120 برس سے سیدھا ہوکر تیرنے والا پراسرار درخت

ویب ڈیسک  جمعرات 7 نومبر 2019
اوریگون کی ایک جھیل میں درخت کا تنا 120 سال سے پانی میں عموداً موجود ہے اور اب بھی حرکت کررہا ہے۔ فوٹو: اوڈٹی سینٹرل

اوریگون کی ایک جھیل میں درخت کا تنا 120 سال سے پانی میں عموداً موجود ہے اور اب بھی حرکت کررہا ہے۔ فوٹو: اوڈٹی سینٹرل

اوریگون: امریکا کی ایک خوبصورت جھیل میں درخت کا ایک تنا مسلسل 120 سال سے عمودی (سیدھا) رخ کے ساتھ بہہ رہا ہے لیکن اس کی وجہ خود ماہرین بھی نہیں جانتے۔

اس درخت کے تنے کو ’اولڈ مین آف دی لیک‘ یعنی جھیل کا بوڑھا آدمی کہا جاتا ہے۔ جس جھیل میں یہ بہتا ہے وہ خود بھی ایک شہابِ ثاقب کے ٹکرانے سے بنی ہے اور یوں جھیل بھی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ اس میں بہنے والا سفید اور اجاڑ درخت کا تنا شاخ در شاخ کھردرا ہوچکا ہے۔ پانچ سال میں یہ تیرتے ہوئے 400 میٹر آگے پہنچ چکا ہے۔

جب اس پر مزید تحقیق کی گئی تو ماہرین حیران رہ گئے کہ درخت کا یہ تنا صرف ایک دن میں چار میل تک دور جاتے دیکھا گیا ہے لیکن اس کے آگے بڑھنے کی وجہ کوئی نہیں جان سکا۔

اس درخت کی کاربن ڈیٹنگ کی گئی تو اس کی عمر 450 سال معلوم ہوئی جن میں سے 120 برس سے یہ جھیل میں موجود ہے جو دنیا کی نویں اور امریکا کی سب سے گہری جھیل ہے۔ ماہرین کے مطابق شاید یہ درخت لینڈ سلائیڈنگ سے پھسل کر جھیل میں آگر تھا لیکن یہ پانی پر لیٹ کر تیرنے کے بجائے عین سیدھی حالت میں کھڑا ہے اور اس کی وجہ اب تک معلوم نہیں ہوسکی۔

طبیعیات کی رو سے یہ ممکن نہیں کہ پانی پر درخت کا تنا عمودی رخ پر تیرسکے یہی وجہ ہے کہ پانی میں درخت افقی حالت میں تیرتے رہتے ہیں۔ درخت کے تنے کی کل لمبائی 9 میٹر ہے اور اس کا قطر 61 سینٹی میٹر ہے۔

درخت کے تنے کا باہر نکلا ہوا حصہ بھدا، بے رنگ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے لیکن اب بھی ایک آدمی کا وزن سہار سکتا ہے۔ ایک پرانی تصویر میں ایک شخص کو اس پر کھڑے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق تنے کے خشک اور ڈوبے ہوئے حصے کے درمیان ایک توازن ہے جس کی وجہ سے یہ عمودی حالت میں تیررہا ہے۔

یہاں رہنے والے افراد کے مطابق درخت جھیل کے موسم کو قابو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 1980ء میں غوطہ خوروں نے اس کی حرکت روکنے کی کوشش کی تھی تو جھیل کا موسم بگڑ گیا تھا اور شدید طوفان آیا تھا تاہم ماہرین نے اسے رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک درخت اتنی بڑی جھیل کے موسم پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔