اندازِ مسیحائی

رئیس فاطمہ  ہفتہ 7 جولائی 2012
رئیس فاطمھ

رئیس فاطمھ

جب مقصد پیسہ کمانا ہی ٹھہرا تو پھر ’’ملک و قوم کی خدمت‘‘ کا راگ الاپنے کی کیا ضرورت ہے؟ ’’مسیحائی‘‘ کی آڑ میں دولت کے انبار جمع کرنا ہر لحاظ سے قابلِ مذمت ہے۔ آپ کا ٹارگٹ اور آپ کا نصب العین اگر صرف اور صرف پیسہ کمانا ہی ہے تو یہ کام تو ہیروئن بیچ کر بھی کر سکتے ہیں اور صرف یہی کیوں؟ آپ پارٹی عہدے داران کی خوشامد کیجیے، لینڈ مافیا سے ساز باز کر لیجیے۔ عورتوں کی خرید و فروخت کا کام کر لیجیے، مساج گھر کھول لیجیے کہ ان تمام کاموں میں بے حد پیسہ ہے۔ لیکن آپ تو چاہتے ہیں کہ دولت بھی ملے، عزت بھی ملے اور سوسائٹی میں آپ سر اٹھا کر بھی چل سکیں۔ سو عزت تو استاد بن کر بھی حاصل کی جا سکتی ہے کہ اس گلے سڑے معاشرے میں اب بھی استاد کی عزّت کی جاتی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس پیشے میں پیسہ نہیں ہے۔ (سوائے کوچنگ مافیا کے ٹھیکے داروں کے) سو آسان طریقہ یہ کہ ڈاکٹر بن جائو، کیونکہ بظاہر مقدس پیشے کے اندرونِ خانہ بڑا بہیمانہ ہے۔ چند با ضمیر ڈاکٹروں کو چھوڑ کر اکثریت کا دامن ہر طرح سے داغ دار ہے۔ اندر ہی اندر بہت سے لوگ مسیحائی کے نام پر انسانی جانوں کا قتل عام کرتے ہیں کہ اس کام میں پیسہ بہت ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحبہ جن کا تعلق ایک بڑی سیاسی پارٹی سے تھا وہ ’’ابارشن‘‘ کروانے میں خاصی مشہور تھیں۔ آج بھی ملک کے بیشتر ڈاکٹرز بڑی کامیابی سے خواتین کو بچّے کی جنس کے بارے میں آگاہ کر کے ان کی مشکل آسان اور اپنا بینک بیلنس بڑھا رہے ہیں۔

پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال نے مجھے یہ سب کہنے پر مجبور کیا۔ ٹھیک ہے آپ کچھ بھی مطالبات کر سکتے ہیں، لیکن آپ کارخانے کے مزدور نہیں ہیں جو ہڑتال کر کے سڑکوں پر نکل آئیں کہ اس ہڑتال اور تالہ بندی سے صرف کارخانے کے مالک کا نقصان ہوگا۔ بلکہ آپ نے سفید کوٹ پہنا ہوا ہے۔ آپ نے اپنے پیشے کے تقدس کا حلف اٹھایا ہے۔ اگر واقعی آپ کے پیچھے کچھ نادیدہ قوتیں کارفرما نہیں اور آپ ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ کے مصداق مالی فوائد کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں تو اس کا مہذب، شائستہ اور صحیح طریقہ یہ تھا کہ آپ میں سے دو ڈاکٹرز روزانہ چھ چھ گھنٹے کی علامتی بھوک ہڑتال کرتے اور بقیہ تمام ڈاکٹرز اپنے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج درج کرواتے۔ علامتی بھوک ہڑتال کا دورانیہ اس وقت تک بڑھتا رہتا جب تک آپ کے جائز مطالبات پورے نہ ہو جاتے۔ آپ نے تو ہائی جیکروں والا طریقہ اپنالیا۔ کالم لکھتے وقت تک 23 افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں، کیا یہ قتلِ عمد نہیں؟ اور آپ سب کو اس کی سزا نہیں ملنی چاہیے؟ کیونکہ سرکاری ملازمت میں ہڑتال غیر قانونی ہوتی ہے، لیکن افسوس کہ آپ نے چند مفاد پرست عناصر کا آلۂ کار بن کر عوام کی ہمدردیاں کھو دی ہیں۔ اب آپ کی ہڑتال کی ساری حقیقت کُھل چکی ہے۔ بہت سے دیگر ڈور ہلانے والوں کے اس کھیل میں آپ کے سینئر ڈاکٹرز بھی شامل ہیں، کیونکہ اگر آپ کی تنخواہیں اور مراعات بڑھیں گی تو ان کے اسکیل بھی ریوائز ہوں گے، کیونکہ طریقہ یہی ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں گریڈ 17 کے لیکچررز کے پے اسکیل اساتذہ کے احتجاج کے بعد ریوائز ہوئے تو ہم سینئرز کو بڑی تشویش ہوئی کہ ہم جو 18 گریڈ میں ہیں، ان کی اور گریڈ 17 کی تنخواہوں میں برائے نام فرق رہ جائے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ نوٹیفکیشن آنے کے بعد تمام گریڈوں کے لیے نیا ریوائزڈ پے اسکیل آ گیا اور سینئرز کی تنخواہوں اور مراعات میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا اور جس تاریخ سے 17 والوں کے پے اسکیل بڑھائے گئے تھے اسی تاریخ سے سب کو بقایا جات بھی ادا کر دیے گئے۔ سینئر ڈاکٹرز چونکہ جانتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا اس لیے انھوں نے پردے کے پیچھے رہ کر سارا کھیل رچایا تا کہ ’’ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے۔‘‘
ڈاکٹرز کی کمائی کے ذریعے کیا کیا ہیں، یہ اب کم از کم سول سوسائٹی کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔ عام طور پر فارماسیوٹیکل کمپنیاں ڈاکٹروں کو اپنی دوائوں کو مریضوں کے نسخوں میں شامل کرنے پر کتنی پُرکشش مراعات اور پیکیج دیتی ہیں۔ غیر ملکی دوروں، قیمتی کاروں اور دیگر مالی فوائد سے لے کر اور بھی ’’بہت کچھ‘‘ ان مراعات میں شامل ہوتا ہے۔ تقریباً سب ہی ڈاکٹرز ان مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کے عوض وہ اپنی من پسند دوا ساز کمپنیوں کی مہنگی سے مہنگی دوائیں تجویز کر کے مریضوں کی کھال کھینچتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ من پسند میڈیکل اسٹورز کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ البتہ چند نیک نام ڈاکٹرز مریضوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالنا پاپ سمجھتے ہیں، جیسا کہ ڈاکٹر احسان الحق جو کبھی میڈیکل ریپ سے یہ وعدہ نہیں کرتے کہ وہ ہر قیمت پر صرف انھی کی کمپنی کی دوائیں نسخوں میں تجویز کریں گے اسی لیے ان کے کلینک کے باہر میڈیکل ریپ کا ہجوم نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب ہیجڑوں کا علاج بالکل مفت کرتے ہیں۔ وہ اس ٹھکرائی ہوئی مخلوق کی بہت عزّت کرتے ہیں۔ یہی ان کا بڑا پن ہے۔ لیکن ڈاکٹر کیپٹن احسان الحق جیسے ڈاکٹرز اس ملک میں کتنے ہوں گے؟ اکثریت ان پر مشتمل ہے جو اپنے پیشے کو ایک منافع بخش کاروبار سمجھتے ہیں۔

عام طور پر جن ڈاکٹروں کی پریکٹس زیادہ چلتی ہے وہاں صبح سے میڈیکل ریپ اپنے اپنے بیگ لٹکائے کھڑے نظر آتے ہیں۔ پچھلے ماہ ایک ایسے ہی ڈاکٹر صاحب نے مجھے یورک ایسڈ کے لیے ٹیبلٹ دیں۔ یہ وہ ٹیبلٹ ہیں جو عام طور پر یورک ایسڈ کے مریضوں کو دی جاتی ہے اور ایلوپیتھک میں بہت کامیاب ہے۔ اس کی 30 گولیوں کے پیکٹ کی قیمت 120 روپے ہے۔ مجھے اس سے فائدہ بھی ہوا یہ 300 ملی گرام کی ٹیبلٹ تھیں۔ لیکن اگلی دفعہ انھی ڈاکٹر صاحب نے مجھے یورک ایسڈ کنٹرول کرنے کے لیے ایک دوسری دوا دے دی اور کہا کہ یہ پہلے والی سے زیادہ پراثر ہے۔ یہ 20 گولیاں 40mg کی قیمت 330/- روپے تھی۔ میں نے دوا لے لی۔ لیکن اسی دوران ایک جاننے والے ڈاکٹر نے بتایا کہ دونوں کا فارمولا ایک ہی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا یہ دوا تجویز کرنے کی وجہ دوا ساز کمپنی کی مذکورہ ڈاکٹرپر عنایت ہے۔ آپ یقین کیجیے کہ میں نے اپنا شک دور کرنے کے لیے اس میڈیکل اسٹور کے مالک سے حقیقت معلوم کی تو مسکرا کر بولے ’’جی ہاں دونوں ایک ہی ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا کہ پھر انھوں نے مجھے کیوں نہ بتایا جب کہ ہم تمام دوائیں اور جنرل اسٹور کے آئٹم انھی سے خریدتے ہیں۔‘‘ تب بھی وہ زیرِ لب مسکراتے رہے۔ اسی دوران مغرب کی اذان ہوگئی، وہ مسجد کی جانب دوڑے تو میں نے سوچا کہ وہ کتنے اچھے مسلمان ہیں؟ دراصل مہنگی دوائوں کی فروخت سے ان میڈیکل اسٹورز کو بھی ٹھیک ٹھاک فائدہ ہوتا ہے، جو کسی بھی ڈاکٹر کے کلینک کے ساتھ ہوتے ہیں، کیونکہ میڈیکل ریپ جن مہنگی دوائوں کی سفارش ڈاکٹروں سے کرتے ہیں وہی دوائیں آس پاس کے میڈیکل اسٹورز پر بھی مہیا کرتے ہیں۔ آپ آزما لیجیے، بعض ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوائیں صرف ان کے کلینک کے قریبی میڈیکل اسٹورز پر ہی ملتی ہیں۔

اس کے علاوہ ڈاکٹروں کا مختلف حیلے بہانوں سے بلاوجہ کے ٹیسٹ اپنی منتخب کردہ لیبارٹری سے کروانے کی ٹیکنیک بہت پرانی ہے۔ یا تو یہ لیبارٹری خود ان کی اپنی ہوتی ہے یا پھر وہ اس میں برابر کے حصّہ دار ہوتے ہیں۔ افسوس کہ طب جیسا مقدس پیشہ اب ہڑتالیوں کے ہاتھوں میں ہے جو ایک طرح سے وائٹ کالر جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سخت موقف اختیار کرے، اور ینگ ڈاکٹرز کو بھی انسان دوستی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔