بچے مٹی اور لکٹری کے کھلونوں سے نامانوس ہونے لگے

ذوالفقار بیگ  اتوار 3 نومبر 2019
400روپے میں مٹی کے100کھلونے تیار کرکے 50 روپے تک بیچتا ہوں، بھلوال کا ہنر مند۔ فوٹو: فائل

400روپے میں مٹی کے100کھلونے تیار کرکے 50 روپے تک بیچتا ہوں، بھلوال کا ہنر مند۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: دنیا بھر میں مٹی اور لکٹری سے تیار کردہ کھلونوں کی تاریخ قدیم ترین ہے، دنیا کے ہر ملک میں اس رسم و رواج کے مطابق کھلونے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ علاقائی ثقافت کو آئندہ آنے والی نسلوں تک زندہ رکھا جاسکے، وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے کھلونوں میں بھی تبدیلی آگئی، اب مارکیٹیں غیر ملکی کھلونوں سے بھری پڑی ہیں، جہاں جدید اور انگلش فلموں کے کردارروں پر مشتمل کھلونے فروخت کیے جارہے ہیں۔

آج کل بغیر تار کے ریموٹ کنٹرول گاڑیاں اور جہاز، ناچنے اور گانے والی گڑیاں اور انتہائی مہارت سے بنائے گئے بچوں کے پستول، بندوقیں اور کلاشنکوف اور ر ملکی کھلونوں کی بھر مار ہے جس کے باعث بچے مٹی اور لکٹری کے کھلونوں سے نامانوس ہونے لگے، شہروں میں رہنے والے 3 سال سے 5 سال تک کے بچے ان کھلونوں سے نامانوس ہوتے جا رہے ہیں،جب ان سے جب کھلونوں کے بارے میں معلوم کیا تو انھوں نے مٹی کے کھلونوں کے بارے میں لا علمی کا اظہار کیا۔

مومن، ابراہیم ، حسن رضا اور عبد اللہ عظام کا کہنا ہے میں نے زندگی میں کبھی مٹی سے بنے کھلونے نہیں دیکھے، غیر ملکی کھلونوں میں نئے ماڈلز آتے ہیں جن سے کھیل کر خوب لطف اندوز ہوتے ہیں، مٹی کے کھلونے دیہات میں اب بھی دستیاب ہیں لیکن پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور قوت خرید نہ ہونے کی وجہ سے غریب بچے کھلونوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

بھلوال شہر سے تعلق رکھنے والے ہنر مند ذوالفقار کا کہنا ہے کہ مٹی سے بنے کھلونے تیار کرنا ہمارا خاندانی کام ہے،تین سو سے چار سو روپے میں سو کھلونے تیار کیے جاتے ہیں ان میں ہاتھ سے چلنے والی گاڑی، ڈرم اورگھوڑے کا ماڈل شامل ہیں۔

ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ گزشتہ دس برسوں سے راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں اور کھلونوں کی تیاری میں استعمال ہونے والا سامان بھلوال سے خرید کر لاتا ہوں، 20 سے50 روپے میں کھلونا فروخت کرتا ہوں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔