غیرملکی اور اندرونی سرمایہ کاری مسلسل زوال پذیر

سلمان صدیقی  پير 4 نومبر 2019
گزشتہ مالی سال سرمایہ کاری 4 عشروں کی کم ترین سطح 15.4 فیصد پر آ گئی، اسٹیٹ بینک۔فوٹو:فائل

گزشتہ مالی سال سرمایہ کاری 4 عشروں کی کم ترین سطح 15.4 فیصد پر آ گئی، اسٹیٹ بینک۔فوٹو:فائل

کراچی: پاکستان میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری زوال کا شکار ہے۔

اقتصادی صورتحال پر اسٹیٹ بینک کی گذشتہ ہفتے جاری کردہ  سالانہ رپورٹ برائے 2018-19  کے مطابق 30 جون 2019 کو ختم ہونے والے مالی سال میں ملک میں سرمایہ کاری پچھلی چار دہائیوں کے مقابلے میں 3.3 فیصد کم ہوکر 15.4 فیصد پر آگئی۔ مرکزی بینک کے مطابق 1980ء اور 1990ء کے عشروں میں سرمایہ کاری کی شرح 18.7 فیصد تھی۔

رپورٹ کے مطابق مطلق اصطلاحات اور دیگر اُبھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ موازنے ، دونوں صورتوں میں سرمایہ کاری میں نمایاں کمی آئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی بینک کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق سرمایہ کاری کی موجودہ شرح برقرار رہی تو ملک کے لیے آنے والے تین عشروں میں مڈل انکم اسٹیٹس تک پہنچنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ اس کے لیے سرمایہ کاری کی شرح کم از کم 25 فیصد ہونی چاہیے جو اس وقت 15 فیصد ہے۔

صنعتکار نجی شعبے میں سرمایہ کاری میں کمی کو پچھلے 2 برسوں کے دوران شرح سود میں نمایاں اضافے (7.5  سے 13.25 فیصد ) اور روپے کی قدر میں کمی ( 47.5 فیصد) سے جوڑتے ہیں۔ تاہم اسٹیٹ بینک اور اس کے اعلیٰ حکام صنعتکاروں کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ زوال پذیر سرمایہ کاری کی وجہ ساختی مسائل جیسے نئے صنعتی یونٹ لگانے میں درپیش ہونی والی مختلف مشکلات جیسے زمین کا حصول، بجلی، گیس، پانی کے کنکشن، ٹیکس، کرپشن اور رشوت ستانی وغیرہ کو قرار دیتے ہیں۔ تاہم غیرملکی سرمایہ کاروں کے ایک نمائندے کی رائے بالکل مختلف تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ حکومت اور اس کے عہدے دار سرمایہ کاری کے لیے اپنے منصوبوں کی مناسب طور سے مارکیٹنگ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

نمائندے کے مطابق اگرچہ کچھ معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے جیسے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا مستحکم ہونا اور رواں مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نمایاں کمی۔ علاوہ ازیں بجلی کی دستیابی اور سیکیورٹی کی صورتحال بھی بہتر ہوئی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔