پاک آسٹریلیا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سیریز، زور بازو آزمانے کا وقت آگیا

عباس رضا  اتوار 3 نومبر 2019
پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ابھی تک 20 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گئے ہیں جن میں گرین شرٹس کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ابھی تک 20 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گئے ہیں جن میں گرین شرٹس کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ فوٹو: فائل

انگلینڈ میں ورلڈکپ ختم ہونے کے بعد چلنے والی تبدیلیوں کی لہر ہیڈکوچ مکی آرتھر اور معاون سٹاف کے بعد کپتان سرفراز احمد کو بھی منظر عام سے غائب کرچکی ہے، سینئرز شعیب ملک اور محمد حفیظ بھی مستقبل کے پلان سے باہر ہوتے نظر آرہے ہیں۔

قیادت کا ہما غیر متوقع طور پر بابر اعظم کے سر پر بیٹھ چکا، وکٹ کیپر بیٹسمین کے طور محمد رضوان کی سکواڈ میں انٹری ہوچکی، ایسا محسوس ہورہا کہ سری لنکا کیخلاف ہوم ٹی سیریز کے بعد پریشانی کا شکار ہونے والی ٹیم منیجمنٹ نے ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق کی سربراہی میں جو فیصلے کئے، ان پر سابق کرکٹرز اور شائقین نے حیرت کا اظہار کیا لیکن اس کیساتھ یہ توقع بھی کی جارہی ہے کہ حالیہ تبدیلیاں قومی ٹیم کے لیے خوش آئند ثابت ہوں اور دورہ آسٹریلیا میں مہمان کرکٹرز سخت جان کینگروز کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے سیریز میں کامیابی حاصل کریں۔

گرین شرٹس کو گھر میں کلین سوئپ کرنے والی سری لنکن ٹیم کیساتھ یہی سلوک کینگروز نے اپنے ہوم گراؤنڈز پر کیا ہے، دورہ پاکستان سے انکار کرنے والے سینئرز کی واپسی کے باوجود آئی لینڈرز چاروں شانے چت ہوئے،گرین شرٹس غیر یقینی فتوحات اور غیر متوقع شکستوں کی شہرت رکھتے ہیں،سری لنکا کیخلاف سیریز میں ناکامیوں کو پس پشت ڈال کر کینگروز کیخلاف نئے عزم کیساتھ میدان میں اترتے ہوئے کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔

ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کے لیے اہم ترین پہلو یہ ہوگا کہ کپتان بابر اعظم کی انفرادی کارکردگی کیسی رہتی ہے،گزشتہ کچھ عرصہ میں کپتان سرفراز احمد بطور بیٹسمین اچھا پرفارم نہیں کرپارہے تھے، تینوں فارمیٹ میں قیادت کا بوجھ اٹھاتے، ان کی کمر بل کھاتی جارہی تھی لیکن پاکستان نے 34میں سے 29میچ جیتے اور عالمی نمبر پوزیشن پر قبضہ جمائے رکھا،اس کی ایک بڑی وجہ بابر اعظم کی کارکردگی بھی تھی،نوجوان بیٹسمین بطور اوپنر تسلسل کیساتھ رنز بناتے ہوئے ٹیم کو اچھی بنیاد فراہم کرتے رہے،اسی وجہ سے وہ اب بھی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں سرفہرست ہیں۔

آسٹریلیا کیخلاف سیریز بابر اعظم کا پہلا تجربہ ہے جس میں انہیں بیٹنگ کیساتھ قیادت کا بوجھ بھی اٹھانا ہے،اس دباؤ میں اگر ان کی ذاتی کارکردگی کا گراف نیچے آیا تو پاکستان کرکٹ کا بڑا نقصان ہوگا،کپتان اور ٹیم کا پرفارم کرنا اس لئے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا میلہ آئندہ سال اکتوبر میں آسٹریلیا میں ہی سجایا جائے گا،پاکستان کے لیے تجربات کے چند مواقع موجود ہیں،کینگروز کیخلاف 3میچز کے بعد جنوری میں بنگلہ دیش کی 3مقابلوں میں میزبانی کرتے ہوئے بھی کمبی نیشن بہتر بنانے میں مدد ملے گی،پی سی بی مارچ میں 3ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے جنوبی افریقہ کو دورہ پاکستان پر بلانے کے لیے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔

جولائی اگست میں نیدرلینڈ کیخلاف 3ون ڈے اور 2ٹی ٹوئنٹی مقابلے شیڈول ہیں،وہاں سے گرین شرٹس 3ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے انگلینڈ بھی جائیں گے،ستمبر میں پاکستان کو ایشیا کپ کی میزبانی کرنا ہے،اس دوران ون ڈے میچ کھیلے جائیں گے، محدود اوورز کی ان سرگرمیوں کیساتھ چند ٹیسٹ میچز بھی شیڈول ہیں لیکن ان کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی تیاریوں کا حصہ نہیں کہا جاسکتا،مشکل کنڈیشنز میں آسٹریلیا کیخلاف سیریز نہ صرف کہ کپتان بابر اعظم بلکہ دیگر چند کھلاڑیوں کے مستقبل کی راہوں کا بھی تعین کرے گی۔

کرکٹ آسٹریلیا الیون کیخلاف ٹور میچ میں بولرز نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حریف کو 134تک محدود رکھا، کسی وقت پاکستان کا ٹرمپ کارڈ سمجھے جانے والے شاداب خان اپنی افادیت کھورہے تھے، اسی لئے بیک اپ کے طور عثمان قادر کا انتخاب کیا گیا، ٹور میچ میں انہوں نے 3وکٹیں حاصل کرتے ہوئے فارم میں واپسی کا اشارہ دیا، ایک عرصہ بعد کم بیک کرنے والے محمد عرفان بھی ردھم میں نظر آئے،عماد وسیم نے بھی بہتر بولنگ کی،وہاب ریاض اور محمد عامر نے بھی آخری اوورز میں بڑے سٹروکس نہیں لگنے دیئے، ہدف اتنا آسان تھا کہ بیٹسمینوں کو زیادہ دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

خوشی کی بات ہے کہ فخرزمان اور بابر اعظم نے ٹیم کی ضرورت کے مطابق کھیلتے ہوئے اچھا آغاز فراہم کیا، فیصل آباد میں قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے دوران اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرپانے والے حارث سہیل نے بھی چند دلکش سٹروکس کھیلے،تکنیکی طور پر بہتر بیٹسمینوں میں شمار ہونے والے کرکٹر کی کینگروز کیخلاف پرفارمنس پاکستان اور ان کے اپنے کیریئر کے لیے بھی اہم ہوگی،ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں اچھی فارم میں نظر آنے والے آصف علی کو بیٹنگ پریکٹس کا موقع نہیں ملا لیکن جارح مزاج کینگرو پیسرز کو دباؤ میں لانے کے لیے ان کو بطور پاور ہٹر اپنی صلاحیتیں ثابت کرنا ہوگی۔

اگرچہ پاکستان نے کرکٹ آسٹریلیا الیون کیخلاف کامیابی حاصل کی لیکن یہ امر قابل غور ہے کہ نوآموز بولرز کا سامنا کرتے ہوئے ہدف 13 گیندیں قبل عبور کیا،آج کھیلے جانے والے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں مضبوط میزبان ٹیم کے مچل سٹارک اور پیٹ کمنز سمیت ان فارم پیسرز کے سامنے 150کا ٹوٹل حاصل کرنا بھی آسان نہیں ہوگا، کپتان ایرون فنچ، ڈیوڈ وارنر اور سٹیوسمتھ کی موجودگی میں پاکستانی بولرز کو بھی رنز کا سیلاب روکنے میں مشکل ہوگی،مہمان فیلڈرز کو بھی جان لڑانا ہوگی، آسٹریلیااور نیوزی لینڈ کی پچز پر گھاس کے نیچے مٹی میں ریت زیادہ ہونے کی وجہ سے فیلڈنگ کرتے ہوئے ٹانگوں پر سخت دباؤ اعصاب کا امتحان لیتا ہے۔

فٹنس کا معیار ذرا سا بھی کم ہو تو گیندیں ہاتھوں سے پھسلنے لگتی ہیں،بیٹسمینوں کو رنز چرانے کا موقع ملتا ہے، کیچز ڈراپ ہونے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں،سخت کوشش کے باوجود بھی پاکستان کے بیشتر کرکٹرز فٹنس کے اس معیار پر پورا نہیں اترتے جو بیشتر دیگر ٹیموں نے وضع کررکھا ہے،ٹی ٹوئنٹی میچز میں تیز کرکٹ بیٹسمینوں، بولرز اور فیلڈرز سب کا کڑا امتحان لیتی ہے،ایک غلطی میچ کا پانسہ پلٹ دینے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے، پاکستان ٹیم کو تینوں شعبوں میں کھیل کا معیار برقرار رکھتے ہوئے فتوحات کا راستہ بنانا ہوگا۔

پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ابھی تک 20 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گئے ہیں جن میں گرین شرٹس کا پلڑا بھاری رہا ہے، پاکستان نے 12میں فتح حاصل کی، 7میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، ایک میچ ٹائی ہوا،آسٹریلیا میں دونوں ٹیمیں صرف ایک بار مقابل ہوئی ہیں،کینگروز نے سخت مقابلے کے بعد صرف 2رنز سے فتح حاصل کی تھی،127کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے پاکستان ٹیم 9وکٹ پر 125رنز بناسکی تھی،گزشتہ پانچوں میچ گرین شرٹس نے جیتے ہیں،ان میں سے 2فتوحات زمبابوے میں کھیلی جانے والی سہ ملکی سیریز میں تھیں، یواے ای میں گرین شرٹس نے اپنی پسندیدہ کنڈیشنز میں 3-0 سے کلین سوئپ کیا تھا، بہرحال یہ کامیابیاں تاریخ کا حصہ بن چکیں،اب نئے سیریز اور نیا امتحان ہے،آسٹریلوی ٹیم کے بیٹسمینوں اور بولرز کی پوزیشنز مستحکم اور سب کو اپنے رول کا اندازہ ہے۔

دوسری جانب پاکستان ٹیم ایک بار پھر تجرباتی مراحل سے گزرتے ہوئے بہتر کمبی نیشن کی فکر مندی میں مبتلا ہے،گرین شرٹس کے لیے مہم جوئی مشکل ضرور ہے لیکن کھلاڑیوں نے ذہنی مضبوطی دکھائی تو شائقین کی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب ہوسکتی ہے،پاکستان ٹیم غیر ملکوں خاص طور پر آسٹریلیا میں شکست کے خوف کا شکار ہوکر جیتی بازیاں ہارتی رہی،ورلڈکپ 1992میں سوچ اور نتیجہ دونوں مثبت رہے،اس بار بھی منفی خیالات کو جھٹک کر میدان میں اترنا ہوگا۔

اسکواڈ کی آسٹریلیا روانگی سے قبل پریس کانفرنس میں ہیڈکوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق نے کہا تھا کہ آگ کا مقابلہ آگ سے ہی کیا جاسکتا ہے، جارحانہ کرکٹ کھیلے بغیر کینگروز کو مات نہیں دی جاسکتی، حریف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مثبت سوچ کیساتھ میدان میں اتریں گے، شائقین منتظر ہیں کہ سابق کپتان نے جس عزم کا اظہار کیا، اس کا عملی اظہار میدان میں بھی نظر آئے، اگر پاکستان سیریز جیتنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو بابر اعظم کے اعتماد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔