی دولت بھی نہیں دے سکتی۔

حسد کا جین ہی نہیں!
سوال: یہ بتائیے، آپ کس سے حسد کرتے ہیں؟ جواہرلال نہرو، امیتابھ بچن، پی جی وڈہائوس یا گبرئیل گارشیا مارکیز سے؟
جواب: قدرت نے مجھے حسد کا جین دیئے بغیر پیدا کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا ہر انسان کو ترقی کرنے کے بہترین مواقع عطا کرتی ہے اور کسی کی کامیابی پر میں حسد نہیں رشک محسوس کرتا ہوں۔ لہٰذا آپ کے سوال کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ میں حاسد بالکل نہیں۔ بہرحال میں ذہانت کے سبب جواہر لال نہرو، آواز اور پُرکشش شخصیت کے باعث امیتابھ، حس مزاح کے لیے وڈ ہائوس اور گارشیا مارکیز کا اس لیے دل سے احترام کرتا ہوں کہ انہوں نے زندگی کے عام حالات و واقعات کو اپنے زور قلم سے سحر انگیز اور جادوئی بنادیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔