کرتار پور اور بھارت کے حوالے سے پالیسی

مزمل سہروردی  پير 4 نومبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان نے کرتارپور کے لیے سکھ زائرین کو بہت رعایتیں دے دی ہیں۔ حتیٰ کے پاسپورٹ کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ اب بھارتی سکھ اپنا کوئی بھی شناختی کاغذ جس میں بھارتی شناختی کارڈ سمیت دیگر کاغذ شامل ہیں دکھا کر پاکستان میں داخل ہو سکیں گے۔ کیا یہ سہولت جائز ہے؟ کیاعمران خان حکومت نے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے؟

میرے کچھ تحفظات ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ پاکستان کی طرف سے رعایت نہیں بلکہ بھارت کی شرط ہے۔ کرتارپور کوریڈور کے اعلان کے بعد بھارت نے یہی موقف لیا تھا کہ ہم اس کے لیے ویزہ اور پاسپورٹ کی شرط کو جائز نہیں سمجھتے۔ ہم پاکستان میں عوام کو جو مرضی تاثر دے لیں، پراپیگنڈہ کی اس لڑائی میں اکثر عوام سے حقائق چھپائے جاتے ہیں۔

اس لیے کرتارپور یاترا کے لیے سکھ یاتریوں کے لیے پاسپورٹ اور ویزہ کی شرائط کا خاتمہ  بھارتی شرائط میں شامل تھاجس کو ہم نے تسلیم کیا ہے۔ اسی لیے مودی کرتارپور کے افتتاح کے موقعے پر کرتار پور سے ملحقہ بھارتی علاقے میں جلسہ بھی کر رہے ہیں۔ وہ سکھ یاتریوں کے پہلے جتھے کو الوداع بھی کریں گے ۔ جس میں بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ اور سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ شامل ہوںگے۔ یہ سب لوگ بغیر پاسپورٹ اور ویزہ کے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھیں گے۔ وہ وہاں پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ہم کرتار پور ایسے ہی جائیں گے جیسے ہم بھارت کے باقی علاقوں میں جاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس میں پاکستان کا فائدہ ہے یا بھارت کا۔

کرتار پور کے افتتاح کے موقعے پر ایک طرف پاکستان کے وزیر اعظم اس کو اپنی فتح قرار دے رہے ہوںگے دوسری طرف سرحد پار تین کلومیٹر پر مودی اس کو اپنی فتح قرار دے رہے ہوںگے۔ ایک طرف عمران خان اس کو اپنی سفارتی کامیابی قرار دیں گے دوسری طرف پاسپورٹ کی شرط ختم ہونے کو مودی اپنی کامیابی قرار دیں گے۔ کیا حسین منظر ہوگا۔ دونوں فریق اپنی اپنی کامیابی کا جشن منائیں گے۔ دونوں ایک دوسرے کی ہار کا اعلان کریں گے۔

مجھے یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر صرف کرتارپور پر ہی پاسپورٹ کی شرط کیوں ختم کی گئی ہے۔ اگر ہم سکھ یاتریوں کو پاکستان میں ان کی مذہبی رسومات میں آسانیاں دینا چاہتے ہیں تو پھر ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب اور دیگر مذہبی جگہوں پر بھی بغیر پاسپورٹ اور ویزہ کے جانے کی اجازت دے دیں۔ یہ کیا منطق ہے کہ کرتار پور کے لیے تو پاسپورٹ اور ویزہ نہیں چاہیے لیکن ننکانہ صاحب کے لیے چاہیے۔ کیا دونوں پاکستان میں نہیں ہیں۔ اس سے تو یہ لگ رہا ہے کہ ہم ننکانہ صاحب کو تو پاکستان کا حصہ مانتے ہیں لیکن کرتار پور کو نہیں مان رہے۔

ایسے میں سوال یہ بھی ہے کہ صرف بھارت کے سکھوں کو ہی رعایات کیوں دی جا رہی ہیں۔ایسی رعایات بھارتی مسلمانوں کو کیوں نہیں دی جا رہی ہیں۔ ہم یہ اعلان کیوں نہیں کر رہے کہ بھارت کے مسلمان اگر پاکستان آنا چاہیں تو ہم ان کو بغیر ویزہ اور پاسپورٹ کے پاکستان آنے کی سہولت دیں گے۔ شاید یہ اعلان دو قومی نظریہ کے زیادہ قریب ہو۔ بھارتی مسلمانوں کے لیے پابندیاں اور سکھوں کے لیے رعایات کوئی قابل فہم بات نہیں ہے۔

مجھے ابھی تک پاکستان کی بھارت کے حوالے  سے پالیسی سمجھ نہیں آرہی۔ ایک طرف ہم مودی کو ہٹلر قرار دے رہے ہیں۔ ایک طرف بھارت FATFکے ذریعے پاکستان کے لیے معاشی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ دوسری طرف کشمیر کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ بھارت کی ہوم منسٹری کی جانب سے بھارت کا جو نیا نقشے جاری کیا گیا ہے۔ اس میں آزاد کشمیر گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس نقشے کی اشاعت پر نہ صرف احتجاج کیا ہے بلکہ اس کو مسترد بھی کیا ہے۔ لیکن ایک طرف بھارت پاکستانی علاقوں کو بھارت میں شامل کرکے سرکاری نقشے جاری کر رہا ہے دوسری طرف ہم کرتار پور میں پاسپورٹ کی شرط بھی ختم کر رہے ہیں۔

جس دن بھارت کی وزارت داخلہ نے متنازعہ نقشے جاری کیا ہے۔ اس دن پاکستان کی حکومت کرتارپور کی تصاویر جاری کر رہی ہے۔ یہ کیسی پالیسی ہے۔ اسی طرح دیکھیں جولائی میں پاکستان نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں غیر مستقل ممبر کے لیے بھارت کو ووٹ دے دیا۔ اور اس ووٹ کے چند دن بعد بھارت نے کشمیر میں آرٹیکل 370ختم کر کے وہاں کرفیو نافذ کر دیا۔ یہ ہماری کیسی حکومت جس کو چند پہلے معلوم ہی نہیں تھا کہ بھارت کشمیر میں کیا کرنے جا رہا ہے۔ اور ہم اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے لیے بھارت کو ووٹ ڈال رہے ہیں۔ بھارتFATFکے ذریعے پاکستان پر معاشی پابندیاں لگا رہا ہے، ہم بھارت کو ووٹ دے رہے ہیں، یہ کیسی خارجہ پالیسی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ آج کل سوال بھی نہیں کیا جاسکتا۔

حکومت کی بھارت پالیسی شدید ابہام کا شکار ہے۔ ایک طرف ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف ہم بھارت کے ساتھ محاذ آرائی بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف ہم لڑائی سے بچنا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف لفظی جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم بھارت کا دشمن نمبر ون اسٹیٹس بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں لیکن دشمن کے ساتھ جنگ کو بیوقوفی بھی قرار دیتے ہیں۔ ہم تعاون بھی چاہتے ہیں لیکن دوستی کے بھی خلاف ہیں۔ ہم کبھی تجارت شروع کر دیتے ہیں کبھی بند کر دیتے ہیں۔ کبھی ائیر سپیس کھول دیتے ہیں کبھی بند کر دیتے ہیں۔ ہم کرکٹ کھیلنے کے لیے بے تاب ہیں ۔ یہ کیا خارجہ پالیسی ہے۔

ایک طرف بھارتی اور FATFکے دباؤ میں ہم نے حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کو پابند سلاسل کیا ہوا ہے۔ کل تک کشمیر کے لیے چندہ جمع کرنا محب وطن ہونے کی نشانی تھی، آج ایسا نہیں ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم بھارت کے سامنے بے بس ہو گئے ہیں۔ آج پاکستان میں اپوزیشن اس پوزیشن میں ہی نہیں ہے کہ وہ اپوزیشن کا کردار ادا کر سکے۔

بیچاری اپوزیشن کو مقدمات کے ایسے جال میں پھنسا دیا گیا ہے۔ جہاں اپوزیشن کا کردار ادا کرنا نا ممکن ہو گیا ہے۔ ایسے میں کوئی اس حکومت سے کیا سوال کر سکتا ہے۔ میڈیا بھی  مشکلات کا شکار ہے ۔ ایسے میں حکومت کے لیے ایک کھلا میدان ہے کہ ا س کا جو دل کرتا ہے کرے۔ چاہے تو یہ اعلان کر دے کہ ہم تو کشمیر کا مقدمہ جیت رہے تھے بس مولانا کے دھرنے کی وجہ سے ہار گئے۔ ہم نے تو بس کشمیر آزاد کرو الینا تھا، بس مولانا کے دھرنے نے آزادی چھین لی۔ کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ اس موقعے پر جب کشمیر میں کئی ماہ سے کرفیو ہے۔ ظلم کی انتہا ہو گئی ہے بھارت کے ساتھ کرتار پور کھولنے کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔

ہمیں گلہ ہے کہ کشمیر پر دنیا نے ہمارا ساتھ نہیں دیا ہے۔ وہاں اب ہم جب اس ماحول میں کرتار پور بغیر پاسپورٹ اور ویزہ کے لیے کھول رہے ہیں دنیا نہیں کہے گی ایک طرف آپ بھارت کے ساتھ بارڈر کھول رہے ہیں دوسری طرف ہم سے مدد مانگنے کیوں آئے ہیں۔ جب آپ خود بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں تو ہم سے کیوں کہہ رہے ہیں کہ ہم بھارت سے تعلقات خراب کریں۔ کیا اس موقعے پرحکومت کی کرتار پور پالیسی کشمیر کے لیے درست کہی جاسکتی ہے۔ لیکن آج کوئی یہ سوال بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ ریاست مدینہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔