آئیے، مظلوم کو دل کھول کر بے عزت کریں!

خرم شہزاد  بدھ 6 نومبر 2019
خود سے سوال کریں کہ آپ کی پوسٹیں کسی کی کتنی مدد کرسکتی ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

خود سے سوال کریں کہ آپ کی پوسٹیں کسی کی کتنی مدد کرسکتی ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک واقعہ کہیں سنا تھا لیکن سنانے سے پہلے میں تمام موٹیویشنل اسپیکرز سے معذرت چاہوں گا کہ ان کی دل آزاری مطلوب نہیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ کچھ موٹیویشنل اسپیکرز کو ایک چرسی مل گیا۔ انہوں نے اس چرسی کا بہت خیال رکھا، محنت کی اور موٹیویٹ تو بہت زیادہ کیا۔ آخر محنت رنگ لائی اور اسے چرس چھوڑنے پر راضی کرلیا۔ اب وہ شخص ان کی ٹیم کا حصہ بن گیا اور جہاں بھی ان موٹیویشنل اسپیکرز کو بلایا جاتا وہ اسے بھی ساتھ لے جاتے اور اپنی کامیابیوں کی ایک کہانی کے طور پر اسے سامنے کر دیتے۔ کہتے کہ یہ ہمارے بھائی شبیر ہیں، پہلے چرسی تھے لیکن اب ان کو زندگی کا موٹیو مل گیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے چرس چھوڑدی ہے۔ ہاں تو بھائی شبیر ان سب کو بھی بتائیے کہ آپ نے چرس کیسے چھوڑی اور اب آپ کی زندگی میں کیا بدلاؤ آیا ہے؟ شبیر صاحب شرمندہ شرمندہ اپنی مختصر سی داستان سناتے لیکن ایک بار تو وہ رو ہی پڑے اور کہنے لگے کہ بھائیو بات یہ ہے کہ جب تک میں چرس پیتا تھا، میرے مالک نے میرا پردہ رکھا ہوا تھا، لیکن جب سے اصلاح ہوئی ہے پوری دنیا کو پتہ چل رہا ہے کہ میں چرسی تھا۔

یہ واقعہ مجھے پچھلے دنوں سندھ میں ایک لڑکی کے زیادتی کیس کے بعد یاد آیا اور دل افسوس میں ڈوبتا چلا گیا، جب مختصر سے وقت میں کم از کم درجن بھر سے زائد لوگوں نے صرف فیس بک پر اس لڑکی کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے سب کو بتایا کہ یہ لڑکی فلاں نام، فلاں جگہ کی رہائشی، اس کے والد کا نام اور کام یہ تھا اور اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ حکومت اور پولیس پر لعنت بھیجیں جو اس مظلوم کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ میرا حلقہ احباب بہت ہی مختصر سا ہے لیکن اگر اس مختصر حلقے میں بھی مجھے ایک درجن سے زائد پوسٹوں سے واسطہ پڑا ہے تو پانچ ہزار کی فرینڈ لسٹ والے احباب کے پاس تو کئی سو مرتبہ یہ پوسٹ پہنچی ہوگی اور فیس بک سے باہر باقی سوشل میڈیا کے نیٹ ورکس پر کس طرح اور کتنی تعداد میں اس لڑکی کا چرچا کیا گیا ہوگا یہ صرف آپ سوچ سکتے ہیں۔

سوال یہ نہیں ہے کہ اب اس لڑکی کی زندگی کا نیا موڑ کیسا ہوگا۔ ہاں لیکن سوال یہ ضرور ہے کہ یوں کسی لڑکی کی تصاویر لگا کر درجن بھر پوسٹیں کرنے سے اس لڑکی کو انصاف کیسے ملے گا؟ پہلے لوگ بدنامی کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں جا بستے تھے۔ وہ لڑکی جس پر قیامت گزری، ابھی تک صرف اس کے محلے والے اس کے بارے جانتے تھے، آپ سب لوگوں نے اپنی نام نہاد ہمدردیوں کے بعد ان کے شہر چھوڑ کر جانے کی امید بھی ختم کردی کہ اب تو وہ پورے پاکستان میں جانی پہچانی شخصیت ہوگئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اب وہ لڑکی اور اس کے گھر والے کہاں منہ چھپائیں؟ اپنی پوسٹوں اور کمنٹس کی وجہ سے آپ بہت دردمند بننے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مجھے کوئی اس شخص سے متعارف کب کروائے گا جس نے پوسٹ لگانے کے بجائے اپنے دوست وکیل کو کسی مظلوم کا مفت میں کیس لڑنے پر راضی کیا ہو یا کسی وکیل کی فیس اپنی جیب سے ادا کی ہو؟ افسوس اس بات کا ہے کہ جب لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی تو اس کی بدنامی ایک محدود حلقے تک تھی لیکن نام نہاد ہمدردوں کے میسر آنے پر نہ تو ظالم کا کچھ بگڑا، نہ پولیس حرکت میں آئی، نہ وزیراعظم نے نوٹس لیا، نہ وزیراعلیٰ اس کے گھر پہنچا۔ لیکن پورے پاکستان کے کئی لاکھ لوگوں تک اس لڑکی کی تصویر البتہ پہنچ گئی کہ دیکھ لو اس لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔

بات صرف ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کیس تک محدود نہیں بلکہ ہمارے ہاں اب یہ چلن ہی چل نکلا ہے کہ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی فاروڈ پوسٹ چل نکلتی ہے کہ فلاں علاقے میں یہ ظلم ہوا اور تھوڑی دیر بعد سارے فیس بکی مجاہدین اس پوسٹ کو اپنی اپنی دیواروں پر سجا کر ثواب دارین کما نے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے صرف ایک ہفتے پہلے کی پوسٹ کے بارے بات کرلیں کہ جناب ہفتہ بھر پہلے آپ نے فلاں واقعے پر بہت دھواں دھار پوسٹیں لکھی تھیں تو اس واقعے کا کیا ہوا؟ یقیناً جواب نہیں ملے گا کیونکہ اس واقعے کی ریٹنگ ہی نہیں رہی تو اس پر بات کرنا ان کے لیے وقت ضائع کرنے جیسا ہوتا ہے۔ اگر آپ زیادہ اصرار کریں تو شائد بلاک بھی کردیے جائیں، یعنی کہ ہم عجب لوگ ہیں کہ بس ظلم اور زیادتی کی داستانوں کے پھیلاؤ اور لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے مفت میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے سوشل میڈیا صارفین خود کوالتحریر چوک میں بیٹھا ہوا سمجھتے ہیں اور وہاں سے اٹھنے پر راضی ہی نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بس فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر پوسٹیں کرنے سے حالات بدل جاتے ہیں، تبدیلی آجاتی ہے اور ظلم رک جائے گا۔

انہی سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر بہت سے وکیل موجود ہیں لیکن کیا کبھی آپ نے سنا کہ فلاں وکیل نے فیس بک پر اٹھانے جانے والے فلاں معاملے پر جذبات میں آکر اور ظلم و زیادتی کے خلاف عملی آواز اٹھاتے ہوئے اس کیس کی پیروی کا اعلان کیا ہے۔ فلاں ایف آئی اے اہلکار نے ذاتی دلچسپی سے متعلقہ تھانے کو مدد فراہم کی اور ملزمان گرفتار ہوئے۔ کیا ظلم و زیادتی کرنے والے کسی بھی شخص کے کسی محلے دار اور رشتے دار کے بارے آپ بتا سکتے ہیں کہ اس نے سلطانی گواہ بنتے ہوئے انصاف کا بول بالا کرتے ہوئے اپنے محلے دار یا رشتہ دار کی گرفتاری میں مدد کی ہو۔

ایسے درجنوں سوال ہیں لیکن ہر سوال کا جواب نفی میں ہے اور یہ نفی ہمارے معاشرے کی نفی کی عکاسی کرتی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں کس قدر منفی کردار کے حامل ہیں۔ ہم دوسروں کو نفی کرنا جانتے ہیں، ہم سے نفی اور منفی بات کی ہی توقع کی جائے کہ مثبت نہ ہمارا جواب ہوتا ہے اور نہ ہمارا رویہ ہوتا ہے۔ آج کہیں بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ہر شخص آواز اٹھا رہا ہے، موبائل اٹھا رہا ہے اور وڈیو بنا کر لائیکس اور کمنٹس اٹھا رہا ہے، لیکن مظلوم کو کوئی نہیں اٹھا رہا۔

مظلوم بھی ہمارے معاشرے میں بڑھتے جارہے ہیں اور ظالم بھی، آواز اٹھانے والے بھی بڑھتے جا رہے ہیں اور انہی آوازوں کو لاپروائی سے ان سنی کرنے والے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات صرف اتنی ہے کہ کیا ہماری پوسٹوں سے کسی مظلوم کی مدد ہوتی ہے یا پھر ہم بھی کسی ظالم وڈیرے کے سفاک دوستوں کی طرح مظلوم کو دیکھ کر چسکے لیتے ہیں، خود ظلم نہیں کرتے لیکن بدنام کرنے میں بھی کوئی کسر بھی نہیں چھوڑتے۔ ظالم نے تو رحم نہیں کیا لیکن خدارا آپ ہی مظلوم پر رحم کریں اور خود سے سوال کریں کہ آپ کی پوسٹیں کسی کی کتنی مدد کرسکتی ہیں اور کہیں ان پوسٹوں کی وجہ سے مظلوم کو مزید ذلیل تو نہیں کیا جارہا؟

اگر ایسا ہے تو اپنے رویے کو بدلیں کیونکہ سوشل میڈیا پر تو سبھی ہیں اور آج پوسٹیں لکھنے والے کل کسی پوسٹ کا حصہ بن جائیں، نہ تو یہ ناممکن ہے اور نہ آج کے دور میں اسے انہونی سمجھا جائے گا۔ دوسروں کو مدد اور ہمدردی کے نام پر ذلیل کرنے سے بچیں، شائد کل کو یہ بچت آپ کے بھی کام آ جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔