صنعت کاروں کیلیے جدید مشینری میں سرمایہ کاری ناگزیر ہوگئی

ایکسپریس ٹریبیون رپورٹ  پير 4 نومبر 2019
سیٹھ کلچر کی موجودگی میں تجربے کار انجینئرز اور قابل منیجرز کی گنجائش ہی نہیں۔ فوٹو:فائل

سیٹھ کلچر کی موجودگی میں تجربے کار انجینئرز اور قابل منیجرز کی گنجائش ہی نہیں۔ فوٹو:فائل

کراچی: دنیابھر میں صنعت کارزیادہ پروڈکشن کیلیے جدید مشینری میں بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں جبکہ پاکستانی صنعت کاروں کی اکثریت ایسا نہیں کرتی۔

پاکستان کی فیکٹریوں میں بہت پرانی جننگ مشین، ٹیکسٹائل پاور لومز، پرنٹنگ پریس، گرین ملنگ یونٹ اور لیدر پروسیسنگ مشین آج بھی زیراستعمال ہیں جس کے نتیجے میںصنعتی شعبے میں بہت زیادہ ویسٹ اور فی یونٹ کم ترین پیداوارحاصل ہورہی ہے۔ پرانی مشینری کو تبدیل کرنے کیلیے بروقت تجزیہ ضروری ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیٹھ کلچر رائج ہے جس میں تجربے کار انجینئرز اور قابل منیجرز کی گنجائش ہی نہیں بچتی یہاں ایک فرد کا فیصلہ ہوتاہے۔ صنعتی شعبے کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔

اعداد وشمار کے مطابق جننگ فیکٹریوں کی پیداوار کا تناسب پاکستان میں34فیصد جبکہ بھارت میں42فیصد ہے جبکہ ویسٹ کا تناسب پاکستان میں 8فیصد جبکہ بھارت میں6فیصد ہے۔ دیگر شعبوں کا جائزہ لیاجائے تو وہاں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔