عمران کا کرکٹ خواب: کیا ہورہا ہے، کیا ہونا چاہیے؟

حسنین انور  منگل 5 نومبر 2019
عمران خان ملک میں آسٹریلیا کی طرز پر 6 ایسوسی ایشنز چاہتے تھے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان ملک میں آسٹریلیا کی طرز پر 6 ایسوسی ایشنز چاہتے تھے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کے وزیراعظم اور سابق عظیم کرکٹر عمران خان کا پاکستان کرکٹ کے حوالے سے ایک دیرینہ خواب تھا، وہ اپنے دیگر کئی خوابوں کی طرح اپنے اس خواب کے بارے میں بھی مختلف فورمز اور مواقعوں پر اظہار خیال کرچکے اور چاہتے تھے کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ اس نظام کو رائج کرکے دنیائے کرکٹ میں پاکستان کو ٹاپ پر لے جائیں گے۔

عمران خان ملک میں آسٹریلیا کی طرز پر 6 ایسوسی ایشنز چاہتے تھے جن سے کرکٹ کے ٹیلنٹ کو نکھارا، سنوارا اور پھر ان میں سے ہیرے چھانٹ کر قومی ٹیم میں لے جایا جاتا۔ وہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے حق میں بالکل نہیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جنہیں ٹیموں کو اسپانسر کرنا چاہیے ان کی خود اپنی ٹیمیں ہیں جوکہ کسی بھی صورت میں کھیل کے فروغ میں معاون ثابت نہیں ہوسکتا۔

خواب دیکھنا اور بات کرنا بہت آسان مگر خوابوں کو تعبیر دینا اور باتوں کو عملی جامہ پہنانا بہت ہی مشکل، کٹھن اور صبر آزما کام ہے۔ اس کےلیے آپ کو صرف اختیار ملنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنی سوچ پر درست انداز میں عمل درآمد کرانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کےلیے آپ کو ایک ایسی ٹیم درکار ہوتی ہے جوکہ آپ کی سوچ کو سمجھتی، اس کی حامی اور اس پر من و عن عملدرآمد میں سنجیدہ ہو۔

عمران خان نے کرکٹ میں انقلاب کےلیے جو خواب دیکھا اس کی تعبیر کےلیے انہوں نے اپنے ایک پرانے ’کرم فرما‘ احسان مانی کا انتخاب کیا۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ کتنے قابل ہیں، کتنے دیانتدار ہیں، کتنی وسیع سوچ رکھتے ہیں اور انہیں کتنا تجربہ ہے، ہم صرف اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا انہیں عمران خان نے اپنا جو خواب تھمایا تھا کیا وہ اس کی تعبیر کےلیے درست سمت میں گامزن ہیں یا نہیں۔ دوسرا یہ کہ کیا پاکستان کرکٹ میں عمران خان جو انقلاب لانا چاہتے تھے وہ برپا ہوسکے گا یا نہیں۔ اور تیسری و سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ میں عمران خان کے خواب کے عین مطابق حقیقی انقلاب کےلیے درحقیقت کیا اقدامات کرنا چاہئیں۔

عمران خان نے کافی عرصہ قبل اپنے ایک انٹرویو میں خود سے ہونے والے غلط انتخاب کا ایک واقعہ سنایا تھا کہ ویسٹ انڈیز سے میچ کے دوران دن کے اختتامی لمحات میں جب انہیں وکٹیں بچائے رکھنے کا چیلنج درپیش تھا، وہ لاہور کے ایک کھلاڑی (بقول خان صاحب ’رنگباز‘) کی باتوں میں آکر انہیں بیٹنگ کےلیے بھیج بیٹھے۔ مذکورہ کھلاڑی نے عمران خان سے کہا تھا کہ ’کپتان آپ بس مجھے اجازت دے دیں پھر دیکھیں میں کیا کرتا ہوں‘ اور جب کپتان نے اجازت دی تو وہ بوکھلائے ہوئے انداز میں نان اسٹرائیک پر جا پہنچا، جہاں پر موجود سلیم ملک نے انہیں اسٹرائیک پر جانے کا اشارہ کیا۔ لحیم شحیم ویسٹ انڈین بولر کے سامنے حقیقت میں مذکورہ کھلاڑی کی ٹانگیں کانپ رہی اور وہ دن ختم ہونے سے قبل گرنے والی وکٹوں میں ایک اور کا اضافہ کرکے پویلین واپس لوٹ آیا۔

یہ سارا قصہ ہوبہو اسی طرح عمران خان نے بیان کیا تھا۔ اس کو یہاں پر دہرانے کا صرف ایک مقصد ہے کہ عمران خان سے بھی کسی کا غلط انتخاب ہوسکتا ہے مگر بہتر یہی ہے کہ اگر کوئی توقعات پر پورا نہیں اتر رہا تو پھر اس کو زیادہ مواقعے دینے کے بجائے کوئی اور کام سونپ دیا جایا، جس کو وہ شاید زیادہ بہتر انداز میں انجام دے سکتا ہو۔

عمران خان کو اسی وقت سمجھ جانا چاہیے تھا کہ ’ان تلوں میں تیل نہیں‘ جب احسان مانی نے ہارون رشید کی ہمراہی میں ایک جعلی انقلاب کا منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا تھا، جسے انہوں نے فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے حقیقی انقلاب کا حکم دیا۔ مگر اس کے بعد جو منصوبہ پیش کیا گیا وہ دراصل ’ہومیوپیتھک انقلاب‘ تھا۔ دوسرے جھمیلوں میں مصروف عمران خان نے انہیں اس پر عملدرآمد کا سگنل دے دیا، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اس ’جعلی تبدیلی‘ سے حقیقی انقلاب آہی نہیں ہوسکتا۔ اس پر تفصیل سے بات کرنے سے قبل ایک چھوٹی سی مثال پیش کرنا چاہوں گا کہ آئی سی سی نے تمام کرکٹ بورڈز کو حکم دیا کہ وہ خود کو حکومتی اثرورسوخ سے آزاد کریں۔ جس کے جواب میں پی سی بی کی جانب سے ایسا آئین تیار کیا گیا جس سے ’سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں چیئرمین کا تقرر بالکل اسی طرح ہوتا ہے جس طرح ساروگنگولی منتخب ہوئے یا جس طرح انگلینڈ اور آسٹریلیا میں بورڈ چیئرمین بنتے ہیں؟

بالکل اسی طرح ایک جعلی ڈومیسٹک سسٹم بناکر وقتی طور پر عمران خان کو خاموش تو کرادیا گیا، مگراس سے حقیقی انقلاب کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ جب 3 سلیکٹرز 3 سیزنز کے اعدادوشمار پر 12 ٹیموں (فرسٹ اور سیکنڈ الیونز) کا انتخاب کریں گے تو آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہوگی۔ نیا تبدیل شدہ ڈومیسٹک سیزن جاری ہے۔ کیا کسی نے کھیل کے معیار میں بہتری محسوس کی؟ کیا شائقین کرکٹ نے اس کا نوٹس لیا؟ کیا صوبائی ٹیموں کے باہمی مقابلوں میں کوئی حقیقی مسابقت دکھائی دی؟ ان سب سوالوں کا فقط ایک جواب ہے اور وہ ہے ’نہیں‘۔

عمران خان کا کرکٹ انقلاب اس وقت ہی کامیاب ہوسکتا ہے جب اس پر حقیقی روح کے مطابق عمل ہو۔ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پی سی بی میں سب کچھ اپنے کنٹرول میں رکھنے کی خواہش ہے، جس کو بورڈ میں برس ہا برس سے باریاں لینے والے لوگ نہ صرف توانا رکھے ہوئے بلکہ ہر نئے آنے والے حکام کو بھی اپنے رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔

عمران خان کا کرکٹ انقلاب حقیقت میں برپا ہوسکتا ہے، اگر

1: سب سے پہلے تمام 6 ریجنل ایسوسی ایشنز میں رجسٹرڈ کلبز کی بنیاد پر آزادانہ اور شفاف انتخاب کروا کر حقیقی قیادت کا انتخاب عمل میں لایا جائے۔

2 : منتخب باڈیز کو مکمل طور پر بااختیار اور خودمختار بنایا جائے۔ انہیں ایسوسی ایشن کو پیشہ ورانہ انداز میں چلانے کےلیے ضروری تربیت فراہم کی جائے۔

3: پی سی بی، پاکستان کرکٹ میں حصے (کنٹری بیوشن) کی بنیاد پر ان ایسوسی ایشنز کےلیے اپنے ریونیو میں سے خاطر خواہ حصہ مقرر کرے اور فنڈز کا سالانہ آڈٹ کرایا جائے۔

4 : ٹیلنٹ کو تلاش کرنے، ان کو نکھارنے، کھیل کو گراس روٹ پر فروغ دینے اور اسکول و کلب لیول کے ٹورنامنٹس کا انعقاد مکمل طور پر ان ایسوسی ایشنز کی ذمے داری ہونا چاہیے۔

5 : ملک بھر میں موجود تمام کرکٹ اسٹیڈیمز متعلقہ ایسوسی ایشنز کو ایک یا دو برس کی آزمائشی بنیادوں پر دینا چاہئیں، اس عرصے میں وینیوز کی دیکھ بھال اور عملے کی تنخواہوں وغیرہ کی ذمے داری ان ایسوسی ایشنز پر ڈالی جائے۔

6 : ایسوسی ایشنز کو لازمی طور پر اپنے ریجن کے انتہائی باصلاحیت 20 سے 25 کھلاڑیوں کا پول تیار کرنا اور انہیں سالانہ ڈومیسٹک کنٹریکٹس دینا چاہئیں تاکہ وہ اپنی معاشی پریشانیوں سے آزاد ہوکر کھیل پر توجہ مرکوز رکھ سکیں۔

7 : بورڈ ہر ایسوسی ایشن کو مضبوط مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ قائم کرنے میں مدد فراہم کرے تاکہ وہ اپنے متعلقہ بڑے شہروں میں موجود مقامی انڈسٹری سے اسپانسر شپ حاصل کرسکیں تاکہ انہیں مکمل طور پر بورڈ سے ملنے والے حصے پر ہی انحصار نہ کرنا پڑے۔

8 : ملک میں آہستہ آہستہ انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہورہی ہے اور پاکستان سپر لیگ کا بھی مکمل طور پر ملک میں انعقاد ہونے والا ہے، اس لیے ’گیٹ آمدنی‘ میں متعلقہ ایسوسی ایشن کا باقاعدہ حصہ مقرر ہونا چاہیے۔ اسی طرح جن ایسوسی ایشنز کے وینیوز پر فی الحال مقابلوں کا انعقاد ممکن نہیں تو وہ ٹھیک اسی طرح اپنے ہوم مقابلوں کی میزبانی دوسرے شہروں میں کریں جیسے پاکستان یو اے ای میں کھیلتا رہا ہے اور انہیں بھی گیٹ آمدنی میں حصہ دینا چاہیے۔

یہ وہ چند تجاویز ہیں جن پر عمل کرنے سے ہی ڈومیسٹک کرکٹ میں حقیقی مسابقت پیدا ہوگی، حقیقی ٹیلنٹ سامنے آئے گا اور جب کھلاڑی میدان میں اپنی ٹیموں کی کامیابی کےلیے جان لڑائیں گے تو ان کی سپورٹ کےلیے شائقین خود ہی اسٹیڈیمز میں کھنچے چلے آئیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Husnain Anwer

حسنین انور

بلاگر بیس سال سے میدان صحافت میں ہیں اور ایکسپریس گروپ سے منسلک ہیں۔ انہیں ٹویٹر ہینڈل@sapnonkasodagar پر فالو اور [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔