احتجاج جمہوریت کا حسن مگر سیاسی عدم استحکام بھی بڑھتا ہے

شاہد حمید  بدھ 6 نومبر 2019
وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف پر یہ آشکار ہوگیا ہے کہ جیسا انہوں نے کیا تھا ویسا دیگر بھی کر سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف پر یہ آشکار ہوگیا ہے کہ جیسا انہوں نے کیا تھا ویسا دیگر بھی کر سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

پشاور:  صورت حال حسب توقع بندگلی کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمن، وزیراعظم عمران خان کے استعفے اورنئے عام انتخابات سے کم بات کر نہیں رہے جبکہ دوسری جانب حکومت، وزیراعظم کے استعفے پربات کرنے کے لیے نہ توتیار ہے اورنہ ہی اس مطالبے کوسنجیدگی سے لے رہی ہے کیونکہ یہ مطالبہ ماننا گویا حکومت کی شکست اور اقتدارکے خاتمے کے مترادف ہوگا اسی لیے حکومت جہاں ایک جانب اپوزیشن جماعتوں کی رہبرکمیٹی سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے تو وہیں دوسری جانب حکومت نے اپنی صف بندی بھی مکمل کر لی ہے۔

حکومت نے اپنے طور پر بڑے واضح انداز میں فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر جے یوآئی اوردیگر سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی”حد” سے آگے بڑھیں گے تواس کے بعد قانون حرکت میں آئے گا اور بھرپور ایکشن لیا جائے گا، مولانا فضل الرحمن اوران کے ساتھیوں نے بڑی حکمت سے اسلام آباد میں داخلے کاانتظام توکر لیا اور اب اگرکسی طریقے سے وہ ریڈزون میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے حکومت کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی اور اہم مقامات کا تحفظ کرنا مشکل ہوجائے گا اسی لیے حکومت نے ریڈزون پرکسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے جس میں کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کیاجائے گا۔

یہ بات روزاول ہی سے مولانا فضل الرحمن کو معلوم تھی کہ اگر وہ اسلام آباد پہنچتے ہیں تو اس کے بعد سارا زور بھی ان ہی پر ہوگا کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی، مولانا فضل الرحمن کی کامیابی کودیکھنے کی بجائے اپنی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے چلیں گی کیونکہ بہرکیف دونوں پارٹیوں کی قیادت کو بخوبی معلوم ہے وہی”گورنمنٹ ان ویٹنگ” ہیں اس لیے وہ کبھی بھی بندگلی کا رخ نہیں کریں گے کہ جہاں سے ان کی واپسی مشکل ہو جائے بلکہ وہ تمام تر معاملات اور صورت حال کودیکھتے ہوئے ہی آگے بھی بڑھیں گے اور فیصلہ سازی بھی کی جائے گی لیکن دوسری جانب مولانا فضل الرحمن کی صورت حال یہ ہے کہ وہ انتہائی قدم اٹھاکر بندگلی میں پھنس چکے ہیں۔

اسی لیے وہ ڈیڈ لائنز کاسہارا لیے ہوئے ہیں لیکن ظاہری سی بات ہے کہ انھیں اب یا تو یوٹرن لیتے ہوئے واپسی کی راہ اختیار کرنی ہوگی یا پھر رہبرکمیٹی کے کورٹ کی طرف بال پھینکتے ہوئے معاملات کو آگے کی طرف دھکیلتے ہوئے اپنی واپسی کے لیے راہ ہموارکرنی ہوگی کیونکہ وہ اگر اسلام آباد میں بیٹھے ڈیڈ لائن پر ڈیڈ لائن دیتے رہیں تو بات نہیں بنے گی کیونکہ ان ڈیڈ لائنزکے دباؤمیں آکر وزیراعظم عمران خان مستعفی ہوتے نظرنہیں آرہے۔

چہرے پر مسکراہٹ سجا کر پارٹی ورکروں سے تقریرکرنا الگ بات ہے تاہم یہ بات خود مولانا فضل الرحمن بھی جانتے ہیں کہ یہ معاملہ زیادہ نہیں کھینچا جا سکتا کیونکہ آنے والے دنوں میں موسم میں شدت آتی چلی جائے گی اور ایسے میں پارٹی ورکروں کواسلام آباد میں زیادہ دیر تک روکنا مشکل ہوگااور پھر پارٹی کے وہ ورکر جوکاروبارسے منسلک ہیں وہ بھی آخرکب تک سب کچھ چھوڑچھاڑ کر اسلام آباد بیٹھے رہیں گے وہ بھی اس صورت میں کہ ان کے سامنے عمران خان اور پی ٹی آئی کے 126روزہ دھرنے کے نتائج بھی پڑے ہوں کہ دھرنوں سے نہ توحکومت کورخصت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وزیراعظم سے استعفٰی لیا جا سکتا ہے اور” کاکڑفارمولے” جیسی کوئی راہ بھی دکھائی نہیں دے رہی ایسے میں اگرکوئی درمیانی راہ نکل سکتی ہے تو یہ کام رہبرکمیٹی ہی کر سکتی ہے کہ جس میں تمام پارٹیوں کی نمائندگی موجود ہے۔

اس میں توکوئی دو رائے نہیں کہ اسلام آبادکی جانب کیے جانے والے آزادی مارچ کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن کے قدکاٹھ میں اضافہ ہوا ہے اور وہ ایک بڑے لیڈر بن کر ابھرے ہیں جس کی ملکی سیاست میں ضرورت بھی تھی کیونکہ بے نظیر بھٹوکی شہادت اور نوازشریف کے سیاسی منظرسے ہٹنے کے بعد قومی سطح پر سیاست بانجھ پن کاشکار لگ رہی تھی اوران حالات میں مولانا فضل الرحمن بخوبی اپنی دھاک بٹھانے میں کامیاب رہے ہیں، تاہم بڑے لیڈرکے طور پر ابھرکرسامنے آنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ حکومت کو رخصت کر کے ہی خود کوثابت کریں بلکہ اس موقع پر سب سے زیادہ مفاہمت اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہے اور اس کام میں مولانا فضل الرحمن سے ماہرکون ہو سکتاہے۔

چودھری برادران اس معاملے میں شامل ہو چکے ہیں اور ان سطور کی اشاعت تک ممکنہ طور پر چودھری شجاعت حسین اور مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقات ہو چکی ہوگی جبکہ دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی پوزیشن بھی واضح ہو چکی ہوگی کہ وہ کہاں کھڑی ہیں جس کی بدولت مولانا فضل الرحمٰن کو بھی فیصلہ لینے میں آسانی ہو جائے گی کیونکہ اس وقت مولانا فضل الرحمٰن کوئی واضح فیصلہ لینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہے اور انھیں دیگر سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان کے ساتھ کھڑی ہوں اور جو بھی فیصلہ ہو وہ مشترکہ طور پر ہی کیا جائے تاکہ ایک جانب تو اس سے مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی پارٹی کو فیس سیونگ مل سکے جبکہ ساتھ ہی دوسری جانب وہ فیصلہ کسی ایک پارٹی کا نہ ہو بلکہ تمام پارٹیوں کا مشترکہ ہو اور اس مشترکہ فیصلے کی بدولت کوئی راہ لی جا سکے۔

مولانا فضل الرحمٰن اپنی اس ساری مشق کی بدولت وزیراعظم سے استعفٰی لے پاتے ہیں یا نہیں، یہ ایک الگ بات ہے تاہم وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف پر یہ آشکار ہوگیا ہے کہ جیسا انہوں نے کیا تھا ویسا دیگر بھی کر سکتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔