کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 3 نومبر 2019
ملتا نہیں جہان سے میرا مزاج اور ہے
۔ فوٹو: فائل

ملتا نہیں جہان سے میرا مزاج اور ہے ۔ فوٹو: فائل

غزل


یاد آیا مجھے وہی ہو تم
ہاں مری زندگی رہی ہو تم
میں تمہیں سوچ ہی رہا تھا اور
سامنے میرے آ گئی ہو تم
میں نے تم کو بہت تلاش کیا
آج کل مجھ کو ڈھونڈتی ہو تم
کون ہے تم کو دیکھنے والا
کس کی خاطر بھلا سجی ہو تم
ہو اجازت تو ایک بات کہوں
مجھ کو اچھی بہت لگی ہو تم
تم کو چُھو کر تو ایسا لگتا ہے
جس طرح موم کی بنی ہو تم
(نوید انجم۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


ملتا نہیں جہان سے میرا مزاج اور ہے
تیرا اجالا اور ہے، میرا سراج اور ہے
مانا ترے دیار میں ملتی ہے ہر دوا مگر
میرے طبیب مان جا، میرا علاج اور ہے
مجھ کو خبر ہے چارہ گر میرا سفر ہے مختصر
یعنی مرے نصیب میں تھوڑا اناج اور ہے
بھیجا گیا زمین پر جیسے سزائیں کاٹنے
جانا ہے مجھ کو لوٹ کر، میرا سماج اور ہے
آنکھوں میں رات کاٹ کے کرتا نہیں عبادتیں
بندہ اسی خدا کا ہوں، میرا رواج اور ہے
(کاظم علی۔ بورے والا)

۔۔۔
غزل


چیخے ہیں نہ چلّائے ہیں نہ غم میں مرے ہیں
تُو چھوڑ گیا ہے تو فقط ہاتھ ملے ہیں
آپ آئے ہیں اڑتے ہوئے جیسے کہ ہَوا ہوں
اور ہم ہیں کہ ژولیدہ مو، بیمار کھڑے ہیں
اُس در پہ پہنچنے کا ارادہ تو کرو تم
دل میں جو محبّت ہو تو اسباب بڑے ہیں
راہی کوئی آیا ہے یہاں آج کہ پھر سے
کھنڈرات میں خاموش پڑے دیپ جلے ہیں
آئینۂ دل میں جو شفق پھول رہی ہے
یہ صبح ہوئی ہے نہیں خورشید ڈھلے ہیں
یک دم دلِ نالندہ مرا گنگ ہوا ہے
کس نے مری آنکھوں پہ رضا ہات دھرے ہیں
(احمد رضا۔ گجرات)

۔۔۔
غزل


یہ گونگی سڑکوں پہ شور کرتے اشارے چکر
یہ رسمی رشتے پہ خرچ ہوتے ادھارے چکر
بدلتے موسم کے سارے چہرے، تمہارے چہرے
گھڑی کی سوئی کے سارے چکر، تمہارے چکر
تمہاری جانب فقط سفر تھا، تھکن نہیں تھی
تھکن نہیں تھی تو بیٹھ کر بھی اتارے چکر
دو مختلف سمت بہتا پانی، تری کہانی
تُو ٹھیٹ گہری ندی ہے تیرے کنارے چکر
تمہارے در پہ ذلیل ہوتی ہماری دستک
تمہاری گلیوں میں خوار ہوتے ہمارے چکر
ہماری آنکھوں میں سانس لیتی اداسی راہب
ہمارے پاؤں کے آبلوں کو انگارے چکر
(عمران راہب۔ نوتک، بھکر)

۔۔۔
غزل


وہی بے وجہ سی اداسیاں، کبھی وحشتیں ترے شہر میں
تُو گیا تو مجھ سے بچھڑ گئیں، سبھی رونقیں ترے شہر میں
مِری بے بسی کی کتاب کا کوئی حرف تُو نے پڑھا نہیں
تجھے کیا خبر کہاں مر گئیں، مِری خواہشیں ترے شہر میں
سبھی ہاتھ مجھ پہ اٹھے یہاں، سبھی لفظ مجھ پہ کسے گئے
مِر ی سادگی کے لباس پر پڑی سلوٹیں ترے شہر میں
وہ جو خستہ حال غریب تھے، کہیں بستیوں میں مقیم تھے
انہیں کیا ہوا کہ وہ سہہ گئے سبھی تہمتیں ترے شہر میں
تُو بھی یادِ ماضی میں ہے مگر، کئی خواب اور بھی تھے عقیل
پھر یہ ہوا کہ بکھر گئیں، سبھی چاہتیں ترے شہر میں
(سید عقیل شاہ۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


ہے جب تک سانس باقی یہ اذیت مار دیتی ہے
محبت مر نہیں جاتی، محبت مار دیتی ہے
خدایا مفلسی پہ اپنی، میں نالاں نہیں لیکن
ترے قارون بندوں کی حقارت مار دیتی ہے
وہ جیسے کوئی گھر جلتا ہے اپنے ہی چراغوں سے
کچھ ایسے ہم شریفوں کو شرافت مار دیتی ہے
نہیں ہوتا ہے غیروں کو،کسی سے کوئی بھی ناتا
ہمیشہ اپنے لوگوں کی عنایت مار دیتی ہے
(عقیل نواز۔ اسکردو)

۔۔۔
غزل


اگر تم کو مجھ سے محبت نہیں ہے
بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
محبت میں ہوتا ہے جائز سبھی کچھ
نہیں اس میں کوئی صداقت نہیں ہے
مجھے تم سے کل بھی شکایت نہیں تھی
مجھے تم سے اب بھی شکایت نہیں ہے
میں اپنی زباں پر ہوں قائم ابھی بھی
مرے خون میں تو بغاوت نہیں ہے
ملو نہ ملو ہے یہ مرضی تمہاری
مگر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے
کسی کے لبوں کی ہنسی چھین لینا
کسی کو رلانا شجاعت نہیں ہے
وہ میرا تھا لیکن مرا ہو نہ پایا
کوئی اس سے بڑھ کر اذیت نہیں ہے
ہے سلمان ہر جا ہی نفرت کدورت
کہیں بھی عقیدت، مؤدت نہیں ہے
(سلمان منیر خاور۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


اسے اس بات کی یوں تو خبر ہے
مگر انجان ہے، کیوں ہے، مگر ہے
لکیریں ہاتھ کی دیکھیں تو بولے
میاں تجھ پر محبت کا اثر ہے
میری جاں نے میرا دل توڑنے میں
کوئی باقی نہیں چھوڑی کسر ہے
تیری موجودگی تسلیم لیکن
دکھائی کیوں نہیں دیتا اگر ہے
میں شب بھر جاگتا رہتا ہوں احمد
مجھے اس کے بچھڑ جانے کا ڈر ہے
(احمد سمیع۔ اسکردو)

۔۔۔
غزل


درد نے چیخ کر کہا مجھ سے
کیا ترا دل نہیں بھرا مجھ سے
تُم جوانی کو کیوں نہیں سمجھے
پوچھ لے گا کبھی خدا مجھ سے
خود سے میں بات اب نہیں کرتا
میں ہوں ناراض اب سدا مجھ سے
ایک مہمان آیا تھا گھر میں
اور پھر مجھ کو لے گیا مجھ سے
رینگتے رینگتے ہی آیا ہوں
میں اٹھایا نہیں گیا مجھ سے
ہر کسی سے میں مسکرا کے ملا
اک یہی کام بس ہوا مجھ سے
خود کو میں مارنے لگا ہوں اب
اور تُو آ مجھے بچا مجھ سے
(زمان ہمدرد۔ نوشکی، بلوچستان)

۔۔۔
غزل


مجھ کو دم توڑتی تہذیب نے فتنہ جانا
غیر تو غیر تھے اپنوں نے بھی ایسا جانا
ہم نے رکھا نہ صحیفوں کے اصولوں کا بھرم
جانِ جاناں، تجھے اس رب سے بھی بالا جانا
دل محلے تھے خموشی کے لیے وقف شدہ
کچھ صداؤں کا مگر پھر بھی تھا آنا جانا
اپنی برباد شدہ روح میں خوشیوں کی رمق
جتنی کم تھی اسے اتنا ہی زیادہ جانا
زندگی خواب کی آغوش میں کٹ جانے دی
اور اس خوابِ پریشان کو اپنا جانا
(احسن منیر۔ شور کوٹ)

۔۔۔
غزل


دن رات ڈھل رہے ہیں، لمحات ٹل رہے ہیں
دھیرے سے زندگی کے صفحات جل رہے ہیں
ہر سو تمہاری صورت، ہر سو صدا تمہاری
کمرہ نہیں یہ میرا، جنات پل رہے ہیں
دیکھو تو یہ وہی ہیں، دشمن ہماری جاں کے
جو دوستوں کی صف میں حضرات کل رہے ہیں
نہ گفتگو کسی سے، نہ قہقہے، نہ خوشیاں
ہم چل رہے ہیں جیسے، حالات چل رہے ہیں
اپنے لہو سے میں نے ایسے دیے جلائے!
ایسے دیے جو وقتِ برسات جل رہے ہیں
چھوڑو یہ سب دلاسے، جاؤ یہاں سے جاؤ
اِس بے خودی کے اکثر، آفات حَل رہے ہیں
آباد تیرے جیسا یہ شہر ہو رہا ہے
میری طرح رضا یہ دیہات ڈھل رہے ہیں
(محمد رضا حیدری۔ حیدرآباد، سندھ)

۔۔۔
’’التجا‘‘


اک عجب کرب و بلا میں مبتلا ہے آدمی
پہلے کیا تھا آج کیا سے کیا ہوا ہے آدمی
اس قدر تذلیلِ انسانی کبھی دیکھی نہ تھی
آفتوں کا دور ہے، بکھرا ہوا ہے آدمی
ہر طرف شیطان کا پھیلا ہوا اک جال ہے
دیکھتا ہے تو بھی توکیسا ہمارا حال ہے
وحشتوں کا جال ہے اور ظلمتیں ہر سو عیاں
تیری ناراضی ہے یا دشمن کی کوئی چال ہے
پھر سے ہے انسانیت اس رہنما کی منتظر
روح تازہ بخش دے اس لاش کو جس کی نظر
اے ہمارے رب ہمارے حال پر تو رحم کر
چھوڑ کر ہم تیرا در جائیں بھی تو جائیں کدھر
رحم کر تُو یا الہی، ناتواں اس جان پر
اک کرم کی کر نظر تو حضرتِ انسان پر
بندۂ عاجز کی تُو سن التجائیں میرے رب
ہم نہیں قابل کہ لکھیں مولا تیری شان پر
(امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد)

۔۔۔۔
غزل


جھوٹے اس سنسار کے پیچھے بھاگ پڑے
مصنوعی کردار کے پیچھے بھاگ پڑے
ماں کی آنکھیں رستہ تکتی رہتی ہیں
بچے کاروبار کے پیچھے بھاگ پڑے
سورج سَر پر آیا تو سب راز کھلے
سائے تک دیوار کے پیچھے بھاگ پڑے
دل والوں کی ریت نرالی دیکھی ہے
یار کی خاطر ہار کے پیچھے بھاگ پڑے
صاحب ہم بے مول ہیں ہم سے دور رہیں
جائیں! کیوں بیکار کے پیچھے بھاگ پڑے
ہم جیسوں کی مرضی کب تک چلنی تھی؟
آخر میں اس یار کے پیچھے بھاگ پڑے
راشد میرے ساتھ ہی رہتے، اچھا تھا
تم تو زندہ مار کے پیچھے بھاگ پڑے
(راشد علی مرکھیانی۔ کراچی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔