اپوزیشن کی احتجاجی دھرنا.... سڑکوں کے بجائے پارلیمنٹ کا فورم استعمال کرنا چاہیے!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 4 نومبر 2019
’’سیاسی تجزیہ نگاروں اور قانونی ماہرین‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

’’سیاسی تجزیہ نگاروں اور قانونی ماہرین‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں 27 اکتوبر کو شروع ہونے والا اپوزیشن جماعتوں کا ’آزادی مارچ‘ 31 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچا جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے قائدین و کارکنان نے شرکت کی۔

یکم نومبر کو مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں وزیراعظم کو مستعفی ہونے کیلئے 2 دن کا الٹی میٹم دیا اور کہا کہ اگر انہوں نے استعفیٰ نہ دیا تو آزادی مارچ ڈی چوک تک جائے گا۔ اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و اپوزیشن لیڈقومی اسمبلی ر شہباز شریف ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ودیگر قائدین نے بھی خطاب کیا۔ اس معاملے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے گزشتہ دنوں ’’اپوزیشن کا احتجاجی دھرنااور موجودہ ملکی صورتحال ‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ’’ سیاسی تجزیہ نگاروں اور قانونی ماہرین‘‘ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جس وقت قارئین یہ فورم پڑھ رہے ہوں گے اس وقت تک دو دن کا الٹی میٹم ختم ہوچکا ہوگا لہٰذا اس فورم کی گفتگو کو اسی تناظر میں پڑھا جائے۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 چودھری غلام عباس (سینئر سیاستدان)

جب سیاسی جماعتیںغیر موثر ہوجائیں تو خطرناک صورتحال پیدا ہوجاتی ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ ہم سماج کو کس طرف لیجا رہے ہیں؟میرے نزدیک اس وقت پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں غیر موثر ہوگئی ہیں اور وہ اپنی کرپشن کی دلدل میں اس حد تک پھنس چکی ہیں کہ جائز تنقید سے بھی خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے اس فیصلے کو اپنے لیے غنیمت سمجھا ہے۔ آزادی مارچ کے فوائد نواز شریف اور آصف زرداری سمیٹ رہے ہیں اور یہ سب اپنے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال سے مولانا فضل الرحمن نے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور اب وہ اپوزیشن کی قیادت کر رہے ہیںیہ الگ بات ہے کہ اس کے اثرات منفی ہیں۔ معاشرے کو جو قوتیں پیچھے دھکیلنے کی طرف لے جا رہی ہیں انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس کے خطرناک پہلو بھی ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمن نے مذہبی کارڈ استعمال کیا تو حالات تحریک لبیک کے دھرنے سے بھی زیادہ خراب ہوں گے۔ مولانا کا احتجاج عوامی نہیں ہے۔ ان کے ساتھ صرف ایک مکتبہ فکر کے لوگ ہیں جبکہ عوام پسماندگی، محرومی، غربت، بے روزگاری و دیگر مسائل کے باوجود ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس عوام کا ایجنڈہ ہی نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کو کس نے روکا ہے کہ لاڑکانہ، تھر، کراچی و سندھ کی حالت بہتر نہ کریں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کو کس نے منع کیا تھا کہ وہ بے روزگار لوگوں کو ملازمتیں اور گھر نہ دیں، ان کی تو بڑی بڑی فیکٹریاں بن گئی، شوگر ملز بن گئیں مگر عوام تو اتنے امیر نہیں ہوئے۔ چینی کی قیمت بڑھتی ہے تو فائدہ سرمایہ داروں کو ہوتا ہے، اس پر نہ تو اپوزیشن سے آواز آتی ہے اور نہ ہی حکومتی ایوانوں سے۔ آج بھی تحریک کی گنجائش موجود ہے ، مگر بدقسمتی سے اس وقت کوئی بھی سیاسی قیادت عوام کی قیادت نہیں ہے، یہ ملک عوام کے لیے دوزخ جبکہ سرمایہ داروں کے لیے جنت بنا دیا گیا۔ مزدور کی محنت پر سرمایہ دار ایک سے دو فیکٹریاں لگا رہا ہے مگر وہ خود گھر کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہے۔ وزیراعظم عمران خان ’دو نہیں ایک پاکستان‘ کی بات کرتے ہیں۔میں سوال کرتا ہوں کہ 20 لاکھ ایکٹر رقبہ کے مالک کے نیچے کیڑوں کی طرح رینگتے ہوئے انسان ہوں گے تو ایک پاکستان کیسے بنے گا؟ جب تک بدترین جاگیر دارانہ نظام ختم نہیں کیا جائے گا تب تک ایک پاکستان نہیں بن سکتا۔ منی ٹریل طلب کرنے کا معاملہ درست ہے مگر ’جاگیر ٹریل‘ بھی طلب کرنی چاہیے۔ ناجائز قابضین اور ایسے جاگیر دار جنہیں غداری کی وجہ سے انگریز نے جاگیریں دیں، ان سے لے کر غرباء میں تقسیم کی جائیں اس سے نہ صرف معاشی حالت بہتر ہوگی بلکہ ایک پاکستان بھی بن جائے گا۔مولانا فضل الرحمن اس مسئلے پر بات کریں تو عوام ان کا ساتھ دیں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کے اندر کی دراڑوں کی وجہ سے مولانا کو فائدہ ہورہا ہے، خدانخواستہ اگر انہوں نے مذہبی کارڈ کھیلا تو یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ حکومت منتخب ہوکر آئی ہے لہٰذا اسے 5 سال مکمل کرنے چاہئیں ۔ اپوزیشن کو مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر احتجاج کے بجائے پارلیمینٹ کا فورم استعمال کرنا چاہیے۔

 ڈاکٹر اعجاز بٹ ( سیاسی تجزیہ نگار)

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کسی سیاسی جماعت نے کبھی بھی انتخابی نتائج کو خوش دلی سے تسلیم نہیں کیا بلکہ ہمیشہ دھاندلی کے الزامات لگائے گئے کیونکہ انہیں ملکی مفاد سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات عزیزہیں۔ آج حکومت احتجاج کے نقصانات پر بات کر رہی ہے مگر ماضی میں جب انہوں نے خود دھرنادیا تو 300 ارب کا نقصان ہوا، انہوں نے ہر چیز کو نظر انداز کیا، لوگوں کے معمولات زندگی متاثر ہوئے، چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا مگرتب انہیں معاشی نقصانات کا خیال نہیں آیا۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کے منفی رویوں کی وجہ سے آج ملکی حالات اور معیشت اس نہج پر پہنچی ہے اور سب ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔مولانا فضل الرحمن کے پاس پہلی مرتبہ کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے، وہ ایوان اقتدار سے باہر ہیں اور انہیں کوئی مراعات حاصل نہیں ہیں۔ واضح نظر آرہا ہے کہ ان کا ذاتی ایجنڈہ ہے۔ انہوں نے پہلے مذہبی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی مگر انہیں پذیرائی نہیں ملی۔ اب معیشت پر بات کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے کوئی ایجنڈہ دیا کہ کیسے معیشت ٹھیک کریں گے؟ دعووے عمران خان نے بھی بڑے بڑے کیے جو پورے نہیں کر پائے مگر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مزید وقت دیں۔ میرے نزدیک حکومت منتخب ہوکر آئی ہے لہٰذا اسے 5 برس مکمل کرنے چاہئیں اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔سیاسی انتشار سے ملک کا نقصان ہوگا۔ انہیں اس حد تک احساس نہیں ہے کہ ہم پر FATFکی تلوار لٹک رہی ہے۔ بھارت نے انصار الاسلام کی پریڈ کی ویڈیو کو ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں ہمارے خلاف استعمال کیا جس کے باعث اب ہم آئندہ برس تک گرے لسٹ میں ہی ہیں، اس سے ہماری معیشت کوشدید نقصان ہوااور مزید ہوگا۔ بھارت نے مولانا فضل الرحمن کے اقدام کو ہائی لائٹ کیا اور ابھی تک کر رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس مذہبی کارڈ میں دو موقف ہیں، ایک آسیہ مسیح کی رہائی اور دوسرا قادیانوں کا اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا ہے۔ آسیہ کو سپریم کورٹ نے رہا کیا تاہم اگر وہ یہاں مار دی جاتی تو دنیا میں ہمارا امیج مزید خراب ہوتا۔ اس سے بچنے کیلئے آسیہ کو بیرون ملک جانے دیا۔ قادیانی ماضی میں بھی عہدوں پر رہے ہیں ایسا صرف اس حکومت میں نہیں ہوا۔ میرے نزدیک مولانا فضل الرحمن کو اس حوالے سے پذیرائی نہیں ملی کیونکہ اگر یہ مذہبی مسئلہ ہوتا تو اس وقت مذہبی جماعتیں ان کے ساتھ ہوتی مگر بہت ساری مذہبی جماعتوں نے ان سے اختلاف کیا۔ بھارت نے کشمیر کی حیثیت بدل دی اورا س کے ٹکڑے کردیے، ان حالات میں ہمیں متحد ہوکر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا مگر ہمارے اندرونی انتشار سے کشمیر کاز کو نقصان جبکہ بھارت کو فائدہ ہوا۔ مولانا فضل الرحمن نے ماضی میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے صرف مراعات لیں اور کوئی کام نہیں کیا۔ اس وقت بھی ان کا کشمیر کاز سے کوئی تعلق نہیں بلکہ انہوں نے اس کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو ملکی مفاد نہیں بلکہ ذاتی مفاد عزیز ہے۔ ہم اس وقت مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں جس کا انہیں ادراک نہیں ہے، اپوزیشن جماعتوں کے اس دھرنے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ افسوس ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ ملکی مفاد کو نظر انداز کر کے اقتدار کی سیاست کو سامنے رکھ کر فیصلے کیے ہیں جس کا خمیازہ ہم  آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو دور سے ہوا جب انہوں نے ایوب خان کے خلاف احتجاج کیا اور آج تک جتنے احتجاج ہوئے ان کے نتائج اچھے نہیں ہوئے بلکہ ملک کو نقصان ہوا۔

اظہر صدیق ایڈووکیٹ (ماہر قانون )

ہمارے ہاں جمہوریت کا جو تصور ہے میں ا س سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ یہ عوام کی آواز نہیں ہے لیکن اگر مان بھی لیں تو پھر اسمبلیاں 5 برس کیلئے منتخب ہوتی ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ 5برس سے پہلے انہیں توڑنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ پہلے 58 (2B) تھا جو ایک میکانزم تھا کہ اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ حکومت آئین اور قانون کے مطابق کام نہیں کر رہی تو کیا کرنا ہے۔ 18 ویں ترمیم میں مزید بہتری آئی کہ جب اسمبلی تحلیل کرنا ہوگی تو معاملہ سپریم کورٹ کے پاس جائے گا اور عدالت دیکھے گی کہ الزامات ٹھیک ہیں یا غلط۔ اب آئین میں کسی بھی حکومت کو پانچ سال سے پہلے گھر بھیجنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر کسی حکومت کو گھر بھیجنا ہے توآرٹیکل 58 میں موجود ہے کہ وزیراعظم ہدایت دیں گے اور اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی۔اگر وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کریں گے تو میں پہلا شخص ہوں گا جو آئینی پٹیشن دائر کرے گا کیونکہ 5 برس سے پہلے حکومت گھر بھیجنے کا حق ہی نہیں ہے، اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے دیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ حل کیا ہے؟ اگر آپ کو وزیراعظم سے مسئلہ ہے تو آئین کے آرٹیکل 95 مطابق عدم اعتماد کا ووٹ لائیں اور سادہ اکثریت سے اسے گھر بھیج دیں۔ اگر صدر پاکستان پسند نہیں تو صدر کا مواخذہ کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر الیکشن پر تحفظات ہیں، اسے متنازعہ بنانا ہے تو آرٹیکل 227 کے تحت الیکشن پٹیشن دائر کی جاسکتی ہے مگر ابھی تک اپوزیشن کی جانب سے کوئی پٹیشن دائر نہیں کی گئی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف 4 حلقوں کیلئے الیکشن کمیشن میں گئی، پارلیمینٹ میں معاملہ اٹھایا اور سپریم کورٹ بھی گئے اور اس طرح بات آگے بڑھتی گئی۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد ان پر کام نہیں ہوتا، آئین میں ترمیم کے تحت سیاسی جماعتوں کو اس پر عمل کرنے کا پابند کیا جائے اور اگر وہ عمل نہ کریں تو انہیں گھر بھیج دیا جائے۔عمران خان اسمبلی سے باہر بطور اپوزیشن رہنما بہت باتیں کرتے رہے ہیں مگر اب انہیں وزیراعظم کے طور پر عمل کرنا ہوگا۔میں گزشتہ 18 برسوں سے عدالت میں آئینی درخواستیں جمع کر وا رہا ہوں مگر مہنگائی کم نہیں ہوئی۔ مہنگائی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ڈالر اس وقت ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ مہنگائی صوبائی سبجیکٹ ہے۔ اپوزیشن تنقید کر رہی ہے سوال یہ ہے کہ سندھ میں مہنگائی کم کیوں نہیں ہورہی؟ جب تک سیاسی قائدین اپنا رویہ تبدیل نہیں کریں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ماضی میں مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کا دھرنا رکوانے عدالت میں گئے تھے مگر یہ موجودہ حکومت کی نالائقی ہے کہ اس نے عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ اس دھرنے کے حوالے سے حکومت کو اپوزیشن سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ بتائیں ہم نے کہاں غلطی کی ہے اور اس دھرنے کا ایجنڈا کیا ہے۔افسوس ہے کہ ابھی تک پارلیمینٹ میں اس پر کسی بھی جماعت نے آواز نہیں اٹھائی۔ حکومت نے انہیں اسلام آباد تک کھلا راستہ دے کر غلطی کی ہے، انہیں سپورٹ کرنے والے بھی غلطی پر ہیں، اگرسڑکوں پر آنے سے اسمبلی تحلیل ہوگئی تو آئین ختم ہوجائے گا۔ مولانا فضل الرحمن کا حکومت کو گھر بھیجنے کا طریقہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔اب ان کا لب و لہجہ تبدیل ہوچکا ہے۔ لبرل طبقہ جو کل تک ان کے خلاف تھا آج ان کے ساتھ ہے، یہ سب مفادات کی گیم ہے جس کا نقصان ملک کو ہورہا ہے، پارلیمینٹ کو اس میں کردار ادا کرنا چاہیے لیکن اگر سیاسی طاقتیں پیچھے رہ گئیں تو ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا اور ملک انتہا پسندی کی طرف چلا جائے گا۔

 ڈاکٹر عاصم اللہ بخش (سیاسی تجزیہ نگار)

سیاست میں منزل اقتدار یا اس میں حصہ ہوتا ہے اور اسی کے گرد ساری چیزیں گھومتی ہیں۔ انتخابات، حکومت، اپوزیشن، حکومتی اقدامات، اپوزیشن کی تنقید اور احتجاج سب اسی کا حصہ ہیں۔ سیاست میں دوسری اہم چیز ’ٹائمنگ‘ ہے۔ ہر سیاسی قدم کا ایک وقت ہوتا ہے اور صحیح وقت پر درست قدم اٹھانا ہی سیاسی بصیرت ہے۔احتجاج کی باتیں تو 2018 ء کے عام انتخابات کے فوری بعد شروع ہوگئی تھیں مگر اس وقت تبدیلی کی لہر کی وجہ سے احتجاج کا درست موقع نہیں تھا۔ اس وقت لوگوں کی تحریک انصاف سے امید بلندی پر تھی اور انہیں متحرک کرنا شاید آسان نہیں تھا۔ کسی بھی تحریک کیلئے عوام کی سپورٹ اہمیت رکھتی ہے۔ عوام چاہے زیادہ تعداد میں باہر نہ نکلیں مگر ان کی رائے معنی رکھتی ہے جو میڈیا میں جھلکنے لگتی ہے۔ ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پارلیمینٹ جانے کا فیصلہ کیا اور پھر مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے امیدواروں کو حلف اٹھانے کا کہا۔ اس کے بعد تحریک انصاف اپنے وعدوں اور دعووں میں ناکام ہونے لگی، معیشت پر دباؤ بڑھ گیا اور اس خراب کارکردگی کی بناء پر احتجاج کی گنجائش پیدا ہوگئی۔ اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمن یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی جماعت کو سائڈ لائن کر دیا گیا ہے لہٰذا انہیں سیاسی میدان میں آنا ہے۔ اس لیے انہوں نے معاشی معاملات، عوامی مسائل و دیگر ایشوز پر اپنا بیانیہ ترتیب دیا ، ملک کے مختلف صوبوں میں ملین مارچ کیے جن میں انہوں نے اپنی طاقت ظاہر کی۔ میرے نزدیک مولانا فضل الرحمن یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی، دو بڑی جماعتیں ان کا ساتھ دیں گی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2018ء کے بعد پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت مل رہی تھی لہٰذا وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے تھے جس سے ان کے مفادات کو نقصان ہو۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کو یہ امید تھی کہ پنجاب میں ان کی پوزیشن مضبوط ہے لہٰذا کسی بھی وقت پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ اس لیے وہ بھی ایسا کام کرنے کو تیار نہیں تھے جس سے سسٹم کے ساتھ معاملات میں تلخی پیدا ہو۔ اب بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے محض حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ میرے نزدیک مولانا فضل الرحمن اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی جماعت کے نظم و ضبط سے ثابت ہوا کہ وہ تشدد کی طرف مائل نہیں ہیں۔ انہوں نے بار بار آئینی حدود میں رہتے ہوئے معاملات کی بات کی اور پاور شو کیا۔ مولانا کا دھرنا بلاوجہ نہیں ہے۔ اس سے ان کو بہت فائدہ ہوا ہے اور حکومت دباؤ میں آئی ہے مگر یہ طے ہے کہ فی الحال حکومت کہیں نہیں جارہی۔ وہ جماعت جو گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومت میں تھی اس مرتبہ حکومت سے باہر ہے مگر اس کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اب اس احتجاج کی قیادت کر رہی ہے جبکہ بڑی جماعتیں اس کے پیچھے ہیں۔ یہ مارچ اگرچہ پر امن ہے مگر دنیا اسے انتہا پسندی سے جوڑ رہی ہے جس کا معاشی طور پر نقصان ہوگا۔ ماضی میں تحریک انصاف کے دھرنے سے 3 ہزارارب روپے جبکہ تحریک لبیک کے دھرنے سے ساڑھے 4 سو ارب کا نقصان ہوا، جے یو آئی کے اس احتجاج میں اگرچہ ایک پتہ بھی نہیں ٹوٹا مگر اس کا معاشی نقصان ضرور ہوگا جس کا تخمینہ ابھی لگایا جائے گا۔ اسلام آباد دارالحکومت ہے، اگر یہ اتنا ہی کمزور ہوجائے کہ جب جس کا جی چاہے وہ احتجاج کے لیے آجائے تو دنیا میں اچھا تاثر نہیں جائے گا اور نہ ہی ملک پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے لہٰذا سیاسی حقوق استعمال کرتے ہوئے اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ اس سے ملک کا نقصان نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔