حکومت اور اپوزیشن کو معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنا ہونگے

ارشاد انصاری  بدھ 6 نومبر 2019
اس وقت افواہ سازفیکٹری کی چمنیاں ان ہاوس تبدیلی،قومی حکومت اورمڈٹرم انتخابات سمیت بہت سی افواہوں کا دھواں چھوڑرہی ہیں۔

اس وقت افواہ سازفیکٹری کی چمنیاں ان ہاوس تبدیلی،قومی حکومت اورمڈٹرم انتخابات سمیت بہت سی افواہوں کا دھواں چھوڑرہی ہیں۔

 اسلام آباد:  وفاقی دارالحکومت میں ایک دفعہ پھر سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے، ایک طرف مولانا اور ان کے اتحادی دوسری طرف حکومت ۔ مولانا کے دھرنے کو ایک ہفتہ ہونے کو ہے اور حکومت اور اپوزیشن میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، مولانا کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم کا استعفٰی لیے بغیر نہیں لیے جائیں گے۔

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وزیراعظم ہاؤس میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر دفاع اور کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک سمیت پرویز الہٰی، نورالحق قادری، اسد عمر اور شفقت محمود شریک تھے۔اجلاس میں کمیٹی نے وزیراعظم کو گزشتہ روز اپوزیشن کی رہبر کمیٹی اور مولانا فضل الرحمان سے ہونے والی ملاقات سے متعلق آگاہ کیا۔

بعدازاں تمام تر صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے وزیراعظم نے کمیٹی سے کہا کہ جو بھی آپ فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا۔ وزیراعظم نے مذاکراتی ٹیم کو مکمل اختیار دیتے ہوئے استعفے کے علاوہ کوئی بھی جائز اورآئینی مطالبہ ماننے کی منظوری دے دی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے قانون سازی اور پارلیمنٹ کے حوالے سے مطالبات منظور ہوں گے لیکن استعفے کی خواہش قبول نہیں ہوگی۔

دوسری طرف حکومت کی طرف سے جو مذاکراتی کمیٹی بنائی گئی ہے وہ بھی ناکام دکھائی دیتی ہے، مولانا کے ساتھ اتحادی بھی سیڈ لائن ہوتے جا رہے، پیپلزپارٹی اور ن لیگ مولانا کے ساتھ دھرنے کے حوالے سے جو پالیسی ہے اس میںاختلاف کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔

دوسری جانب سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر چوہدری برادران کی انٹری ہوئی ایک اسسپیشل طیارے کے ذریعے لاہور سے اسلام آباد لایا گیا جو کہ اب بہت ہی اہمیت اختیارگئی ہے کیونکہ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی کو سیاست میں لے دے کر معالات حل کرنے کے ماہر کہا جاتا ہے، مولانا فضل الرحمن کی چوہدری برادران سے ملاقات ہوئی اور اب ایک امید سی لگ گئی کہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں، اب حکومت اور مولانا کے درمیان ڈیڈ لاک ختم ہو گا اور کوئی اہم پیش رفت ہوگی اور اگر معالات پھر ڈیڈلاک کی طرف چلے گئے تو پاکستان میں ایک سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، حکومتی نمائندوں کو اپنے لہجے میں نرمی دکھانا ہو گی کیونکہ حکومت میں جو ہوتا ہے اس پر زیادہ ذمہ د اری بنتی ہے اور اس وقت پاکستان کسی سیاسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔

اس وقت افواہ ساز فیکٹری کی چمنیاں ان ہاوس تبدیلی، قومی حکومت اور مڈ ٹرم انتخابات سمیت بہت سی افواہوں کا دھواں چھوڑ رہی ہیں، یہاں تک کے ان ہاوس تبدیلی کی صورت وزارت عظمٰی کا ہما شاہ محمود قریشی تو کبھی چوہدری برادران کے حمایت یافتہ امیدوار تو کبھی قومی حکومت کے نامزد امیدوار کے سر بٹھانے کیلئے مختلف نام بھی زبان زدعام ہیں، مگر وہیں سیاسی پنڈتوں کی جانب سے اور بھی بہت سی کنڈلیاں ملائی جا رہی ہیں اور سیاسی شطرنج کی بساط اس طرح بچھائی گئی ہے کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے فوری بعد سویلن کپتان کی تبدیلی اتنی جلدی ممکن ہو سکے گی اور بعض حلقے ایک نہیں دو استعفوں کی بات کر رہے ہیں تو کچھ لوگوں کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ایسے موقع پر کوئی نوٹیفکیشن معطل ہو سکتا ہے اور اگر ہوگا تو اس کے کیا اثرات ہونگے، لہٰذا یہ سیاسی ریشم کی گتھی کچھ اس طرح الجھی ہے کہ سیاسی و دیگر مقتدر قوتیں اس سوچ میں پڑی ہیں کہ کس دھاگے کو جدا کس سے کریں کیونکہ سیاسی ریشم الجھتی ہی چلی جا رہی ہے۔

ایسے میں حکومت اور حزب اختلاف کو مسائل افہام و تفہیم سے حل کرنا ہوں گے اور اب دیکھنا یہ ہو گا کہ مولانا اور ان کی رہبر کمیٹی کیا فیصلہ کرتی ہے اور کن مطابات پر دھرنا ختم کرتے ہیں۔ دوسری جانب دھرنا اسلام آباد کے شہریوں کے لیے درد سر بن گیا ہے کیونکہ ہر طرف کنیٹنر ہی کنٹینر ہیں، شہری گھر میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس سارے معاملے میں افواج پاکستان کا بھی ایک بیان سامنے آیا ہے ، پاک فوج نے کہا ہے کہ آزادی مارچ کے حوالے سے حکومت آئین اور قانون کے تناظر میں جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل ہو گا۔

میجر جنرل آصف غفور نے ردعمل میں کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن سینیئر سیاست دان ہیں، وہ بتائیں کس ادارے کی بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج نے الیکشن میں آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کی، اپوزیشن اپنے تحفظات متعلقہ اداروں میں لیکرجائیں ہماری سپورٹ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ ہوتی ہے، یوں سڑکوں پر آ کر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ملکی استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت دی جا سکتی ہے، حکومتی اور اپوزیشن کمیٹیاں بہترین تعاون کیساتھ چل رہی ہیں۔

ردعمل میں مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آئی ایس پی آر نے واضح کر دیا میں نے کس ادارہ کی بات کی ہے ۔ ان کا اصرار تھا کہ اداروں کو خود کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے کیونکہ وہ اداروں سے تصادم نہیں چاہتے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے الٹی میٹم پر وزیر دفاع اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا کہ اگر جے یو آئی ف نے انتظامیہ کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی تو قانون خود حرکت میں آئے گا۔

پرویز خٹک نے کہا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کوئی بھی کرے، قانونی چارہ جوئی ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ کل کور کمیٹی کے اجلاس میں موجودہ صور تحال پر بات ہوگی، تمام صورت حال وزیراعظم عمران خان خود مانیٹر کر رہے ہیں ، ہم نے معاہدہ کیا ہوا ہے اس کی پاسداری کریں گے، ہم نے کوئی ڈیل نہیں کرنی، معاہدے کی پاسداری ہوگی۔ اس وقت مولانا فضل الرحمن اور حکومت کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان ان باتوں کا متحمل نہیں اور معاملات کو مذاکرات کے ذریعے جلد از جلد حل ہونا چاہیے۔

دوسری جانب پاکستان کی معاشی صورتحال بد تر سے بد تر ہوتی جا رہی ہے، مہنگائی اتنی ہے کہ ایک عام پاکستانی کا گزارہ ہی نہیں ہو رہا حکومت اور آئی ایم ایف کے ایک دفعہ پھر اسلام آباد میں مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان کو انسداد منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے اور ایف اے ٹی اے کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اکتوبر 2019 تک موثر اقدامات کرنے ہیں۔

عہدیدار نے بتایا کہ وزارت خزانہ نے ایف اے ٹی ایف کا معاملہ آئی ایم ایف کے معاشی پروگرام سے الگ کرنے کی بات واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے اجلاسوں کے دوران اٹھایا تھا۔ وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر اور فنانس سیکرٹری کامران بلوچ پر مشتمل وفد نے آئی ایم ایف کی انتظامیہ اور گورنرز سے ملاقات کی تھی۔

اس ماحول میں ایک اور اہم پیش رفت ہوئی ہے وہ ہے اسحاق ڈار کے حوالے سے خبر سامنے آ رہی ہے کہ انٹرپول نے حکومت پاکستان کے ریڈ نوٹس کو مسترد کر دیا ہے لیکن یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے، شہزاد اکبر اس سارے معاملے کو دیکھ رہے تھے اور ایک بیان میں شہزاد اکبر نے بتایا کہ انٹرپول نے یہ ’ریڈ نوٹس‘ جاری کرنے سے متعلق پاکستان کی درخواست اس سال اگست میں مسترد کی تھی۔ شہزاد اکبر کے مطابق انٹرپول کی پوری کارروائی خفیہ ہوتی ہے اور اسحاق ڈار نے انٹرپول کا یہ پرانا فیصلہ میڈیا پر لا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کوئی نئی پیش رفت ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ انٹرپول نے سابق وزیر خزانہ کو خط کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ وہ کسی ریڈ نوٹس پر نہیں اور ان سے متعلق کسی قسم کی کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن نے انٹرپول کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مسلم لیگ نواز اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے اور جماعت کی ترجمان مریم اورنگزیب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسحاق ڈار کو سرخرو کر دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔