مولانا فضل الرحمن کی مزاحمتی سیاست

سلمان عابد  پير 4 نومبر 2019
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

مولانا فضل الرحمن مذہبی سیاست کی بنیاد پر اپنا سیاسی کارڈ کھیلنے کی خوب صلاحیت رکھتے ہیں۔ اقتدار کے کھیل میں شراکت داری کی حکمت کو وہ اپنی سیاسی ضرورت اورکنجی سمجھتے ہیں۔

2013 کے انتخابات سے لے کر 2018 تک مولانا سیاسی تنہائی کا شکار تھے۔2018 کے انتخابی نتائج نے مولانا کی انتخابی سیاست کو بہت پیچھے چھوڑ کر ان کے دکھ میں اور زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ مولانا اس وقت اسلام آباد میں حکومت مخالف سیاسی دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ عمران خان مستعفی ہوں اور نئے انتخابات کے لیے راستہ ہموا ر کریں۔ انھوں نے حکومت کو تین دن کا الٹی میٹم دیا ہوا ہے اور ان کے بقول اس کے بعد وہ آگے جانے سمیت تمام اقدامات اٹھانے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

یہ بات سمجھنی ہو گی کہ اگرچہ مولاناکا سیاسی ٹارگٹ عمران خان ہیں، لیکن ان کا مطالبہ عمران خان سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے جو ان کے بقول سیاسی میدان میں حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے اداروں کو بھی پیغام دیا ہے کہ وہ ان کے مطالبہ کی حمایت کریں۔ ماضی میں عمران بھی دھرنے کی سیاست کر چکے ہیں مگر وہ وزیر اعظم نواز شریف سے استعفی نہیں لے سکے تھے۔ اب مولانا بھی وہی کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر طاقت کے زور پر حکومت گرانے کا نتیجہ جمہوریت کی مخالفت میں زیادہ آتا ہے۔

مولانا کی سیاسی اور اخلاقی حمایت میں نواز شریف، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، اسفند یار ولی خان، محمود خان اچکزئی، آفتاب شیرپائو اور مولانا انس نورانی کھڑے ہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن طاقت کے زور پر حکومت گرانے میں مولانا کی حکمت عملی سے اختلاف کرتے ہیں۔ جب کہ اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی مولانا کے ساتھ ہیں جو حزب اختلاف کی تضاد ات پر مبنی سیاست کو نمایاں کرتی ہے۔

اسلام آباد میں سیاسی دربار اس کا کریڈیٹ مولانا کو جاتا ہے۔ کیونکہ عملی طورپر یہ اجتماع جے یو آئی کا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مولانا واقعی وزیر اعظم سے استعفیٰ لے لیں گے، بظاہر تو ممکن نظر نہیں آتا اور وہ کیا کارڈ کھیلیں گے جو ان کو محفوظ راستہ دے سکے گا۔مولانا فضل الرحمن کی سیاسی حکمت عملی میںمذہبی کارڈ بھی ایک بڑا ہتھیار ہے۔

ماضی میں مسلم لیگ ن اورایم ایم اے یا پاکستان قومی اتحاد یا اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست میں یہ جھلک نمایاں طو رپر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس بار بھی عمران خان کے خلاف مولانا فضل الرحمن نے مذہبی کارڈ بھی کھیلا ہے۔ بدقسمتی سے اس آزادی مارچ میں بھی یہ کارڈ موجود ہے اورپیپلز پارٹی سمیت مسلم لیگ ن بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کی حمایت یا اس پر خاموشی اختیار کر کے خود بھی اس کام میں شریک ہیں۔

یہ پہلو دلچسپی کا ہے کہ اس آزادی مارچ میں ہمیں مدارس اور مذہبی سیاست سے جڑے افراد ہی غالب نظر آئے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سمیت دیگر طبقات کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔ یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ یہ متحدہ حزب اختلاف کے بجائے یک جماعتی تحریک ہے اور اس میں دیگر مذہبی جماعتیں بھی کسی بھی طرح شامل نہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ دیگر مذہبی جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کی اس سیاسی مہم جوئی سے خود کو علیحدہ رکھا اور کہا کہ ہم اورہماری جماعت مولانا فضل الرحمن کی اس حکمت عملی یعنی حکومت گراو سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔مولانا فضل الرحمن نے یہ جو  نئے الٹی میٹم دیے ہیں۔

اول حزب اختلاف اجتماعی طور پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر سکتی ہے، دوئم پورے ملک میں شٹر ڈاون کی کال دی جا سکتی ہے، سوئم ملک کی بڑی شاہرائیں بند کی جا سکتی ہیں،  چہارم پورے ملک گیر حکومت مخالف تحریک میں جلسے جلوس کی مدد سے شدت پیدا کی جا سکتی ہے، پنجم ہم اس جلسہ گاہ سے آگے جانے کا بھی اعلان کر سکتے ہیں۔یقینی طور پر مولانا فضل الرحمن دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں کی مدد سے بہت کچھ کرسکتے ہیں اور بہت آگے تک بھی جا سکتے ہیں۔

لیکن ایک بات طے ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کسی بھی صورت میں مولانا فضل الرحمن کے کہنے پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان نہیں کریں گی، اور ایسا کرنا ان کے لیے سیاسی محاذ پر سیاسی خود کشی کے مترادف ہو گا۔ اسی طرح دونوں بڑی جماعتیں اب کسی بھی شکل میں حکومت مخالف تحریک کی عملی قیادت مولانا فضل الرحمن کو دے کر ان کے پیچھے نہیں کھڑی ہوں گی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی باڈی لینگویج بتا رہی ہے کہ ان کو عملی طور پر سیاسی محاذ پر دیگرحزب اختلاف کی جماعتوں سے جنگجو طرز کی حکمت عملی پر تعاون نہیں مل رہا ۔ جہاں تک شٹر ڈائون کا تعلق ہے یہ مکمل طور پر ممکن نہیں اور حال ہی میں کافی حد تک حکومت اور تاجروں کے درمیان بہت سے معاملات پر جو ڈیڈ لاک تھا اور وقتی طور پر ختم ہوا ہے اور وہ مولانا یا کسی اورسیاست میں آخری حد تک نہیں جائیں گے۔

یہ بات پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن کو بھی سوچنی ہو گی کہ انھوں نے جو حزب اختلاف کی سیاست میں ایک بڑا سیاسی خلا پیدا کیا اس کا نتیجہ عملاً مولانا فضل الرحمن کی تنہا سیاسی پرواز میں نظر آیا ہے۔ اگر حزب اختلاف کی سیاست کا ریموٹ کنٹرول مولانا فضل الرحمن کے پاس رہتا ہے تو اس کا نتیجہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی مزید سیاسی کمزور ی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ کیونکہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست سے اہم دو بڑی سیاسی جماعتوں کی اپنی سیاسی ساکھ کا ہے اور ان کے مقابلے میں مذہبی سیاست کا ابھرنا قومی سیاست  کے مفاد میں نہیں ہو گا۔

اس تناظر میں حکومت کا بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ جیسے اب تک اس آزادی مارچ سے سیاسی طور پر نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے اسی حکمت عملی کے تحت ہی اس مارچ سے پر امن طریقے سے نمٹ کر اسے ختم کرنا ہو گا، کیونکہ طاقت کا استعمال کسی بھی صورت میں حکومت کے حق میں نہیں ہوگا اور اس کا عملاً براہ راست فائدہ حزب اختلاف کو ہو گا جو خود حکومت کی کمزوری کا سبب بنے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔