تماشائے اہل کرم

رفیع الزمان زبیری  پير 4 نومبر 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

رات کے بارہ بج چکے تھے۔ ابھی مجھے دو کہانیاں لکھنا تھیں اور ایک اداریہ۔ ایک سوال نامے کے جوابات بھی تیار کرنے تھے اور یہ سب کچھ اگلے روز اشاعت کے لیے دینا تھا۔ اس کے علاوہ ایک نئی کتاب کی ورق گردانی باقی تھی۔ ہمیشہ کی طرح وقت کم تھا اور کام زیادہ۔

میں نے کہانی لکھنے کے لیے کاغذوں کا دستہ سامنے رکھا۔ جب ذہن میں کسی کہانی کا موضوع واضح ہوکر نہ ابھرا تو جیب سے نوٹ بک نکالی جو ایسے موقعوں پر اکثر کام آتی ہے۔ کاغذ قلم سامنے رکھے، دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر سوچنا شروع کیا، پھر ایک دم نیند کا جھونکا آیا۔ ادھر آنکھ لگی اور ادھر خواب آنے شروع ہوگئے۔ کیا دیکھتا ہوں میں کسی دوسرے ملک میں ہوں۔ ایک بڑی میز کے گرد کئی لوگ بیٹھے ہیں۔

اچانک ایک شخص مجھے خوش آمدید کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔ ’’ہم آپ سے آپ کے ملک کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتے ہیں‘‘ اس شخص کا سوال سن کر میں دھک سے رہ گیا۔ پھر اپنے آپ کو تسلی دی کہ ڈرو مت آخر خواب ہی تو ہے۔ تم تو خواب دیکھ رہے ہو۔ تمہارا جواب پیچھے وطن میں کون سنے گا۔ چنانچہ میں نے کہا، اچھا جناب پوچھیے۔ اس نے کہا ’’اچھا تو یہ بتائیے کیا آپ کا ملک واقعی پس ماندہ ہے؟‘‘

یہ سوال سن کر میں نے سوچا، اس سوال کا کیا جواب دوں، اگرکہتا ہوں کہ ملک ترقی یافتہ ہے تو سراسرجھوٹ بولتا ہوں۔ اگر مان لیتا ہوں کہ پس ماندہ ہے تو وطن واپس جاتے ہی مادر وطن کو غیروں کی نظروں میں ذلیل کرنے کے الزام میں دھر لیا جاؤں گا۔ آخر فیصلہ کیا کہ جھوٹ بول دیناہی بہتر ہے۔ میں نے کہا،کون کہتا ہے پس ماندہ ہے، سراسر بکواس کرتا ہے جو یہ کہتا ہے۔ ہم ہرگز پس ماندہ نہیں۔ ہم تو بہت ترقی یافتہ ہیں۔میری زبان سے یہ سن کر وہ لوگ حیران نظر آنے لگے۔ آپس میں سرگوشیاں ہوئیں۔

پھر ایک شخص نے پوچھا،’’کیا آپ کے ہاں بعض شہر ایسے بھی ہیں جہاں بجلی نہیں ہے؟‘‘ میں نے دل میں کہا، بڑے بدمعاش ہیں یہ لوگ۔ سچ بولوں تو وطن پہنچتے ہی بڑے گھرکا مہمان بن جاؤں، اگر منفی جواب دوں تو جھوٹ پکڑا جائے گا۔ میں نے جواب دیا، جی نہیں ہمارے تمام شہروں، قصبوں اورگاؤں میں بجلی ہے۔ وہ سن کر بولے، ویری گڈ، لیکن سنا ہے آپ کے ہاں بجلی بڑی مہنگی ہے۔ بھلا فی یونٹ کیا قیمت ہوگی؟ میں نے کہا ’’فی یونٹ بجلی؟ جی، ہمارے ہاں بجلی فی یونٹ مفت ہے۔‘‘ ’’گڈ، ویری گڈ‘‘ وہ بولے۔ (میں بڑا خوش ہوا کہ میں نے غیروں کی نظر میں مادر وطن کی عزت بلند کردی۔ بڑا مزہ آجائے اگر میرا یہ انٹرویو اپنے ہاں اخبارات میں شایع ہوجائے۔)

ایک صاحب بولے ’’سنا ہے آپ کے ہاں رہائشی مکانوں کی بہت قلت ہے،کرائے بہت زیادہ ہیں، متوسط طبقے کے لوگوں کی تنخواہ کا بیشتر حصہ کرائے میں چلا جاتا ہے‘‘(میرے دل نے کہا، سچ کہہ دو۔ اب تو سچ بول دو۔ بھئی، تم تو خواب دیکھ رہے ہو۔ وطن میں تمہارا جواب کون سنے گا) میں نے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور پھیکی سی ہنسی ہنستے ہوئے حاضرین کو جواب دیا۔ ’’ہاہا۔۔۔۔توگویا ہمارے دشمن آپ کو خاصی مضحکہ خیز باتیں بتاتے رہتے ہیں۔ نہ مکانوں کی قلت ہے نہ کرائے زیادہ ہیں۔‘‘

ایک صاحب نے سوال کیا’’سنا ہے آپ کے عوام کی گزر بسر بڑی مشکل سے ہوتی ہے، خاص کرکم آمدنی والے لوگوں کی حالت تو بہت ہی دگرگوں ہے۔ متوسط طبقہ روز بہ روز ختم ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

میں نے کمال اعتمادی سے یہ الزام بھی مسترد کردیا۔ بھئی بڑے ہی جھوٹے لوگ ہیں جو ہمارے بارے میں اس قسم کی بے بنیاد افواہیں اڑاتے رہتے ہیں۔ محترم حضرات! ہمارے عوام کو تو معلوم ہی نہیں کہ گزربسرکی تنگی کسے کہتے ہیں۔ وہ جب کبھی اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں ملک کے لوگوں کو یہ مصیبت در پیش ہے تو انھیں وہاں کے باشندوں کی حالت پر افسوس ہوتا ہے۔ انسانی ہمدردی اسی کا تو نام ہے۔ جہاں تک متوسط طبقے کا تعلق ہے، ہمارے اس طبقے کے لوگ ماشا اللہ خوش وخرم ہیں۔

انھوں نے کہا ’’لیکن ہم نے تو سنا ہے کہ آپ کے ہاں بے روزگاری کا دور دورہ ہے۔ مزدور پریشان ہے۔‘‘یہ سنتے ہی میں غصے سے چلایا، ’’دیکھئے حضرات! آپ میری بات پر یقین کریں گے یا ہمارے تخریب کار دشمنوں کی باتوں پر۔ ہمارے ہاں مزدوروں تک کا معیار زندگی بہت بلند ہے۔‘‘

ایک صاحب نے سوال کیا ’’اچھا بتائیے آپ کے ہاں تعلیم کا کیا حال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی فیصد آبادی بالکل ان پڑھ ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’بھئی! یہ بھی خوب رہی۔ آپ لوگ یہ من گھڑت باتیں کہاں سے اکٹھی کر لائے ہیں۔ جناب عالیٰ، ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ اب تو بعض لوگوں نے تنگ آکر پڑھنا لکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ جب ایک چیز بہت عام ہوجائے تو اس کی قدر نہیں رہتی۔ ہماری تین سو فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے۔ وہ یوں کہ ہر شخص تین گنا زیادہ علم حاصل کرلیتا ہے۔ ہمارے تمام پروفیسر، ادیب اور صحافی پڑھ بھی سکتے ہیں اور لکھ بھی لیتے ہیں۔ اسکولوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ ہمیں نئی سڑکیں بنانے کے لیے اکثر اسکولوں کی عمارتیں منہدم کرنی پڑتی ہیں۔‘‘انسان کبھی کبھی نیند میں پرندوں کی طرح اڑتا بھی ہے۔ مجھے بھی جان چھڑانے کا واحد طریقہ یہی نظر آیا۔ میں نے اڑنے کے لیے بازو پھیلائے مگر پورا زور لگانے کے باوجود اس بھاری بھرکم جسم کو زمین سے نہ اٹھا سکا۔ اب سوال آیا۔ ’’کہتے ہیں تمہارے ملک کی اقتصادی حالت بڑی ناگفتہ بہ ہے۔ بجٹ ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے۔ تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘

میں پسینے میں شرابور ہو رہا تھا۔ بوکھلا کر بے ساختہ بول اٹھا، ’’آخر یہ خواب کبھی ختم ہوگا کہ نہیں؟‘‘ جواب ملا ’’جب تک سچ نہیں بتاتے خواب جاری رہے گا۔‘‘میں نے کہا، بھائی صاحب! آپ نے غلط سنا، ہماری اقتصادی حالت اتنی درخشاں ہے کہ وزیر اقتصادی امور کی آنکھیں ہمیشہ چندھیائی رہتی ہیں۔‘‘ اس پر وہ بولے ’’اچھا توگویا آپ کو بیرونی امداد کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ ہم یہاں آپ کے ملک کی مالی امداد کے تخمینے کا جائزہ لینے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ آپ کو اسی لیے زحمت دی تھی۔ چونکہ آپ کو کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔ اس لیے آپ جاسکتے ہیں۔‘‘

اب بھید کھلا کہ دراصل بات کیا تھی۔ مجھے حکومت نے بیرونی امداد کی وکالت کرنے یہاں بھیجا تھا۔ میں گھبرا کر چلایا ’’کیا کہا، بیرونی امداد؟ آپ لوگوں نے یہ بات مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی؟ میں آپ کے تمام سوالوں کے جواب اس کے مطابق دیتا۔‘‘

’’بائی بائی! خدا حافظ!‘‘ کہہ کر وہ سب لوگ نکل گئے۔ میں نے خوف زدہ ہوکر خواب میں رونا شروع کردیا۔ زندگی میں پہلی دفعہ غیر ملکی امداد حاصل کرنے کا موقع ہاتھ لگا تھا۔ ان کاٹھ کے الوؤں کو بڑی آسانی سے پھانسا جاسکتا تھا، مگر افسوس میں نے نادانی میں یہ سنہری موقع گنوا دیا محض اس ڈر سے کہ کہیں ملک کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا مجرم ٹھہراکر دھر نہ لیا جاؤں۔میں اسی سوچ میں تھا کہ آنکھ کھل گئی۔ ابھی صبح نہیں ہوئی تھی۔ آنکھوں کو چھوا تو پتا چلا کہ واقعی روتا رہا ہوں۔

آنسو پونچھے اور لیمپ جلا کر یہ ڈراؤنا خواب سپرد قلم کرنے بیٹھ گیا۔یہ تحریر جو آپ نے پڑھی ترکی کے عظیم طنزنگار عزیزنہ سن کی ہے۔ اس کا اردو میں ترجمہ کرنل مسعود اختر شیخ نے کیا ہے جو ان کی کتاب ’’تماشائے اہل کرم‘‘ میں شامل ہے۔ کرنل صاحب نے ترکی زبان سیکھی، ایک لمبا عرصہ ترکی میں گزارا، ترک ادیبوں سے دوستی کی اور ترکی ادب سے اردو کے قارئین کو روشناس کرایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔