پاکستانی ٹیم ڈری ہوئی کیوں ہے؟

سلیم خالق  اتوار 3 نومبر 2019
یہ نہ بھولیں کہ ہماری ٹیم نمبر ون ہے اور اچھا پرفارم کر کے یہ پوزیشن پائی۔ فوٹو: فائل

یہ نہ بھولیں کہ ہماری ٹیم نمبر ون ہے اور اچھا پرفارم کر کے یہ پوزیشن پائی۔ فوٹو: فائل

’’ایک سگریٹ ملے گی‘‘ اچانک کسی  نے یہ کہا تو میں اور ساتھ موجود دونوں افراد چونک گئے، ان میں سے ایک نے اس لڑکے کو سگریٹ نکال کر دی تو وہ شکریہ ادا کر کے کہنے لگا کہ ’’شکل سے تو آپ لوگ پاکستانی لگتے ہیں میرا تعلق ممبئی سے ہے اور میں پاکستان کے ڈرامے بہت شوق سے دیکھتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا، ویسے بیرون ملک میں نے ہمیشہ ایک بات نوٹ کی ہے کہ چاہے انگلینڈ ہو یا آسٹریلیا دونوں پڑوسی ممالک کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔

سڈنی میں جس طرح سے اس نے سگریٹ مانگی کراچی میں تو ایسے اچانک کسی کو کوئی مخاطب کرے تو یہی آواز آتی ہے کہ ’’چل موبائل نکال‘‘، میں اس وقت اوپرا ہاؤس میں موجود تھا، آپ سڈنی جائیں اور ہاربر و اوپرا ہاؤس نہ دیکھیں تو دورئہ آسٹریلیا مکمل ہی نہیں ہوتا، ہر بار کی طرح اس بار بھی میں یہ اہم مقامات دیکھنے کیلیے گیا، شام کو کام سے فارغ ہو کر بیٹھا تھا کہ سڈنی پولیس میں ملازمت کرنے والے میرے دوست رفیق چوہدری کا فون آیا کہ میں تو دفتر میں مصروف ہوں،2 دوستوں کو بھیج رہا ہوں وہ تم کو سیر کرانے لے جائیں گے۔

تھوڑی دیر بعد وہ آ گئے اور ہم ان مقامات پر پہنچ گئے، اس سے قبل جب کبھی میں یہاں آیا دن کا وقت ہوا کرتا تھا، اس بار رات کو سیر کرنے کا لطف ہی الگ تھا، زبردست مناظر دکھائی دیے، یہاں کی نیوایئرنائٹ دنیا بھر میں مشہور ہے، ایک بار مجھے بھی وہ زبردست آتش بازی دیکھنے کا موقع ملا تھا، اوپرا ہاؤس کا ڈیزائن بڑا منفرد ہے اور اسے دیکھنے دور دور سے لوگ یہاں آتے ہیں۔

خیر یہاں سے واپس جا کر میں سو گیا، اگلی صبح  ناشتہ کرتے ہی سڈنی کرکٹ گراؤنڈ چلا گیا جہاں پاکستانی ٹیم کی پریکٹس جاری تھی، عرفان سمیت جو کھلاڑی فیلڈنگ میں تھوڑا کمزور تھے ان کو علیحدہ سے مشقیں کرائی گئیں، مصباح الحق بیٹسمینوں اور وقار یونس بولرز کے ساتھ محنت کرتے رہے، بعد میں نیٹ سیشن ہوا جس میں دونوں کوچز نے بولنگ بھی شروع کر دی۔

مصباح کبھی میڈیم پیسر تو کبھی اسپنر بن جاتے اور پھر غلط شاٹ کھیلنے پر بیٹسمین کو قریب جا کر سمجھاتے،قریب سے شارٹ پچ گیندوں کا سامنا کرنے کی بھی پریکٹس کرائی گئی، اسی اثنا میں اورنج شرٹ پہنے کوئی صاحب آتے دکھائی دیے، غور کیا تو پتا چلا وہ تو ڈائریکٹر انٹرنیشنل ذاکر خان ہیں، ان کو جب موقع ملے ’’پیڈ ہالی ڈیز‘‘ سے لطف اندوز ہونے چلے جاتے ہیں۔

عمران خان کی دوستی اور دبنگ شخصیت ہونے کی وجہ سے لوگ ان سے ڈرتے ہیں اور خلاف کوئی بات نہیں کرتا، نیٹ سیشن کے دوران شائقین بھی موجود تھے جو کھلاڑی بیٹنگ پریکٹس کر کے واپس آتا وہ  اس کے ساتھ تصاویر بنواتے، سیکیورٹی آفیسر  کرنل (ر) عثمان  پریکٹس کے دوران مستعدی سے فرائض نبھا رہے تھے۔

،آسٹریلیا جیسے ملک میں ان کا کام آسان ہو جاتا ہے البتہ انگلینڈ میں زیادہ محتاط رہنا پڑتا ہے کیونکہ وہاں اسپاٹ فکسنگ کیس بھی ہو چکا،اس دوران اینکر زینب عباس بھی وہاں آ گئیں،ان سے تھوڑی بات چیت ہوئی، میں اس سے پہلے ورلڈکپ کور کرنے انگلینڈ گیا تھا وہاں پاکستانی صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی مگر آسٹریلیا تاحال میرے سوا کوئی نہیں آیا ہے۔

پریکٹس کے بعد بابراعظم کی  پریس کانفرنس ہوئی، انھوں نے اپنی قیادت اور  ٹیم کی تیاریوں پر اظہار خیال کیا،حیران کن طور پر بورڈ نے ایک مترجم کی خدمات حاصل کی ہیں حالانکہ ٹیم کے ساتھ میڈیا منیجر بھی موجود ہیں،پریس کانفرنس میں وہ صاحب بابر کے اردو میں جوابات کا انگریزی ترجمہ کرتے رہے، بعد میں گراؤنڈ کے اندرٹرافی کی رونمائی ہوئی۔

پاکستان میں ایسے مواقع پرکپتانوں سے زیادہ اسپانسرز کے نمائندے نمایاں ہوتے ہیں مگر شکر ہے آسٹریلیا میں ایسا نہیں تھا، اس  کے بعد بابر اعظم اور آسٹریلوی قائد ایرون فنچ خاصی دیر تک گراؤنڈ میں ہی بات چیت کرتے دکھائی دیے، اس وقت میں یہ سوچ رہا تھا کہ بابر اچھی خاصی انگلش بول لیتے ہیں، مترجم کو ساتھ بٹھانے کی بورڈ کو ضرورت کیا پڑ گئی، اگر وہ کہیں پھنس جاتے تو میڈیا منیجر مدد کر دیتے، مگر پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے، یہاں کوئی  ٹیم آفیشل کبھی اپنے کسی دوست کو ماہر نفسیات بنوا دیتا ہے تو کہیں کوئی اور کسی اور کے کام آ جاتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ سپورٹنگ اسٹاف کے تقرر میں بھی دوستیاں نبھائی گئی ہیں، اسٹیڈیم میں ہی وقار یونس سے ملاقات ہوئی  انھوں نے ٹیم کیلیے عشائیہ رکھا تھا وہاں آنے کی دعوت دی،سڈنی کرکٹ گراؤنڈ سے میں واپس ہوٹل آ گیا، پھر رات کو وقار یونس کے گھر پر ڈنر میں شرکت کی جس میں پوری قومی کرکٹ ٹیم آئی ہوئی تھی،واپس آکر میں نے پھر موسم کی رپورٹ چیک کی،اتوار کو بارش کا 95 فیصد امکان ہے، دیکھتے ہیں کیا ہوگا، ویسے میچ کیلیے آسٹریلیا میں مقیم پاکستانیوں میں زبردست جوش وخروش پایا جاتا ہے۔

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی انھوں نے بتایا کہ ساڑھے تین سو ٹکٹ خریدے ہیں اور ان کی فیملی ودوست ساتھ جائیں گے، میلبورن و دیگر شہروں سے بھی لوگ سڈنی آ رہے ہیں،واقعی باہر جا کر وطن کی محبت اور بڑھ جاتی ہے، میں نے آج پاکستانی ٹیم کی پریکٹس دیکھ کر یہی اندازہ لگایا کہ نہ صرف کھلاڑی بلکہ کوچ مصباح الحق بھی انجانے خوف کا شکار ہیں، انھیں یہی دھڑکا لگا ہے کہ سری لنکا کو بری طرح ہرانے والی آسٹریلوی ٹیم نجانے کیا کر دے گی، اگر یہ سوچ رکھی تو مثبت نتائج سامنے آنا دشوار ہوگا۔

یہ نہ بھولیں کہ ہماری ٹیم نمبر ون ہے اور اچھا پرفارم کر کے یہ پوزیشن پائی، اب اسے برقرار رکھنے کیلیے ٹاپ اسکواڈ جیسی ہی کارکردگی دکھانا ہو گی، اگر خدانخواستہ سیریز کے تینوں میچز میں شکست ہو گئی تو پھر پہلی پوزیشن بھی ہاتھ سے جائے گی، لہذا گرین شرٹس کو اب بہت زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ٹیم میں کئی نوجوان کرکٹرز موجود ہیں اور اگر سب صلاحیتوں کے مطابق  کھیلے تو آسٹریلیا کو اس کے اپنے گراؤنڈز میں بھی ہرانا ناممکن نہیں ہوگا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کرسکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔